آج – 20؍فروری 2016
ممتاز ترین جدید شاعروں میں نمایاں، اپنے ادبی رسالے ’ذہنِ جدید‘ کے لئے مشہور اور معروف شاعر” زبیرؔ رضوی صاحب “ کا یومِ وفات…
زبیرؔ رضوی ، ١۵ اپریل ١٩٣٥ء کو امروہہ (اتر پردیش) میں ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے آل انڈیا ریڈیو کے ساتھ ٣٠ سال تک کام کیا ۔ انہوں نے دہلی اردو اکیڈمی کے سیکریٹری کے طور پر بھی دو سال تک خدمات انجام دیں ۔ ۲٠؍فروری ٢٠١٦ء کو زبیرؔ رضوی انتقال کر گئے۔
ان کے دیگر مجموعہ کلام یہ ہیں :
لہر لہر ندیا گہری (مجموعہ کی نظمیں)، کشتِ دیوار، مسافتِ شب، پرانی بات ہے، دھوپ کا سائباں ، انگلیاں فگار اپنی، وغیرہ شامل ہیں۔
وہ اعلیٰ اردو میگزین " ذہنِ جدید " کے ایڈیٹر تھے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
ممتاز شاعر زبیرؔ رضوی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
ادھر ادھر سے مقابل کو یوں نہ گھائل کر
وہ سنگ پھینک کہ بے ساختہ نشانہ لگے
—
اپنی پہچان کے سب رنگ مٹا دو نہ کہیں
خود کو اتنا غمِ جاناں سے شناسا نہ کرو
—
بھٹک جاتی ہیں تم سے دور چہروں کے تعاقب میں
جو تم چاہو مری آنکھوں پہ اپنی انگلیاں رکھ دو
—
پرانے لوگ دریاؤں میں نیکی ڈال آتے تھے
ہمارے دور کا انسان نیکی کر کے چیخے گا
—
دل کو رنجیدہ کرو آنکھ کو پر نم کر لو
مرنے والے کا کوئی دیر تو ماتم کر لو
—
تم جہاں اپنی مسافت کے نشاں چھوڑ گئے
وہ گزر گاہ مری ذات کا ویرانہ تھا
—
تم اپنے چاند تارے کہکشاں چاہے جسے دینا
مری آنکھوں پہ اپنی دید کی اک شام لکھ دینا
—
زندگی جن کی رفاقت پہ بہت نازاں تھی
ان سے بچھڑی تو کوئی آنکھ میں آنسو بھی نہیں
—
سخن کے کچھ تو گہر میں بھی نذر کرتا چلوں
عجب نہیں کہ کریں یاد ماہ و سال مجھے
—
شام کی دہلیز پر ٹھہری ہوئی یادیں زبیرؔ
غم کی محرابوں کے دھندلے آئینے چمکا گئیں
—
عجیب لوگ تھے خاموش رہ کے جیتے تھے
دلوں میں حرمتِ سنگِ صدا کے ہوتے ہوئے
—
غضب کی دھار تھی اک سائباں ثابت نہ رہ پایا
ہمیں یہ زعم تھا بارش میں اپنا سر نہ بھیگے گا
—
گلابوں کے ہونٹوں پہ لب رکھ رہا ہوں
اسے دیر تک سوچنا چاہتا ہوں
—
نئے گھروں میں نہ روزن تھے اور نہ محرابیں
پرندے لوٹ گئے اپنے آشیاں لے کر
—
کوئی ٹوٹا ہوا رشتہ نہ دامن سے الجھ جائے
تمہارے ساتھ پہلی بار بازاروں میں نکلا ہوں
—
کہاں پہ ٹوٹا تھا ربط کلام یاد نہیں
حیات دور تلک ہم سے ہم کلام آئی
—
ہم نے پائی ہے ان اشعار پہ بھی داد زبیرؔ
جن میں اس شوخ کی تعریف کے پہلو بھی نہیں
—
تھا حرفِ شوقِ صید ہوا کون لے گیا
میں جس کو سن سکوں وہ صدا کون لے گیا
—
کبھی خرد سے کبھی دل سے دوستی کر لی
نہ پوچھ کیسے بسر ہم نے زندگی کر لی
—
تشبیہوں کے رنگِ محل میں کوئی نہ تجھ کو جان سکا
گیت سنا کر غزلیں کہہ کر دیوانے کہلائے ہم
—
یہ زمیں ٹوٹے ہوئے چاند کی کھیتی ہے زبیرؔ
میری راتوں میں بپا کوئی بھی عالم کر لو
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
زبیرؔ رضوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ