آج – 07؍فروری 1882
مصحفی کے شاگرد، ممتاز استاد شاعر” اسیؔر لکھنؤی صاحب “ کا یومِ وفات…
سیّد مظفر علی نام، اسیؔر تخلص، ۱۸۰۰ء میں امیٹھی (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ فارسی کی کتابیں اپنے والد سے اور عربی صرف ونحو اپنے چچا اور علمائے فرنگی محل سے لکھنو میں پڑھیں۔ مصحفی کے شاگرد تھے۔ نصیرالدین حیدر، امجد علی شاہ اور واجد علی شاہ کے دور حکومت میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ واجد علی شاہ نے’تدبیر الدولہ مدبر الملک بہادر جنگ‘ کا خطاب عنایت کیا۔ بادشاہ کبھی کبھی ان سے مشورہ سخن کرتے تھے۔ جب بادشاہ(واجد علی شاہ) کلکتہ جانے لگے تو انھوں نے رفاقت منظور نہ کی جس سے بادشاہ آزردہ خاطر ہوئے۔زوال سلطنت اودھ کے بعد رام پور میں نواب یوسف علی خاں اور نواب کلب علی خاں کے دربار سے منسلک رہے۔ ٧؍فروری ۱۸۸۲ء کو لکھنؤ میں انتقال ہوا۔ امیر مینائی ،ریاض خیرآبادی اور شوق قدوائی ان کے مشہور تلامذہ ہیں۔ چھ دیوان اردو کے چھوڑے جن میں چار چھپ چکے ہیں۔ ایک دیوان فارسی، ایک مثنوی، ’’درۃ التاج‘‘ اور رسالہ عروض بھی شائع ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ مرثیے اور قصائد بھی بہت سے لکھے۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
استاد شاعر اسیؔر لکھنوی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
کس طرح آئے تری بزمِ طرب میں آئنہ
ہے نظر بند آج کل شہر حلب میں آئنہ
ہند سے اس تک جو لے جائے کوئی تصویرِ یار
شرم سے لیلیٰ نہ دیکھے پھر عرب میں آئنہ
بزم میں بلوائے جلدی کہ اک مدت سے ہے
اشتیاق زلف و خط و چشم و لب میں آئنہ
نوکری بھی کی تو حیرانی فقط ہم کو ملی
آرسی تنخواہ میں پائی طلب میں آئنہ
شیخ صاحب تا کجا آرائش ریش سپید
دیکھیے شانہ بلا میں ہے غضب میں آئنہ
ساقیا یہ آئنہ ہے تیرا مے خانہ نہیں
ہے ہر اک ساغر کف بنت العنب میں آئنہ
دیکھنے جاتا ہے اس کو تاب نظارہ نہیں
سادہ لوح اس سے ہوا مشہور سب میں آئنہ
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
اسیؔر لکھنؤی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ