آج – ٢٠؍جولائی ١٩٥١
فلم ’کہو نہ پیار ہے‘ کے نغموں کے لیے مشہور اور معروف شاعر” ابراہیم اشکؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام ابراہیم خان غوری، تخلص اشکؔ ہے، ابراہیم اشکؔ کا شمار معروف شاعروں اور نغمہ نگاروں میں ہوتا ہے انہوں نے کئی مقبول فلموں اور سیریلوں کے لئے نغے اور اسکرپٹ لکھیں۔ نغمہ نگاری کا آغاز فلم ’کہو نہ پیار ہے‘ سے کیا۔ اس فلم کے نغمے آج بھی اسی دلچسپی کے ساتھ سنے جاتے ہیں۔ نغموں کے علاوہ ان کی غزلوں کے متعدد البم ریلیز ہوئے۔
اشکؔ کی پیدائش ٢٠؍جولائی ١٩٥١ء کو اجین، مدھیہ پردیش میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اجین میں ہی حاصل کی۔ اس کے بعد ہندی ادبیات میں ایم اے کیا۔
اشک بہت زرخیز تخلیقی طبیعت کے مالک تھے۔ انہوں نے متعدد شعری اصناف میں بہت کثرت سے شاعری کی۔ غزلیں کہیں ، نظمیں کہیں ، دوہے کہے۔ ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ’الہام‘ اور ’ آگہی‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اشک نے شاعری کے ساتھ تنقید بھی لکھی ۔ اقبال اور غالب پر ان کی کتابیں ان کی ثروت مند تنقیدی فکر اعلامیہ ہیں۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر ابراہیم اشکؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے
ہم ایسے لوگ زمانے میں پھر کہاں ہوں گے
—
زندگی وادی و صحرا کا سفر ہے کیوں ہے
اتنی ویران مری راہگزر ہے کیوں ہے
—
بس ایک بار ہی توڑا جہاں نے عہدِ وفا
کسی سے ہم نے پھر عہدِ وفا کیا ہی نہیں
—
خود اپنے آپ سے لینا تھا انتقام مجھے
میں اپنے ہاتھ کے پتھر سے سنگسار ہوا
—
نہ دل میں کوئی غم رہے نہ میری آنکھ نم رہے
ہر ایک درد کو مٹا شراب لا شراب دے
—
مجھے نہ دیکھو مرے جسم کا دھواں دیکھو
جلا ہے کیسے یہ آباد سا مکاں دیکھو
—
تھی حوصلے کی بات زمانے میں زندگی
قدموں کا فاصلہ بھی یہاں ایک جست تھا
—
کوئی بھروسہ نہیں ابر کے برسنے کا
بڑھے گی پیاس کی شدت نہ آسماں دیکھو
—
کس لیے کترا کے جاتا ہے مسافر دم تو لے
آج سوکھا پیڑ ہوں کل تیرا سایا میں ہی تھا
—
چلے گئے تو پکارے گی ہر صدا ہم کو
نہ جانے کتنی زبانوں سے ہم بیاں ہوں گے
—
ﮐﺮﯾﮟ ﺳﻼﻡ ﺍﺳﮯ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﮮ
ﺍﻟٰﮩﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺣﺠﺎﺏ ﻧﮧ ﺩﮮ
—
ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ ﻣﺮﺍ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮨﮯ
ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﺩﻝ ﮐﮧ ﺷﮩﺮ ﺗﻤﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﮯ ﭼﻞ
—
ﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺮﮨﻨﮧ ﺗﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﻣﻮﺟﻮﺩ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺪﻥ ﭘﺮ ﻟﺒﺎﺱ ﺗﮭﺎ
—
ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﻧﮑﻼ
ﺷﻤﻊ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﻼﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﭘﺮﻭﺍﻧﮯ ﮐﻮ
—
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﭼﺎﮨﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﮎ ﺳﻔﺮ
ﺍﺱ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺭﮨﺎ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺑﭽﮭﮍ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ
—
ﺑﮑﮭﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﻮﮒ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ
ﺍﻧﺴﺎﮞ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻋﺠﺐ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﺗﮭﺎ
—
نہیں ہے تم میں سلیقہ جو گھر بنانے کا
تو اشکؔ جاؤ پرندوں کے آشیاں دیکھو
ابراہیم اشکؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ