آج – 31؍جنوری 1933
بھارت کے ممتاز اور معروف شاعر” شاذؔ تمکنت صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام سیّد مصلح الدین ، ڈاکٹر۔ ٣١؍جنوری ۱۹۳۳ء کو حیدرآباد، ( دکن، بھارت) میں پیدا ہوئے۔ مخدوم محی الدین پر مقالہ لکھ کرڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۸؍اگست ۱۹۸۵ء کو حیدرآباد دکن میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’نیم خواب ‘، ’ورق انتخاب‘، ’تراشیدہ‘، ’بیاض شام‘ ۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:273
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
ممتاز شاعر شاذؔ تمکنت کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے
—
ان سے ملتے تھے تو سب کہتے تھے کیوں ملتے ہو
اب یہی لوگ نہ ملنے کا سبب پوچھتے ہیں
—
کبھی زیادہ کبھی کم رہا ہے آنکھوں میں
لہو کا سلسلۂ پیہم رہا ہے آنکھوں میں
—
زندگی ہم سے ترے ناز اٹھائے نہ گئے
سانس لینے کی فقط رسم ادا کرتے تھے
—
کتاب حسن ہے تو مل کھلی کتاب کی طرح
یہی کتاب تو مر مر کے میں نے ازبر کی
—
کوئی تو آ کے رلا دے کہ ہنس رہا ہوں میں
بہت دنوں سے خوشی کو ترس رہا ہوں میں
—
ایک رات آپ نے امید پہ کیا رکھا ہے
آج تک ہم نے چراغوں کو جلا رکھا ہے
—
شب و روز جیسے ٹھہر گئے کوئی ناز ہے نہ نیاز ہے
کربلا ترے ہجر میں یہ پتا چلا مری عمر کتنی دراز ہے
—
اس کا ہونا بھی بھری بزم میں ہے وجہ سکوں
کچھ نہ بولے بھی تو وہ میرا طرف دار لگے
—
آگے آگے کوئی مشعل سی لیے چلتا تھا
ہائے کیا نام تھا اس شخص کا پوچھا بھی نہیں
—
سخن راز نشاط و غم کا پردہ ہو ہی جاتا ہے
غزل کہہ لیں تو جی کا بوجھ ہلکا ہو ہی جاتا ہے
—
بڑے خلوص سے دامن پسارتا ہے کوئی
خدا کو جیسے زمیں پر اتارتا ہے کوئی
—
سانسوں میں بسے ہو تم آنکھوں میں چھپا لوں گا
جب چاہوں تمہیں دیکھوں آئینہ بنا لوں گا
—
میری وحشت کا ترے شہر میں چرچا ہوگا
اب مجھے دیکھ کے شاید تجھے دھوکا ہوگا
—
وہ نیاز و ناز کے مرحلے نگہ و سخن سے چلے گئے
ترے رنگ و بو کے وہ قافلے ترے پیرہن سے چلے گئے
—
عذابِ ہجر بھی ہے راحتِ وصال کے ساتھ
ملی تو ہیں مجھے خوشیاں مگر ملال کے ساتھ
—
مانا کہ میرے ظرف سے بڑھ کر مجھے نہ دو
شبنم ہی مانگتا ہوں سمندر مجھے نہ دو
—
میں شاذؔ کیا کہوں کیا روشنی تھی راہوں میں
وہ آفتاب نہ تھا آفتاب جیسا تھا
—
جانے کیا قیمت اربابِ وفا ٹھہرے گی
میں اگر عرض کروں گا تو خطا ٹھہرے گی
—
خواب نادم ہیں کہ تعبیر دکھانے سے گئے
سائے سائے مری نیندوں کے سرہانے سے گئے
—
ہزار جان سے ہم ایک ہیں یہ سچ ہے شاذؔ
رواج و رسم کا لیکن دلوں میں چور بھی ہے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
شاذؔ تمکنت
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ