یہ بات تصدیق شدہ ہے اور تمام عالمی نقاد اس پر متفق بھی ہیں کہ فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہیوگو کے بعد فرانس میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ناول نگار ایملی زولا ہے، فرانسیسی سے دیگر زبانوں میں ترجمے کے بعد پڑھے جانے کا تناسب بھی یہی ہے۔ جب یورپ کا اقتدار اور کلچر اپنے عروج پر تھا تو فرانس کی تیسری جمہوریہ میں ایملی زولا ایک بڑے ناول نگار کی حیثیت سے ابھرا اور اپنے اسلوبِ بیان سے نام پیدا کیا۔ ایملی زولا نے اپنے عہد کو ایک صحافی کی نظر سے دیکھا‘ مشاہدے اور تجربے سے مواد اکٹھا کیا۔ واقعات اور کرداروں کا ذخیرہ جمع کیا، انہیں ایک منصوبے کی لڑی میں پرویا اور لکھنا شروع کر دیا۔ برسوں تک لکھتا رہا اور پھر تجرباتی اور حقیقی نالوں کا ڈھیر لگا دیا۔ بالزاک سے کوئی اور متاثر ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اس کا سب سے زیادہ اثر زولا نے قبول کیا۔ زولا بھی بالزاک کی طرح ایک بڑا منصوبہ لے کر لکھنے کے میدان میں اترا۔ بالزاک ’’ہیومن کامیڈی‘‘ کا نعرہ لگاتا ہوا آیا۔ 137 ناولوں کا ہدف تھا۔ 91 ناول لکھ کر چلا گیا، ایملی زولا نے بھی اپنے منصوبے کا اعلان کیا۔ اس کے ذہن میں 20 ناولوں کامنصوبہ تھا جو The Rougon-Maequart کے تحت لکھے گئے۔ ناولوں کی یہ لڑی یا سیریز دراصل ایک خاندان کی سوشل نیچرل بائیوگرافیکل کہانی ہے جس کا آغاز فرانس کی دوسری جمہوریہ میں ہوتا ہے۔ پہلا ناول اس خاندان اور اس کے افراد کے تعارف اور ان کی جذباتی اور رومانوی زندگی اور روزمرہ کی خوشیوں اور دکھوں پر مبنی ہے اور باقی 19 ناول اس خاندان کے افراد اور ان کی اولاد کی کہانیوں کے اردگرد گھومتے ہیں۔ ایملی خود کہتا ہے: ’’میں دراصل ایک خاندان اور انسانوں کے اس چھوٹے سے گروہ کو سوشل سسٹم میں چلتے پھرتے دکھانا چاہتا ہوں اور پھر اس گروہ سے جنم لینے والے بچوں کی زندگی کا احاطہ کرنا چاہتا ہوں اور دکھانا چاہتا ہوں کہ وہ بڑے ہو کر ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں یا رشتوں کے دھاگے ٹوٹتے ہیں اور وہ بنے ہوئے معاشرتی نظام میں کیسے زندگی گزارتے ہیں۔ میں یہ سب کچھ فکشن کے دائرے میں دکھانا چاہتا ہوں…‘‘ ایملی زولا نے اپنے اس منصوبے پر عمل کیا اور 20 ناولوں کی سیریز مکمل کی جو بہت کامیاب رہی اور قارئین کو نانا، جرمینل، منی اور ہیومن بیسٹ جیسے ناقابل فراموش ناول دئیے۔ زولا کی اس سیریز کے ناول (1871-1893ء) کے درمیانی عرصے کی سیاسی، معاشرتی، سماجی، خاندانی اور جذباتی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ زولا بہت منہ پھٹ، تلخ مزاج اور سچا لکھاری تھا۔ اس نے مصلحت سے کام لیا نہ اچھے برے حالات سے سمجھوتہ کیا۔ اس نے جو کچھ دیکھا اس پر کھل کر تنقید کی۔ اس نے ایک بار خود کہا تھا: ’’ایک رومانوی مصنف دنیا کو رنگین شیشے سے دیکھتا ہے جبکہ نیچر لسٹ شفاف شیشے سے۔ ‘‘ زولا ایک نیچر لسٹ تھا چنانچہ اس نے نظری اور فکری طور پر دنیا اور دنیا کے مسائل کو رنگین کی بجائے شفاف شیشے سے دیکھا۔ وہ مذہب، پادری اور نپولین بونا پارٹ کے سخت خلاف تھا، چنانچہ اس نے اپنے ناولوں اور مضامین میں کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ ذرانپولین کے عہد کے بارے میں اس کا تبصرہ دیکھیں: ’’میری تحریریں اس رخصت ہونے والے عہد کی آئینہ دار ہیں جو شرمندگی اور پاگل پن کا زمانہ تھا۔‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔