آج – 15/دسمبر 1979
پنجاب کے ’راج کوی‘، اور اردو کے ایک معروف وممتاز شاعر” عرش ملسیانی صاحب “ کی برسی…
عرشؔ ملسیانی ان کے والد جوشؔ ملسیانی بھی ایک ممتاز شاعر تھے اور داغؔ دہلوی کے شاگرد تھے ۔ عرش کا نام بال مکند تھا لیکن عرش ملسیانی کے نام سے مشہور ہوئے ۔ ان کی پیدائش ۲۰ ستمبر ۱۹۰۸ء کو جالندھر کے ایک چھوٹے سے قصبے ملسیان میں ہوئی ۔ پیشے سے انجینئر تھے اور محکمۂ نہرسے وابستہ رہے ۔ اس کے بعد لدھیانہ کے صنعتی اسکول میں ملازم ہوگئے اور یہیں سے گریجویشن کیا ۔ ۱۹۴۲ میں دہلی آگئے اور ۱۹۴۸ میں پبلی کیشنز ڈویژن کے ادبی رسالے ’’آجکل‘‘ کے نائب مدیر مقرر ہوئے ۔ تقریبا سات سال جوش ملیح آبادی کے رفیق کار رہے ، جوش کے پاکستان چلے جانے کے بعد ان کی جگہ آجکل کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ۔
عرش کی تخلیقی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں وہ ایک اچھے مدیر بھی رہے ، شاعری بھی کی ، ترجمے بھی کئے اور نثر میں مزاحیہ مضامین بھی لکھے ۔ ’ ہفت رنگ ‘ اور ’ رنگ وآہنگ ‘ ان کے شعری مجموعے ہیں ۔ عمر خیام کی رباعیوں کا منظوم ترجمہ ’ ہست وبود ‘ کے نام سے شائع ہوا ۔ ان کے مزاحیہ مضامیں کا مجموعہ ’ پوسٹ مارٹم ‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر عرشؔ ملسیانی کی برسی پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
حسینوں کے ستم کو مہربانی کون کہتا ہے
عداوت کو محبت کی نشانی کون کہتا ہے
یہ ہے اک واقعی تفصیل میری آپ بیتی کی
بیان درد دل کو اک کہانی کون کہتا ہے
یہاں ہر دم نئے جلوے یہاں ہر دم نئے منظر
یہ دنیا ہے نئی اس کو پرانی کون کہتا ہے
تجھے جس کا نشہ ہر دم لیے پھرتا ہے جنت میں
بتا اے شیخ اس کوثر کو پانی کون کہتا ہے
طریقہ یہ بھی ہے اک امتحان جذبۂ دل کا
تمہاری بے رخی کو بد گمانی کون کہتا ہے
بلا ہے قہر ہے آفت ہے فتنہ ہے قیامت کا
حسینوں کی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے
فنا ہو کر بھی حاصل ہے وہی رنگ بقا اس کا
ہماری ہستئ فانی کو فانی کون کہتا ہے
ہزاروں رنج اس میں عرشؔ لاکھوں کلفتیں اس میں
محبت کو سرودِ زندگانی کون کہتا ہے
─━━━═•✵⊰••••••••••••⊱✵•─━━━═
کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
نہ کسی کے دل میں غبار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
یہ چلی ہے کیسی ہوا کہ اب نہیں کھلتے پھول ملاپ کے
کبھی دور فصلِ بہار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تھیں بہم نشاط کی محفلیں تھیں قدم میں لطف کی منزلیں
بڑا زندگی پہ نکھار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تھی ہر ایک بات میں چاشنی حق و صدق و لطف و خلوص کی
رہِ حق پہ چلنا شعار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے لڑ کے ہم سے اگر جدا رکھی اور ملک کی اک بنا
یہ تمہیں کا شوقِ فرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئی جنگ و حرب کی ابتدا تو بتاؤ بس یہی اک پتا
کوئی تم میں ننگِ وقار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
✧◉➻══════════════➻◉✧
وہ وفا و مہر کی داستاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی تو بھی تھا مرا مہرباں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ترے لطف خاص نے جو دیا تری یاد نے جو عطا کیا
غمِ مستقل غمِ جاوداں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو شور لطف سخن رہا وہ جو زور لطف بیاں رہا
مرے ہم سخن مرے ہم زباں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو ترے لیے مرے دل میں تھا جو مرے لیے ترے دل میں تھا
مجھے یاد ہے وہ غم نہاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تری دوستی پہ مرا یقیں مجھے یاد ہے مرے ہم نشیں
مری دوستی پہ ترا گماں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ کرم شعاریٔ دشمناں وہ ستم طرازیٔ دوستاں
مرے نکتہ رس مرے نکتہ داں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو شاخِ گل پہ تھا آشیاں جو تھا وجہ نازشِ گلستاں
گری جس پہ برقِ شرر فشاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مرے دل کے جذبۂ گرم میں مرے دل کے گوشۂ نرم میں
تھا ترا مقام کہاں کہاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
اسے مانتا ہوں میں مہرباں ہیں ترے رفیق بہت یہاں
کبھی میں بھی تھا ترا رازداں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
یہ جو عرشؔ شکوۂ طراز ہے جسے ہرزہ گوئی پہ ناز ہے
یہ وہی ہے شاعر خوش بیاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
عرشؔ ملسیانی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ