توازن اردو ادب
مورخہ ٢١ جولاٸی ٢٠١٩ توازنِ اردو ادب کا پروگرام نمبر 7 بعنوان ”ہیومین راٸٹس“ (انسانی حقوق) ہوا۔
یہ پروگرام محترم ضیاشیدانی صاحب)(مرحوم) کے نام کیا گیا۔
جس میں تمام احباب ذی وقار اپنی پوسٹس منظوم و مثور پیش کر سکتے ہیں۔ یہ پوسٹس تخلیق یا انتخاب کی صورت مین موصل ہوں گی۔ انسانی حقوق سے مراد بنیادی انسانی حقوق ہی نہیں بلکہ اس میں جملہ حقوق از قسم حقوقِ نسواں، حقوقِ اطفال، حقوقِ مزدوراں، حقوقِ ضُعُفا ٕ و مظاوماں، حقوقِ اسیراں، حقوقٍ مسافراں وغیرہ شامل ہیں۔ آپ کی تحاریر اللہ کریم سے متعین کردہ تمام حقوق العباد کی آگاہی اور ان کے استحصال از قسم سماجی، معاشی، جذباتی اور جنسی کی مذمت میں ہو سکتی ہیں۔
صدرات
محمد زبیر، گجرات، پاکستان ،
پروگرام آئیڈیا
توازن اردو ادب
پروگرم آرگنائزر
احمر جان
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎ۧ؎؎؎
مجموعہ کلام
قرارداد تعزیت
ہم جملہ ممبران توازن اُردو ادب ایک بہت زیرک، لائق فائق، اعلی پائے کے شاعر، ایک بہترین نقاد، خلیق نیز اوصافِ حمیدہ کے حامل، اسم بامسمی یعنی علم و فضل کی ضیا پاشی کرنے والے محترم ضیا شادانی صاحب کے انتقال پُرملال پر تمام شعرا برادری اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
جدائی پر ہی قائم ہے جہانِ زندگانی بھی
بچھڑ جاتا ہے ساحل سے گلے مل مل کے پانی بھی
محترم ضیا شادانی صاحب بلاشبہ ایک قابل انسان تھے۔ ہم سب نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ایسے نادر و نایاب گویر روز روز ہیدا نہیں ہوتے۔
الحمدللہ کہ توازن اردو ادب کے تمام ممبران ان کی خدمات سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ ان کی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے معترف بھی ہیں۔ ہمیں ان کی وفات کا دکھ اور صدمہ تو ایسا ہے کہ مدتوں یہ زخم ہرا رہے گا لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ ان سے سیکھنے کا موقع بھی پایا۔ ہم اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ اس دُرنایاب کے دیدار بھی پائے اور ان سے باتیں بھی کیں۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ انہیں اپنی مغفرت کی ردا سے ڈھانک لے اور اعلٰی علیین میں اپنے حبیب کے قدموں میں جگہ عنایت فرمائے۔ آمین ثم آمین
ہم ہیں
جملہ ممبران توازن اردو ادب
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
غزل
انا کے خول میں اک عرصہ ہا گذار کے میں
ترے دوار پہ آیا ہوں خود کو مار کے میں
تمہارےساتھ جورہتےتھےخوشبوؤں کی طرح
بتاؤ کیسے بھلاؤں وہ دن بہار کے میں
بچھا بچھا کے میں رستوں پہ ان نگاہوں کو
گذارتا ہوں شب و روز انتظار کے میں
نہ جانے کب سے دریدہ بدن گلی میں تری
پڑا ہوا ہوں محبت کی جنگ ہار کے میں
اسی امید پہ نکلا تھا اپنے. گھر سے امین
کہ لوٹ آؤں گا اک دن چمن سنوار کے میں
امین اوڈیرائی
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
” حقوق ِ اِنسانی “
روشن اس ضو سے اگر ظُلمتِ کِردار نہ ہو
خود مُسلماں سے ہے پوشیدہ مُسلماں کامقام
ن۔م۔
اِسلامی تعلیمات میں حقوقِ اِنسانی کا دوسرا نام حقوق العباد ہے
اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر دو طرح کے حقوق فرض کٸے ہیں۔پہلا حق اللہ تعالیٰ نے اپنا فرض قرار دیا ہے۔وہ حق کیا ہے؟ اللہ کو ایک جاننا۔اُسی کی چوکھٹ پر سجدہ کرنا۔اُس کی ذات کو لاشریک قرار دینا۔اُسے موت و حیات ۔جزا و سزا اور پوری کاٸینات کا واحد مالک قرار دینا۔اُس کی ذات پر اُس کے فرشتوں پراور اُس کے تمام انبیا ٕ پر ایمان لانا۔یہ بندوں پر خالقِ کاٸینات کے حقوق ہیں
دوسرا حق انسانوں کا انسانوں پر ہے ۔وہ حق یہ ہے کہ تمام انسانوں کو ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد سمجھنا۔تمام انسانوں کو خُدا کا عیال۔یعنی فیملی قرار دینا۔تمام انسانوں کو ایک جسم ایک جان سمجھنا ۔اور ہر انسان کا دُکھ درد اپنا دُکھ درد جاننا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔کہ قیامت کے روز وہ اِنسانوں کے زمہ اپنے حقوق کو معاف فرماٸیں گے۔لیکن اِنسانوں کے جو حقوق اِنسانوں کے زِمہ ہیں۔وہ حقوق اللہ تعالیٰ اُس وقت تک معاف نہیں کریں گے۔جب تک کہ ایک انسان دوسرے انسان کے مارے گٸے حقوق کو معاف نہیں کراٸے گا۔
آج پوری دُنیا میں ہر مجبور و محکوم انسان اپنے سے طاقتور انسان کے ہاتھوں ہر طرح کے ظُلم و جبر اور ہر طرح کی نا انصافیوں کا شکار ہے۔آج دُنیا کے طاقتور ممالک اور طاقت ور قومیں دُنیا کی محکوم و مجبور اور بے بس قوموں کو مارنے۔ اُن کی بستیوں کو بارودی آگ سے جلانے اور ظُلم و تشّدد کے ہاتھوں اُن کو اپنا غلام بنانے میں لگی ہیں۔
آج امریکہ ، فرانس اوراِسراٸیل جیسی قوتیں پوری دُنیا کے انسانوں پر اپنی بالا دستی اور حُکمرانی قاٸم کرنے کے لٸے ایسے ایسے کیمیاٸی اسلح بنانے میں مصروف ہیں۔ کہ وہ ان خطرناک کیمیاٸی ہتھیاروں کا اِستعمال کر کے پل دو پل میں پوری انسانی مخلوق کو موت کی ابدی نیند سُلا سکتی ہیں۔
اسلام نے سب سے زیادہ حقوق انسانی کے تحفظ اور دفاع پر زور دیا ہے۔پیغمبرِ اسلام کا ایک مشہور فرمان ہے کہ ” خُدا کے ہاں وہی لوگ باعثِ رحمت ہوتے ہیں۔جو مخلوقِ خُدا کے لٸے خود بھی سراپا رحمت ہوں “پیغمبر ِ اسلام کے اس مقدس فرمان کو علامہ اقبال نے کُچھ اس طرح بیان کیا ہے۔
خُدا کے بندے تو ہیں ہزاروں پھرتے ہیں بنوں میں مارے مارے
میں تو اُس کا بندہ ہوں جس کو خُدا کے بندوں سے پیار ہو گا
خُدا کے ہاں تمام انسان برابر ہیں۔کسی کو کسی پر برتری نہیں۔اللہ کے ہاں وہی انسان ایک اچھا انسان ہے۔جس کا اخلاق اچھا ہے۔جو اُس کی تمام مخلوق کے ساتھ اچھا برتاٶ کرتا ہو۔چنانچہ پیغمبرِ اسلام کا ایک مقدس قول یہ بھی ہے کہ وہ مُسلمان ہر گِز مُسلمان نہیں ہو سکتا۔جس کی زبان اور ہاتھ سے اُس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔
پیغمبرِ اسلام نے نہ صِرف انسانی حقوق کے دفاع پر زور دیا ہے۔ بلکہ حیوانوں کے حقوق کے تحفظ پر بھی اسی طرح زور دیا ہے۔اور فرمایا ہے کہ ایک سینگ والی بکری نے اگر بے سینگ بکری کو مارا ہو گا توقیامت کے روز اُس بے سینگ بکری کو اللہ تعالیٰ سینگ والی بکری کے مارنے کا بدلہ دلاٸے گا۔چنانچہ پیغمبرِ اسلام نے فرمایا۔ ” تُم زمین والوں پر رحم کرو تاکہ آسمان والا تُم پر رحم کرے “
آج پوری دُنیا میں انسان انسان کا دُشمن بن چُکا ہے۔انسان ، ا نسان کو مارنے اور اس کا خون بہانے میں لگا ہے۔جب تک پوری انسانی مخلوق میں خالقِ کاٸینات کا بتایا گیا انسانی بھاٸی چارہ قاٸم نہ ہو گا۔مذہبوں کے نام پر کھڑے کٸے گٸےجھگرے اور فساد ختم نہیں ہونگے۔ہر انسان دوسرے انسان کو اپنے جسم کا انگ نہ سمجھے گا۔اُس وقت تک اِنسانی حقوق کا تحفظ اور دفاع نامُمکن ہی نہیں۔بلکہ محال ہے۔مولانہ رومی نے اسی عالمی انسانی بھاٸی چارے کو جس خوبصورت آواز میں بیان کیا ہے۔وہی خوبصورت آواز آسمان و زمینوں کے مالک کی بھی ہے۔
بقول رومی۔
چہ تدبیر اے مُسلماناں کہ از خود را نمی دانم
نہ تَرسا و یہودی ام نہ گِبرم نہ مُسلمانم
نہ شَرقی ام نہ غربی ام نہ بحری ام نہ بَری ام
نہ از ملکِ اعراقی ام نہ از خاک ِ خراسانم
اللہ پاک ہم سب کو انسانی حقوق کی پامالی اور خلاف ورزی سے بچنے کی توفیق عطا کرے۔ اور ہر انسان کو پیغمبرِ اسلامﷺ کے فرمان کے مطابق زندگی گُزارنے کی توفیق عطا کرے۔آمین
روبینہ میر ۔جموں کشمیر ۔ بھارت
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
زندان
زندان کا نام سُنتے ہی۔۔۔۔۔ (قاری یاسامع کے)
زہن میں۔۔۔۔
تہاڑ جیل، کورٹ بلوال، ڈھانگری جیل۔۔۔۔
نہ جانے کتنی ہی جیلوں کانقشہ
آنکھوں کے سامنے گھوم گیا ہو گا
مگر۔۔۔۔
میری مُرادیہاں اُس " زندان" سے نہیں
جہاں پر مُجرموں کو۔۔۔۔
جُرم کی سزا کے لئے۔۔۔
ایک متین وقت وقت کے لئے
قید کیا جاتا ہے۔۔۔۔
بلکہ میری مُراد ۔۔۔
اُس زندان سے ہے۔۔۔
جہاں پر صنفِ نازک کی روح کو۔
قید کیا جاتا ہے۔۔۔۔
زندگی جینے کے عوض میں۔۔۔
اُسے زندہ رہنے کے لئے۔۔۔
سماج کے بنائے گئے قانون کے مابق ہی جینا ہے
نہ کہ اللہ کے بھجے قانون کے مطابق
سماج کے بنائے گئے۔۔۔۔۔۔
قانون کے مطابق۔۔۔
اُسے اپنی روح کو قید کروانا ہے
اپنی آواز کو ( گلہ گھونٹ کر )
دفن کر دینا ہے
اپنی سانس کو روک لینا ہے
جہاں۔۔۔۔
نہ وہ نہ بول سکتی ہے۔۔۔۔۔
نہ رائے دے سکتی ہے۔۔۔۔۔
نہ جانے۔۔۔۔
آپ کی نظر میں کیا ہے یہ؟؟؟
مگر۔۔۔۔
میری نظر میں ۔۔۔
یہ بھی تو ہے۔۔۔
ایک
" زندان "
روبینہ میر ۔جموں کشمیر ۔ بھارت۔
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل حضرت جگر صاحب کی زمین میں۔۔۔۔
یہ کسکا تبسم ہے راعنائیاں ہیں
فضائوں میں کیسی یہ انگڑائیاں ہیں
محبت کی قیمت ادا کر رہا ہوں
مرےساتھ جبتک یہ رسوائیاں ہیں
کہاں ہوں اکیلا غمِ زندگی میں
مرے ساتھ تو میری تنہائیاں ہیں
کوئی دور کردے تو میں مان جائوں
مقدر میں جو بھی پریشانیاں ہیں
نہ آسیب ہے اور نہ جادو ضیاء پھر
مرےساتھ یہ کس کی پرچھائیاں ہیں
ن۔ معلوم
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
ہراک کہا نی میں تم ہو ہراک زمانے میں
ہمارا ذکر کہاں ہے کسی فسانے میں
خدا سے مانگلو جو چاہو سب عطا ہوگا
بتائوکیا نہیں قدرت کے کارخانے میں
بس اپنے فیض کی خاطر ہے دوستی اب تو۔
کہاں کسی محبت ہے اسِ زمانے میں
تمام عمر کا دونا تمام عمر کا غم
بڑی سزا ہے یہ پل بھر کو مسکرانے میں
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
بنیادی انسانی حقوق
تحریر:
احمدمنیب
آدم علیہ السلام وہ پہلے خلیفة اللہ ہیں جن پر پہلی شریعت نازل ہوئی
پہلی شریعت کے حوالے سے عہدنامہ قدیم میں بھی کچھ وضاحت ملتی ہے لیکن قرآن کریم نے ہمیں صاف طور ہر بتایا کہ اس میں چار بنیادی احکام تھے۔
١: پینے کے لیے صاف پانی
٢: رہنے کے لیے مکان
٣: کھانے لیے روٹی اور
۴: پہننے کے لیے کپڑا
یہ وہ بنیادی انسانی حقوق ہیں جو اللہ تعالی، پرمیشور، بھگوان اور گاڈ نے بیان فرمائے۔ اور نگران اور حاکم و حکمران پر ذمہ داری ڈالی کہ عدل و انصاف کے جملہ تقاضے پورے کرتے ہوئے عوام الناس کو یہ بنیادی سہولیات مہیا کی جائیں۔ پس وہی ریاست فلاحی مملکت و ریاست کا درجہ پا سکتی جو اہنے عوام کے بنیادی حقوق کی ذمہ داری درست خطوط پر نبھانے کی کوشش کرتی ہے۔ ورنہ ارسطو سے لے کر افلاطون اور یونانی تہذیب سے چینی تہذیب اور اسلامی تہذیب سبھی اس پر متفق ہیں کہ عدل و انصاف بلا تفریق مذہب و ملت ریاست کا باسی ہونے کی حیثیت میں سب کا بنیادی حق ہے۔ اس استحقاق سے کوئی نسلی، مذہبی یا قومیتی و نظریاتی اختلاف و تعصب کسی فرد واحد کو محروم نہیں کر سکتا۔ لیکن جن ریاستوں میں ناانصافی اور ظلم و تعدی اور مذہبی جبر و اکراہ سے کام لیا جاتا ہے وہ ریاستیں دنیا کے نقشے پر بدامنی، ٹوٹ پھوٹ اور انتشارِمردمی کا شکار بنی رہتی ہیں ان کو نہ ذہنی بالیدگی عطا کی جاتی ہے نہ ظاہری ارتقا ان کے نصیب میں لکھا جاتا ہے بلکہ وہ پسماندہ اور دقیانوس ذہنیت کی شکار ریاستوں کی ذیل میں لکھ دیئے جاتے ہیں۔
ہس اقتدار اور حکمرانی خواہ کسی ریاست کی ہو یا ادارے کی، کسی انجمن کی یو یا گھر کی حکمران اور سربراہ کو چاہیے کہ وہ حاکم مطلق عادل و منصف خدا کو ہی گردانے اور خدائے بزرگ و برتر کے سامنے ہی مدد کا طالب ہو اور عدل و انصاف، امانت و دیانت سے اپنی ذمہ داری سید القوم خادمھم کو سمجھتے ہوئے عاجزی و انکسار سے ادا کرے اور صلہ رحمی کی کوشش کرے اور قطع رحمی سے بچے ورنہ کسی بھی گھر، ادارے، کمپنی یا گروپ کا تار و پود بکھرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
تمام شد
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
انتخاب
نظم ملاحظہ کریں اور اپنی رائے ضرور دیں … نوازش ہوگی…..
عنوان
"آہ رے میرے وطن"
اے وطن تو ہی بتا, کیا حال ہے اس ملک کا
ہر طرف دنگائیوں کا چل رہا ہے سلسلہ
مذہبوں کے نام پر انجان جو تھیں مر گئے
لڑتے لڑتے ملک میں انسان جو تھیں مر گئے
ہر طرف پابندیاں کھانے پہ بس لگتی رہی
گائے تیرے نام, کِتنی بستیاں جلتی رہی
مندر, مسجد نام کا جھگڑا اٹھا ہے زور سے
کانپتا ہے ملک میرا بس اسی کے شور سے
چور والی حرکتیں ہیں یا ہے چوروں کی طرح
رہنما بھی ہم نے رکھا ہے لٹیروں کی طرح
اب غریبوں کی غریبی اور کم تر ہو گئی
اور امیروں کی امیری اور بہتر ہو گئی
مذہبوں کے نام پر ایسی سیاست چل پڑی
گائے ہندو ذات کی بکری مسلماں ہو گئ
چاپلوسی چال دیکھو منصفی لہجے میں ہے
عدلیہ بھی اب ہمارےملک کی خطرے میں ہیں
نا اگر وہ حکم دے تو گیت گا سکتے نہیں
اب تو تہواروں میں ہم خوشیاں منا سکتے نہیں
ہم لڑے گے جنگ بھی اب قبر کی شمشان کی
حالتیں کچھ اس طرح ہی ہوگی ہندوستان کی
عمر خالدؔ کی ہے ننھی پر یہی پندار ہے
نظم پڑھ کر یہ نہ کہنا ملک کا غدار ہے
از :- شہباز خالدؔ کلکتوی ، کمرہٹی طالبِ علم :- مولانا آزاد کالج ، اردو آنرس سالِ اوّل
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
”لڑکی “
مانا کہ۔۔۔
تُم ۔۔۔
جو کہہ رہی ہو۔
وہی سچ ہے
وہ ہی صحیح ہے
مگر۔۔۔ تُم۔۔۔ کُچھ کر تو نہیں سکتی
کیونکہ۔۔۔؟!
تُم ایک لڑکی ہو
” لڑکی “
روبینہ میر ۔جموں کشمیر ۔
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
بعنوان : انسانی حقوق
غزل:
از: محمد زبیر، گجرات، پاکستان
امن معدوم ہوا عدل بھی معتوب ہوا
حاکمِ شہر ترا نظم تو ناخوب ہوا
غارت و قتل کا طوفان تھمے گا بھی کبھی
ہر کوٸی خوف کی سولی پہ ہے مصلوب ہوا
پوچھتے ہیں کھلی آنکھوں سَرِ مقتل لاشے
بے گناہوں کا لہو اب کسے مطلوب ہوا
ظالمو! قتلِ ہزاراں کو روا رکھتے ہو
قاتلو! قتل کا پیشہ تمہیں مرغوب ہوا
یہی تاریخ کا دستور ہمیشہ سے ہے
جرم جیسا بھی ہوا شاہ سے منسوب ہوا
اس کے سر پر ہی فضیلت کا سجا تاج زبیر
خم ہوا ظلم کے آگے جو نہ مرعوب ہوا
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
امن کی آشا (اقوامِ متحدہ) آزاد نظم
عجب ہے امن کی آشا ، جہاں پر ہے قدم رکّھتی
وہاں پر دن نہیں ہوتا ، وہاں پر رات ہوتی ہے
جہاں حسیات مرنے کا تماشا خوب ہوتا ہے
جہاں نفرت ، محبت کی عجب تقسیم ہوتی ہے
جہاں تہزیب کے گلشن میں دہشت عام ہوتی ہے
جہاں ظلمت ضیا بن کر سرابی دھوکہ دیتی ہو
جہاں صرصر صبا بن کر گلُوں کا خون کرتی ہو
جہاں وحشت ٹپکتی ہو انھیں کے نرم لہجوں سے
جہاں کمزور سے جینے کا حق بھی چھین لیتے ہوں
کبھی تو فاختہ بن کر یہ پر نوچے ہے جگنو کے
کبھی تتلی بھی رنگت اپنی اُن کے ڈر سے کھو جائے
جہاں گلشن میں بلبل کی جگہ الو ہی لیتا ہے
وہاں پر دن نہیں ہوتا ، وہاں پر رات ہوتی ہے
جہاں میں امن کے جھانسے پہ دہشت عام کرتے ہیں
جہاں روشن خیالی اور تمدن کے غلافوں میں
غلامی کی یہ نجکاری جہاں میں عام کرتے ہیں
ہمیشہ دو رخی ان کی ، ہے دیکھی قومی دھارے میں
کہیں ِپلّوں کے مرنے کا تو عمروں غم نہیں جاتا
کہیں معصوم بچوں کو بھی لاشوں میں پرونے پر
کسی کی آنکھ میں کوئی ذرا سا نم نہیں آتا
جہاں انسان کی عظمت فقط بے نام ہو جائے
جہاں پر جانور لے لیں فضلیت ابنِ آدم پر
انھیں تکریمِ آدم کی کہاں پہچان ہوتی ہے؟
وہیں پر امن کے کاموں میں دہشت عام ہوتی ہے
کہ ہر شازش کے پیچھے صرف ان کی ذات ہوتی ہے
وہاں پر دن نہیں ہوتا ، وہاں پر رات ہوتی ہے
کہیں جب آگ لگتی ہے انھیں منحوس ہاتھوں سے
کبھی کشمیر وادی کو لہو رنگ میں ڈبوتی ہے
کبھی تو لیبیا کو بھی جلا کر راکھ کرتی ہے
فلسطیں کی ریاست کو کبھی ناکام کرتی ہے
کبھی تو پاک مٹی پر یہ دہشت کو ہَوا دے کر
کبھی افغان کو کھنڈر بنا کر چھوڑ دیتے ہیں
ہَوس کے گدھ ، تعفّن کی فضا پر زور دیتے ہیں
لگا کر آگ دہشت کی لہو جب شام کرتے ہیں
ہمارے گھر جلا کر تب ہمیں بدنام کرتے ہیں
جہاں میں ان کی سازش سے کہیں دہشت اگر پھیلے
وہیں دنیائے مسلم کی ہمیشہ بات ہوتی ہے
عجب ہے امن کی آشا ، جہاں پر ہے قدم رکّھتی
وہاں پر دن نہیں ہوتا ، وہاں پر رات ہوتی ہے
ملک سکندر۔ چنیوٹ پاکستان
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
” طلاق “
تُمہں وہی کرنا ہو گا۔۔۔۔
جو میں کہوں گا۔۔۔۔۔
جو میں چاہوں گا۔۔۔۔۔۔؟
چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔!!
ہاں۔۔۔
چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔۔
مگر۔۔۔میں تُمہاری بیوی ہوں
بیوی۔۔۔۔۔!
رکھیل نہیں۔۔۔!!
تبھی تو کہہ رہا ہوں۔۔۔۔
” تُم میری بیوی ہو “
جو ہتھیار میرے پاس
تُمہارے لٸے ہے۔۔۔۔۔
وہ کسی رکھیل کے لٸے نہیں
کیونکہ وہ آزاد ہے
اپنی مرضی سے۔۔۔۔
آ ، جا سکتی ہے
مگر تُم۔۔۔۔
میری مرضی کے بغیر۔۔۔۔
کُچھ نہیں کر سکتی۔۔۔
ورنہ جانتی ہو۔
کہ میں کیا کر سکتا ہوں؟؟
مجھے یہ اختیار ہے
کہ جب چاہوں۔۔۔
تُمہیں اپنے گھر سے۔۔۔
کر سکتا ہوں بے گھر۔۔۔۔
صِرف اتنا کہہ کر
طلاق۔۔۔۔طلاق۔۔۔۔طلاق۔۔۔
مگر۔۔۔ یہ بچے۔۔۔
یہ گھر بار بنانے میں
میں نے جو خون پسینہ ایک کیا
وہ سب۔۔۔۔ کس لٸے ؟؟
اگر تُم۔۔۔۔
اتنی آسانی سے
لفظِ طلاق کو اپنا ہتھیار سمجھ کر
جب چاہو۔۔۔ کرسکتے ہو اِستعمال
افسوس۔۔۔!!
مجھے زندگی بھر
مَر ،مَر کے جینا ہے
اس لفظ کے ڈر سے
یہ لفظ ہر روز۔۔۔۔۔
مجھے نٸی موت مارتا ہے
نہ جانے کب۔۔۔ کہاں ؟؟
تُم مُجھ سے کہہ دو
” طلاق۔۔۔۔طلاق۔۔۔طلاق “
روبینہ میر ۔جموں کشمیر ۔ بھارت
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
لہو کی ہولی (برما) (آزاد نظم)
وہ روز اب کے لہو سے کھیلیں
لہو کی ہولی
یہ اتنا ارزاں ہے خونِ مسلم
کہ اس کے بہنے کو عام کر دیں
اُتاریں ان کے بدن کی کھالیں
کہ نیم مُردہ بنابنا کر
یہ سارے چیلوں کے نام کردیں
کُچل دیں سارے معصوم بچے
جوان زندہ جلا جلا کر
درندگی کو تمام کر دیں
کہ بربریت بھی خوف کھائے
تڑپتی کلیاں لباس گُم ہیں
پکاریں کس کو نڈھال ہو کر
کہ ماں کے اپنے حواص گُم ہیں
خیال جس کو نہ سوچ پائے
جو آنکھ منظر نہ دیکھتی ہو
وہ سارے منظر سُلگ رہے ہیں
تڑپ تڑپ کر ، سسک سسک کر
لُٹی پٹی سی بلکتی بچیاں
نُچے بدن میں ، ابھی جو بسمل پڑی ہوئی ہیں
پکارتی ہیں وہ ابنِ قاسم
ردائیں ان کی نُچی ہوئیں ہیں
ندائیں اُن کی فضا میں گم ہیں
ہے گونگی بہری یہ ساری دُنیا
کہ جیسے وقتِ نزاع میں گم ہے
ستم ظریفی کا یوں ہے عالم
عجب سی ساری فضا میں چُپ ہے
زمیں بھی چُپ ہے ، فلک بھی چُپ ہے
کسی کے بازو قلم ہوئے ہیں
کسی کی آنکھیں ، کسی کے لب بھی
کسی کی گردن کٹی ہوئی ہے
جلی پڑی ہے یہ بنتِ حوّا
کسی کے نازک بدن کے ٹکڑے
وہ بربریت دکھا رہے ہیں
کہ دل دھڑکنے کو بھول جائے
پلک چھپکنے کو بھول جائے
زبان لب تک نہ کھول پائے
یہ خونی منظر سا دیکھ کر ہے حواصِ خمسہ پہ سکتہ طاری
حواص کے بھی حواص گم ہیں
لہو کا منظر جو آنکھ دیکھے لہو کے آنسو سُلگ رہی ہو
سسکتی آئیں ، بلَکتی آنکھیں ، ہیں منتظر پھر سے غزنوی کی
جو بپھرے ہاتھی نڈھال کر دے
خدا کی اس سر زمین پر جو کہ ان کا جینا بحال کر دے
ن۔معلوم
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
مسجد سے ایک انوکھا اعلان ہوا اور سننے والا ہر بندہ دنگ رہ گیا.
اعلان یوں تھا کہ مسجد کے قریب ہی ایک ریڑھی پہ مختلف ریسٹورنٹ کے گاہکوں کا بچا ہوا سالن دستیاب ہے. وہ غریب اور نادار لوگ جو سالن پکانے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ اپنے برتن لے آئیں اور سالن فی سبیل اللہ لے جائیں.
مارے تجسس کے میں بھی مسجد کی طرف چل دیا کہ دیکھوں آخر ماجر کیا ہے. میں جیسے ہی وہاں پہنچا تو مردوزن کا ایک ہجوم برتن لے کر پہنچا ہوا تھا.کوئی سالن لے کے گھر کو جا رہا تھا تو کوئی حاصل کرنے کی تگ و دو میں تھا.
ریڑھی پہ تین پتیلے پڑے ہوۓ تھے.ایک پتیلے میں دال دوسرے میں قورمہ اور تیسرے میں مختلف اقسام کی مکس سبزیوں کا سالن رکھا ہوا تھا.
تھوڑی ہی دیر میں اس کے تینوں پتیلے خالی ہو گئے .
سالن لے جانے والوں کے چہروں پر خوشی دیدنی تھی اور وہ سب دعائیں دیتے ہوۓ جا رہے تھے.
میں سالن بانٹنے والے کے پاس کھڑا ہو گیا اور اس سے استفسار کیا کہ یہ آئیڈیا اس نے کہاں سے لیا تو اس نے کہا کہ
”بس جی ایک دن ہوٹل میں کھانا کھایا تو آدھے سے زیادہ سالن بچ گیا. میں نے سوچا کہ انہوں نے ویسے ہی ضائع کر دینا ہے.
چنانچہ ایک ویٹر کو بلا کر سالن شاپر میں ڈلوایا اور کسی ضرورتمند کے گھر دے آیا.
اس کام سے دل کو بہت خوشگوار راحت حاصل ہوئی اور یقین کریں سالوں سے نیند کی گولی کھا کر سونے کا عادی تھا لیکن حیرت انگیز طور پر اس رات بغیر گولی کھاۓ بہت پرسکون ہو کر سویا.
بس پھر اس سلسلے کو بڑھانے کا تہیہ کر لیا. پانچ بڑے ریسٹورنٹ مالکان سے رابطہ کیا تو بہت مثبت جواب ملا اور پھر ہر ریسٹورنٹ پر تین تین برتن رکھوا دیے.
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری وجہ سے بہت سے غریب گھروں میں بہترین کھانا پہنچتا ہے“وہ بتاتے ہوۓ ایسے خوش ہو رہا تھا جیسے اس کی لاکھوں کی کمیٹی نکل آئی ہو.
لیکن میں سوچ رہا تھا کہ واقعی اس کی لاکھوں کی کمیٹی تو نکل چکی تھی اور وہ کمیٹی تھی بے پناہ اجر وثواب کی.
اللہ کے ہاں مقرب ہونے کیلئے ضروری نہیں کہ آپ کروڑوں روپے خرچ کریں یا سالوں سال مراقبے کریں.
بعض اوقات ایک چھوٹی سی نیکی بھی ان سب نیکیوں کو مات کر دیتی ہے جن کیلئے ہم عمر بھر ریاضت میں گزار دیتے ہیں. آپ بھی اللہ کی مخلوق کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر کوئی چھوٹی سی نیکی کر کے دیکھیں شاید یہی نیکی آپ کا جنت کا پلڑہ بھاری کر دے ۔
نامعلوم
مرسلہ
احمدمنیب
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
قوم کے نونہالوں کے نام
نظم
انقلاب نو کسی بھی طور لا نا ہے تمہیں
بن کے سورج علم کا اب جگمگانا ہے تمہیں
جو ہے مشکل کام وہ اب کر دیکھانا ہے تمہیں
ابر کی صورت زمانے بھر پہ چھا نا ہے تمہیں
گردش ایام کے سر کو جھکانا ہے تمہیں
منزل مقصود کو ہر حال پا نا ہے تمہیں
یاد رکھو نور سے معمور منزل کی طرف
کہکشاں کی رہ گذر پر چل کر جا نا ہے تمہیں
توڑ کر اب ذہین و دل پہ چھائے سناٹے سبھی
ساز دل پر نغمہ توحید گا نا ہے تمہیں
خوبی کردار اور گفتار کے انوار سے
دنیا والوں کے دلوں میں گھر بنا نا ہے تمہیں
کر لو روشن مشعل عزم مصمم تم صباء
اب جہا لت کے اندھیروں کو مٹانا ہے تمہیں
نسیم خانم صباء
معلمہ۔۔
کپل (کر نا ٹک)
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
تیری چاہت کا بہت دل میں اثر رکھتا ہوں
رات بھر تاروں پہ اب اپنی نظر رکھتا ہوں
سامنے بیٹھ کے کچھ دیر مرے دیکھو تو
میں بھی تصویر بنانے کا ہنر رکھتا ہوں
ڈاکٹر شاھد رحمان فیصل آباد
؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
جنازے میں صرف پچاس ساٹھ لوگ تھے، سلام پھیرا گیا، مولوی صاحب نے دعا کرائی اور لوگوں نے تعزیت کے لیے لواحقین کی تلاش میں دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا،
مرحوم کا ایک ہی بیٹا تھا، وہ لندن میں تھا، وہ وقت پر پاکستان نہ پہنچ سکا چنانچہ وہاں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جس سے پرسا کیا جا سکتا، لوگوں نے چند لمحے انتظار کیا اور پھر گرمی کی وجہ سے ایک ایک کر کے چھٹنے لگے،
تدفین کا وقت آیا تو قبرستان میں صرف چھ لوگ تھے، مستنصر حسین تارڑ، یہ مرحوم کے عزیز ترین دوست تھے۔ یہ وہاں موجود تھے، دوسرا شخص مرحوم کا پبلشر تھا، یہ پچھلی دو دہائیوں سے ان کی کتابیں چھاپ رہا تھا لہٰذا یہ بھی وہاں رک گیا اور باقی چار لوگ گھریلو ملازم تھے، یہ آخری وقت تک صاحب کا ساتھ دینا چاہتے تھے،
میت اٹھائی گئی، قبر میں رکھی گئی، مٹی ڈالی گئی، تازہ مٹی میں درخت کی سبز شاخ بھی ٹھونک دی گئی،
گورکن نے قبر پر چھڑکاؤ کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے، تدفین میں مصروف لوگوں نے بھی ہاتھ جھاڑے اور دعا میں شامل ہو گئے اور یوں ملک کے سب سے بڑے ادیب، بڑے ناول نگار کا سفر حیات اختتام پذیر ہو گیا، ایک کہانی تھی جو4 جولائی 2015ء کو ڈی ایچ اے لاہور کے قبرستان میں دفن ہو گئی۔
یہ کون تھا؟ یہ " عبداللہ حسین " تھے،
وہ عبداللہ حسین جن کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں، پاکستان نے 68 سالوں میں بین الاقوامی سطح کا صرف ایک ناول نگار پیدا کیا اور وہ ناول نگار عبداللہ حسین تھے،
عبداللہ حسین 14 اگست 1931ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے، اصل نام محمد خان تھا، سولہ سال کی عمر میں ہندوستان کی تقسیم دیکھی، قیام پاکستان کے دوران انسان کا ایسا بھیانک چہرہ سامنے آیا کہ مذہب، انسانیت اور اخلاقیات تینوں سے اعتبار اٹھ گیا اور وہ مذہب اور انسانیت دونوں کے باغی ہو گئے۔
تقسیم کے واقعات نے عبداللہ حسین کے ذہن پر خوفناک اثرات چھوڑے، وہ 1952ء میں داؤدخیل کی سیمنٹ فیکٹری میں بطور انجینئر کام کرتے تھے، انھوں نے وہاں قلم اٹھایا اور ’’اداس نسلوں‘‘ کے نام سے اردو زبان کا ماسٹر پیس تخلیق کر دیا،
یہ ناول محض ایک ناول نہیں تھا، یہ ان نسلوں کا نوحہ تھا جنھوں نے تقسیم ہند کے دوران پرورش پائی اور یہ کندھوں پر اداسی کی صلیب اٹھا کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوئیں، یہ ناول ایک تہلکہ تھا، یہ تہلکہ پاکستان میں بھی چھپا اور سرحد پار ہندوستان میں بھی۔
’’اداس نسلیں‘‘ آج تک اردو کا شاندار ترین ناول ہے، یہ ناول عبداللہ حسین نے 32 سال کی عمر میں لکھا، صدر پاکستان ایوب خان نے انھیں 34 سا کی عمر میں ادب کا سب سے بڑا اعزاز ’’آدم جی ایوارڈ‘‘ دیا
یہ برطانیہ شفٹ ہو گئے، یہ 40 سال برطانیہ رہے، برطانیہ میں قیام کے دوران مزید دو ناول لکھے، دو ناولٹ بھی تخلیق کیے اوردرجنوں افسانے بھی لکھے، عبداللہ حسین نے ایک ناول انگریزی زبان میں بھی لکھا، یہ سارے افسانے، یہ سارے ناولٹ اور یہ سارے ناول ماسٹر پیس ہیں۔
یہ چند سال پہلے لندن سے پاکستان شفٹ ہوئے اور لاہور میں اپنی بیٹی کے گھر میں رہائش پذیر ہو گئے، عطاء الحق قاسمی صاحب ان کے بہت بڑے فین ہیں، یہ ان تک پہنچے اور یہ انھیں کھینچ کھانچ کر ادبی سرگرمیوں میں لے آئے،
عرفان جاوید نے بھی ان پر بہت محنت کی، یہ ان کا طویل انٹرویو کرنے میں بھی کامیاب ہوئے اور یہ ان کی میزبانی اور مہمان نوازی کا لطف بھی اٹھاتے رہے، یہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ادبی میلوں میں بھی شریک ہوتے رہے۔
یہ خون کے سرطان میں مبتلا تھے، بیماری سے لڑتے رہے یہاں تک کہ 4 جولائی 2015ء کو 84 سال کی عمر میں لاہور میں انتقال فرما گئے،
بیگم کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے، وہ برطانیہ میں ہی رہ گئیں،
بیٹا لندن میں رہتا تھا، وہ جنازے پر نہ پہنچ سکا، عطاء الحق قاسمی نے احباب کو اطلاع دی، یوں پچاس ساٹھ لوگ ملک کے سب سے بڑے ادیب کی آخری رسومات میں شریک ہو