آج – 15؍اپریل 1912
بے حد دلکش ترنّم، اپنے زمانے کے مشاعرے کے سب سے مقبول اور سجیلی غزلوں کے شاعر” نشورؔ واحدی صاحب“ کا یومِ ولادت…
جمیل احمد کے فرزند ،سجیلی غزلوں کے شاعر ،نثار اور طبیب حفیظ الرحمن دنیائے ادب میں نشورؔ واحدی کے نام سے جانے گئے۔ والد فارسی کے عالم اور شاعرتھے ۔ وہ یکتا تخلص کرتے تھے ۔نانا عبد الرشید بھی فارسی کے عالم تھے۔نشور کے گاؤں کی زبان بھوجپوری تھی ۔وہ موسیقی کی باریکیوں سے بھی واقف تھے ۔غلیل بازی اور مچھلی کے شکار سے انہیں لگاؤتھا ۔ پیدل چلنا پسند کرتے تھے ۔ایک زمانے میں وہ کانپور میں مشرقی علوم کے منتہی کی حیثیت سے مشہور ہوئے ۔کم سنی میں ہی معلم ہوئے اور بعد میں حلیم مسلم کالج کانپور میں اردو فارسی کے لکچرار بھی ہوئے ۔درس و تدریس کا فریضہ انجام دیتے ہوئے انہوں نے طب کی سند بھی حاصل کی ۔جب وہ 13سال کے تھے اور اکبر الٰہ آبادی کے کمرے میں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے تو انہیں ایک مصرعہ طرح دیا گیا تھا ،اس کے بعد وہ شعر کہنے لگے ۔ابتدا میں فارسی میں شعر کہے ۔ نشور نے مزاحیہ شاعری بھی کی۔ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے انہوں الیہ نشورؔ سے اپنا تخلص منتخب کیا۔ان کا ترنم بے حد دلکش تھا اور ایک زمانے میں مشاعرے میں بہت مقبول تھے ۔ 1977میں انہیں اردو کا مہاکوی بھی کہا گیا ۔مولانا روم کی مثنوی کا منظوم ترجمہ کیا ۔اسلامی فلسفہ حیات پر ان کی گہری نگاہ تھی ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
مقبول شاعر نشورؔ واحدی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
انجامِ وفا یہ ہے جس نے بھی محبت کی
مرنے کی دعا مانگی جینے کی سزا پائی
—
اغیار کو گل پیرہنی ہم نے عطا کی
اپنے لیے پھولوں کا کفن ہم نے بنایا
—
اسی کو زندگی کا ساز دے کے مطمئن ہوں میں
وہ حسن جس کو حسنِ بے ثبات کہتے آئے ہیں
—
ایک رشتہ بھی محبت کا اگر ٹوٹ گیا
دیکھتے دیکھتے شیرازہ بکھر جاتا ہے
—
تاریخِ جنوں یہ ہے کہ ہر دور خرد میں
اک سلسلۂ دار و رسن ہم نے بنایا
—
حقیقت جس جگہ ہوتی ہے تابانی بتاتی ہے
کوئی پردے میں ہوتا ہے تو چلمن جگمگاتی ہے
—
دولت کا فلک توڑ کے عالم کی جبیں پر
مزدور کی قسمت کے ستارے نکل آئے
—
خاک اور خون سے اک شمع جلائی ہے نشورؔ
موت سے ہم نے بھی سیکھی ہے حیات آرائی
—
دیا خاموش ہے لیکن کسی کا دل تو جلتا ہے
چلے آؤ جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے
—
زمانہ یاد کرے یا صبا کرے خاموش
ہم اک چراغِ محبت جلائے جاتے ہیں
—
زندگی قریب ہے کس قدر جمال سے
جب کوئی سنور گیا زندگی سنور گئی
—
سرک کر آ گئیں زلفیں جو ان مخمور آنکھوں تک
میں یہ سمجھا کہ مے خانے پہ بدلی چھائی جاتی ہے
—
سلیقہ جن کو ہوتا ہے غمِ دوراں میں جینے کا
وہ یوں شیشے کو ہر پتھر سے ٹکرایا نہیں کرتے
—
گناہ گار تو رحمت کو منہ دکھا نہ سکا
جو بے گناہ تھا وہ بھی نظر ملا نہ سکا
—
میری آنکھوں میں ہیں آنسو تیرے دامن میں بہار
گل بنا سکتا ہے تو شبنم بنا سکتا ہوں میں
—
میں ابھی سے کس طرح ان کو بے وفا کہوں
منزلوں کی بات ہے راستے میں کیا کہوں
—
کس بے بسی کے ساتھ بسر کر رہا ہے عمر
انسان مشتِ خاک کا احساس لیے ہوئے
—
ہزار شمع فروزاں ہو روشنی کے لیے
نظر نہیں تو اندھیرا ہے آدمی کے لیے
—
ہستی کا نظارہ کیا کہئے مرتا ہے کوئی جیتا ہے کوئی
جیسے کہ دوالی ہو کہ دیا جلتا جائے بجھتا جائے
—
ہے شام ابھی کیا ہے بہکی ہوئی باتیں ہیں
کچھ رات ڈھلے ساقی مے خانہ سنبھلتا ہے
—
یہی کانٹے تو کچھ خوددار ہیں صحن گلستاں میں
کہ شبنم کے لیے دامن تو پھیلایا نہیں کرتے
—
نشورؔ آلودۂ عصیاں سہی پر کون باقی ہے
یہ باتیں راز کی ہیں قبلۂ عالم بھی پیتے ہیں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
نشورؔ واحدی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ