آج – یکم؍اکتوبر ١٩٠٩
طنز پر مائل جذباتی شدت کے لئے معروف شاعر” اخترؔ انصاری صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام محمد ایوب انصاری، قلمی نام اخترؔ انصاری۔ ترقی پسند فکر وشعور اور نظریے کے اہم ترین شاعر اور نقاد تھے۔ انہوں نے تحریک کی مستقل وابستگی سے الگ رہ کر اس کے نظریات کو عام کرنے اور اسے ایک تنقیدی، فکری اور سائنسی بیناد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی شاعری، تنقید اور افسانے اسی جد وجہد کا اعلامیہ میں۔ ’نغمۂ روح‘ ’آبگینے‘ ’ٹیڑھی زمین‘ ’سرور جاں‘ (شاعری) ’اندھی دنیا اور دوسرے افسانے‘ ’نازو اور دوسرے افسانے‘ (افسانے) ’حالی اور نیا تنقیدی شعور‘ ’افادی ادب‘ (تنقید) وغیرہ ان کی تصانیف ہیں۔
اختر انصاری یکم؍اکتوبر١٩٠٩ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ اینگلو عربک اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی کرنے کے بعد یونیورسٹی اسکول میں ملازم ہوگئے۔ ١٩٤٧ء میں اردو میں ایم اے کیا پھر کچھ عرصے تک شعبۂ اردو میں لکچرر رہے بعد میں ٹرینگ کالج میں ملازمت اختیار کی۔
٥؍اکتوبر ١٩٨٨ء کو انتقال ہوا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر اخترؔ انصاری کے یومِ پیدائش پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
—
ہاں کبھی خواب عشق دیکھا تھا
اب تک آنکھوں سے خوں ٹپکتا ہے
—
وہ ماضی جو ہے اک مجموعہ اشکوں اور آہوں کا
نہ جانے مجھ کو اس ماضی سے کیوں اتنی محبت ہے
—
اپنی اجڑی ہوئی دنیا کی کہانی ہوں میں
ایک بگڑی ہوئی تصویر جوانی ہوں میں
—
شباب نام ہے اس جاں نواز لمحے کا
جب آدمی کو یہ محسوس ہو جواں ہوں میں
—
سمجھتا ہوں میں سب کچھ صرف سمجھانا نہیں آتا
تڑپتا ہوں مگر اوروں کو تڑپانا نہیں آتا
—
آرزو کو روح میں غم بن کے رہنا آ گیا
سہتے سہتے ہم کو آخر رنج سہنا آ گیا
—
کوئی مآل محبت مجھے بتاؤ نہیں
میں خواب دیکھ رہا ہوں مجھے جگاؤ نہیں
—
رگوں میں دوڑتی ہیں بجلیاں لہو کے عوض
شباب کہتے ہیں جس چیز کو قیامت ہے
—
علاج اخترؔ ناکام کیوں نہیں ممکن
اگر وہ جی نہیں سکتا تو مر تو سکتا ہے
—
کوئی روئے تو میں بے وجہ خود بھی رونے لگتا ہوں
اب اخترؔ چاہے تم کچھ بھی کہو یہ میری فطرت ہے
—
دل فسردہ میں کچھ سوز و ساز باقی ہے
وہ آگ بجھ گئی لیکن گداز باقی ہے
—
یاروں کے اخلاص سے پہلے دل کا مرے یہ حال نہ تھا
اب وہ چکناچور پڑا ہے جس شیشے میں بال نہ تھا
—
اے سوزِ جاں گداز ابھی میں جوان ہوں
اے دردِ لا علاج یہ عمر شباب ہے
—
گردشِ افلاک کے ہاتھوں بہت برباد ہیں
ہم لبِ ایام پر اک دکھ بھری فریاد ہیں
—
کیا خبر تھی اک بلائے ناگہانی آئے گی
نامرادی کی نشانی یہ جوانی آئے گی
—
پُر کیف ضیائیں ہوتی ہیں پُر نور اجالے ہوتے ہیں
جب خاک بسر دل ہوتا ہے اور عرش پہ نالے ہوتے ہیں
—
یہ صنم روایت و نقل کے ہبل و منات سے کم نہیں
تیرا فکر واعظ حق نوا کسی سومنات سے کم نہیں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
اخترؔ انصاری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ