آج – 31؍مئی 2009
پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے معروف اور ممتاز شاعر ” حنیف اخگرؔ صاحب“ کا یومِ وفات…
نام سیّد محمد حنیف اور تخلص اخگرؔ تھا۔
٣؍ستمبر ١٩٢٨ء کو قصبہ ملیح آباد ‘ضلع لکھنؤ کے ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی۔ ابتدائی اردو‘ فارسی اور عربی کی مروّجہ تعلیم اور ذہنی و فکری تربیت حنیف اخگر صاحب نے اپنے گھر اور قصبہ ملیح آباد کے مدرسوں سے حاصل کی۔ منشی فاضل کی تعلیم سلیمانیہ کالج بھوپال میں ہوئی‘ پھر 1948ء میں امیرالدولہ اسلامیہ کالج سے ہائی اسکول کا امتحان فرسٹ ڈویژن اور امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔
شعری ذوق اور شاعری کے حوالے سے حنیف اخگر خوش قسمت رہے کہ خالص علمی اور ادبی ماحول اور گھرانے میں پرورش پائی‘ آپ کے والد شریف اثرؔ صاحب اپنے دور کے مقبول اور خوش فکر شاعر تھے‘ اس طرح آپ نے فکری‘ شعری‘ لفظی اور خوش الحانی کی تمام تر توانائیوں کے ساتھ ایک بھر پور شعری سفر کا آغاز کیا ‘ اور دیکھتے ہی دیکھتے شہرت اور مقبولیت کی منزلیں طے کرتے چلے گئے۔
انہوں نے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کراچی میں بینک کی ملازمت سے کیا، جب کہ اس دوران انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ بعدازاں وہ سعودی عرب چلے گئے، اس کے بعد امریکہ چلے گئے اور اقوامِ مُتّحدہ کی انٹرنیشنل سول سروس میں تقریباً سترہ برس مختلف جگہوں پر خدمات انجام دیں۔ اور آخر میں یو این کیپیٹل ڈیویلپمنٹ فنڈ کے ڈویژن چیف برائے ایشیا پیسیفک لائن، امریکہ اور عرب اسٹیٹس ڈویژن کی حیثیت سے 02؍مئی 1989ء کو ریٹائر ہوئے ، اور وقتاً فوقتاً ایکسپرٹ یا کنسلٹنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ، ورلڈ اسمبلی آف سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کے مستقل نمائندہ برائے اقوامِ متّحدہ، نیویارک بھی رہے۔
انہوں نے ادبی ادارہ حلقۂ فن و ادب شمالی امریکہ کی بنیاد ڈالی اور یہاں اُردو زبان و ادب کو فروغ دیا۔
ان کے تین مجموعوں میں "چراغاں" 1989ء، "خیاباں" 1997ء اور نعتیہ شاعری "خلق مجسم" 2003ء شامل ہیں اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی سوانح حیات "اعتراف و انکشاف" بھی لکھی ہے۔ انہیں عالمی اُردو کانفرنس نئی دہلی کی جانب سے عالمی اُردو ایوارڈ اور ”خواجہ میر درد ایوارڈ“ سے بھی نوازا گیا تھا۔ انہوں نے ایک کتاب ”اسٹاک مارکیٹ ان پاکستان“ بھی لکھی ہے۔
حنیف اخگرؔ، ٣١؍مئی ٢٠٠٩ء کو ڈیلاس، ٹیکساس میں انتقال کر گئے۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
معروف شاعر حنیف اخگرؔ کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
اس طرح عہد تمنا کو گزارے جائیے
ان کو خاموشی کے لہجے میں پکارے جائیے
عشق کا منصب نہیں آوازۂ لفظ و بیاں
آنکھوں ہی آنکھوں میں ہر اک شکوہ گزارے جائیے
دیکھیے رسوا نہ ہو جائے کہیں رسم جنوں
اپنے دیوانے کو اک پتھر تو مارے جائیے
آئنہ پہ جو گزرنا ہو گزر جائے مگر
آپ یوں ہی زلف برہم کو سنوارے جائیے
جذبۂ دل کا تقاضا ہے کہ بازی جیت لوں
احتیاط عشق کہتی ہے کہ ہارے جائیے
ہو سکے تو دل کی حالت خود ہی آ کر دیکھیے
غیر کی سنئے نہ کہنے پر ہمارے جائیے
کچھ تو لطف لمس آغوش تلاطم چاہیے
تا کجا اخگرؔ کنارے ہی کنارے جائیے
༺━━━━━━━━━━━━━━━༻
دیکھو تمہیں جھگڑے کی شُرُ وعات کرو ہو
پھر مجھ سے وہی ٹیڑھے سوالات کرو ہو
کرنے کو تو جینے کی مِرے بات کرو ہو
سچ یہ ہے کہ تم موت کو بھی مات کرو ہو
معلوم نہیں کیسے بسر رات کرو ہو
آنکھوں سے یہ لگتا ہے کہ برسات کرو ہو
تم کو بھی مُحبّت کا کوئی روگ لگا ہے
ظاہر تو کچھ ایسی ہی علامات کرو ہو
دستُورِ حجاباتِ نظر رکھو ہو مَلحُوظ
اغیار سے بھی چھُپ کے مُلاقات کرو ہو
گویا تنِ تنہا ہے، سرِ بزم بھی اخگرؔ
دیکھو ہو اُسے تم ، نہ کوئی بات کرو ہو
══━━━━✥•••✺◈✺•••✥━━━━══
تم خود ہی محبت کی ہر اک بات بھلا دو
پھر خود ہی مجھے ترکِ محبت کی سزا دو
ہمت ہے تو پھر سارا سمندر ہے تمہارا
ساحل پہ پہنچ جاؤ تو کشتی کو جلا دو
اقرارِ محبت ہے ، نہ انکارِ محبت
تم چاہتے کیا ہو؟ ہمیں اتنا تو بتا دو
کُھل جائے نہ آنکھوں سے کہیں رازِ محبت
اچھا ہے کہ تم خود مجھے محفل سے اٹھا دو
سچائی تو خود چہرے پہ ہو جاتی ہے تحریر
دعوے جو کریں لوگ تو آئینہ دکھا دو
انسان کو انسان سے تکلیف ہے اخگرؔ
انسان کو تجدیدِ محبت کی دعا دو
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
حنیف اخگرؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ