آج – 18؍مارچ 1951
ماہرِ تعلیم، مصنفہ، اور معروف پاکستانی شاعرہ” یاسمین حمید صاحبہ “ کا یومِ ولادت…
نام یاسمین حمید، وہ ١٨؍مارچ ١٩٥١ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں ۔ وہ اس وقت لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں شعبہ سوشل سائنس میں کام کررہی ہیں ، وہ اردو ادبی حلقے کی ایک مشہور شخصیت ہیں۔ انہوں نے ہم عصر اردو شاعروں کے کلام کو انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ وہ حکومت پاکستان کے زیر اہتمام ثقافتی / فیشن شو کے انگریزی میں اسکرپٹ بھی لکھتی ہیں۔ ان کی پانچ کتابیں اب تک شائع ہوچکی ہیں : پاس آ ئینہ (1988)
حصارِ بے در و دیوار (1991)
آدھا دن اور آدھی رات (1996)
فنا بھی ایک سراب (2001) ، اور 2007 میں دوسری زندگی (مجموعہ نظمیں ، 1988 ؍ 2001 )۔
انہیں تمغۂ امتیاز برائے ادبیات ، فاطمہ جناح تمغہ ، احمد ندیمؔ قاسمی ایوارڈ ، ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؔ ایوارڈ وغیرہ جیسے مختلف ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعرہ یاسمین حمید کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین…
ہمیں خبر تھی بچانے کا اس میں یارا نہیں
سو ہم بھی ڈوب گئے اور اسے پکارا نہیں
—
خوشی کے دور تو مہماں تھے آتے جاتے رہے
اداسی تھی کہ ہمیشہ ہمارے گھر میں رہی
—
پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی
ہمیں دنیا نظر آنے میں بہت دیر لگی
—
جس سمت کی ہوا ہے اسی سمت چل پڑیں
جب کچھ نہ ہو سکا تو یہی فیصلہ کیا
—
سمندر ہو تو اس میں ڈوب جانا بھی روا ہے
مگر دریاؤں کو تو پار کرنا چاہیئے تھا
—
ذرا دھیمی ہو تو خوشبو بھی بھلی لگتی ہے
آنکھ کو رنگ بھی سارے نہیں اچھے لگتے
—
اپنی نگاہ پر بھی کروں اعتبار کیا
کس مان پر کہوں وہ مرا انتخاب تھا
—
مسلسل ایک ہی تصویر چشم تر میں رہی
چراغ بجھ بھی گیا روشنی سفر میں رہی
—
اگر اتنی مقدم تھی ضرورت روشنی کی
تو پھر سائے سے اپنے پیار کرنا چاہیئے تھا
—
جو ڈبوئے گی نہ پہنچائے گی ساحل پہ ہمیں
اب وہی موج سمندر سے ابھرنے کو ہے
—
میں اب اس حرف سے کترا رہی ہوں
جو میری بات کا حاصل رہا ہے
—
اس کے شکستہ وار کا بھی رکھ لیا بھرم
یہ قرض ہم نے زخم کی صورت ادا کیا
—
ایک دیوار اٹھائی تھی بڑی عجلت میں
وہی دیوار گرانے میں بہت دیر لگی
—
رستے سے مری جنگ بھی جاری ہے ابھی تک
اور پاؤں تلے زخم کی وحشت بھی وہی ہے
—
مری ہر بات پس منظر سے کیوں منسوب ہوتی ہے
مجھے آواز سی آتی ہے کیوں اجڑے دیاروں سے
—
دریا کی روانی وہی دہشت بھی وہی ہے
اور ڈوبتے لمحات کی صورت بھی وہی ہے
—
جہاں تا حد بینائی مسافر ہی مسافر ہوں
نشاں قدموں کے مٹ جاتے ہیں ایسی رہ گزاروں سے
—
مثالِ عکس مرے آئنے میں ڈھلتا رہا
وہ خد و خال بھی اپنے مگر بدلتا رہا
—
ایک اک حرف سمیٹو مجھے تحریر کرو
مری یکسوئی کو آمدۂ زنجیر کرو
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
یاسمین حمید
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ