رپورٹ:
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 208
بعنوان : سیاست
رپورٹ:احمدمنیبؔ
لغوی معنی:
سیاست عربی لفظ ہے ۔ فیر وز الغات اور مرکزی اُردو بورڈ کی لغت میں اس کے معنی ہیں :
بادشاہت کرنے کا طریقہ ۔ نگہبائی ۔ تنبیہہ کرنا۔ لوگوں کو قصور و جرم کی سزا دینا ۔ دبدبہ ۔ رُعب وغیرہ ۔
آکسفورڈ انسا ئیکلو پیڈیا ڈکشنری کے مطابق لفظ پولیٹیکل (Politic)اسم صفت ہے جس کے معنی ہیں:
Crafty چالاکی۔ عیاری۔ ہوشیاری
Scheming چالیں۔ خفیہ کارروائیاں۔
Prudent دانش مندانہ۔ حکیمانہ۔ ہوشیاری۔ فراست۔ دوراندیشی۔
اور لفظ پولیٹیک (Politic)اسم ہے ، جس کا معنی ہے متوازن۔۔ مناسب۔ فہم و ادراک رکھنے والا۔ سمجھدار انسان۔
علم سیاسیات:
سیاسیات کو انگریزی میں پولیٹیکل سائنس (Political Science ) کہتے ہیں ۔
پولیٹیکل یونانی لفظ پولس (Polis ) سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی شہر کے ہیں ۔ گویا سیاسیات شہر اور شہریت سے متعلق علم کا نام ہے اس اعتبار سے چونکہ شہر وں میں انسان بستے ہیں اس لئے سیا سیات کا تعلق بھی انسانوں سے ہی ہے ۔
انسان ایسا سماجی جان دار ہے جو ایک دوسرے کا محتاج ہے، جس کی بہت سی ضروریات ہیں جنہیں پورا کرنے کے لئے اسے سو سائٹی میں رہنا پڑتا ہے ۔ انسان میں ہمدردی ، خودغرضی، صلح جوئی، لڑائی جھگڑ ا وغیرہ ہر قسم کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا سو سائٹی میں رہتے ہوئے قواعد و ضوابط کی ضرورت بھی ہوتی ہے ۔ چنانچہ ارسطوؔ کہتا ہے کہ انسان نہ صرف حیوان ہے بلکہ سیا سی حیوان ہے ۔ گویا ملک کے کسی بھی کونے میں بسنے والے انسان کے مسائل اور حل کے مطالعے کانام پولیٹیکل سائنس (Politicial Science ) ہے ۔
علم سیا سیات کی اہمیت:
علم سیاسیات معاشرہ کی سیاسی تنظیم سے متعلق عمرانی علم ہے ۔ بالفاظِ دیگر کسی بھی حکومت کا ہر معاشرتی فعل علم سیاسیات کی ذیل میں آتا ہے ۔ معاشرے کی سیاسی تنظیم دیگر معاشرتی تنظیموں میں گویا ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ رسم و رواج، رہن سہن اور اخلاق ، سماجی و اقتصادی معاملات ، تہذیب و تمدن کے دھارے و غیرہ کی نمو اور تحفظ تبھی ممکن ہو سکتے ہیں جب معاشرہ سیاسی طورپر منظم ہو اور حکومت کا تصورمضبوط و مستحکم ہو ۔ حکومت کے فرائض منصبی میں داخل ہے کہ:
شہر یوں کو امن و امان فراہم کر ے ۔
معاشرتی زندگی کی مختلف اقدار میں ہم آہنگی پیدا کرے تا کہ معاشرہ بآسانی ترقی کی منازل طے کرے اور ارتقا کا کوئی پہلو نظر انداز نہ ہو ۔
احترام آدمیت اور عدل و انصاف کا قائم کرے۔
ایسا سیاسی نظام جس سے شہریوں کی صلاحیتیں پرورش پائیں ۔
جہاں شہری اطمینان اور آسودگی پائیں۔
لہٰذا ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ریاست ہماری معاشرتی زندگی کا محور ہے اور اس کو دیگر تمام شعبہ جات پر فو قیت حاصل ہے ۔ اس لیے علمِ سیا سیات دیگرعلوم کا سرتاج ہے اور ہمیں نہایت قیمتی معلومات فراہم کرتا ہے ۔
سیاسیات کے حیطۂ عمل کے بارے میں گیٹل کہتا ہے:
’’ یہ علم ریاست کے ماضی کا جائزہ ، حال کا تجزیاتی مطالعہ اور امکانی مستقبل کے متعلق سیاسی و اخلاقی بحث پر مشتمل ہے ۔ ‘‘
گویاسیا سیات ریاست اور حکومت کے مطالعہ کا علم ہے ۔ تاریخ،فلسفہ، معاشیات ، اخلاقیات ، نفسیات حتی کہ تعلیم و تربیت ، جنگ اور امن، خلائی تسخیر ، تجارت ، صنعت ، زراعت ، صحت ،ریاست اور حکومت کی جملہ ذمہ داریوں جیسے اہم موضوعات سیا سیات کے دائرۂ بحث میں شامل ہیں ۔سائنسی ترقی اور گلوبل دنیا وجود میں آنے کے باعث بین الا قوامی تعلقات ، دساتیر اور سیاسی نظر یات کے باہمی تعلق کی بنا پر یہ علم آفاقی نوعیت اختیار کر گیا ہے۔
سیاست کا پس منظر۔ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں :
علم سیاست ریاست کی تاریخی تحقیق، تجزیاتی مطالعے اور فلاحی منصوبے کا دوسرا نام ہے۔
ریاست کا ظہور۔
ریاست کی تخلیق اور ابتداکا مطالعہ۔
ریاست کی موجود ہ مثبت یا منفی کا ر کر دگی۔
ریاست کی تنظیم میں موجود خامیاں اور انہیں دور کرنے کے طریق۔
ماضی اور حال میں ریاست کی کارکردگی اور مستقبل کے فلاحی منصوبہ جات۔ مثلاً برطانوی سیاسی نظام کا مطالعہ 1215ء کے میگناکارٹا کے بغیر نامکمل رہتا ہے ۔ امریکی نظام کا بھی یہی حال ہے۔ پاکستان میں صدر اور وزیر اعظم کے اختیار ات کا باہمی توازن جاننے کے لئے ماضی اور حال کو سامنے رکھ کر ہی ہم بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں ۔
ریاست کے قیام کا مقصد اور فرائض:
ریاست کے قیام کا مقصد معاشرتی زندگی کو استوار کرنا ہے۔
فرد معاشرہ کی بنیاد اکائی ہے۔ لہٰذا اصل مقصد فرد کی فلاح و بہبوداور قوت ہونا چاہیے ۔ سیاسی مفکرین اسے ”سیاسی فلسفہ“ کہتے ہیں ۔
نر اجیت پسندوں (Anarchists) کا خیال ہے کہ ریاست کا وجود فرد کے لیے نقصان دہ ہے۔
اشتراکیت اور جابرطرزِ حکومت (Socialism and fascism) کے نظریہ کے حامل لوگ ریاست کو نہایت فعال اور طاقت ور ادارہ بنانے کے حامی ہیں۔
نظریۂ انفرادیت (Individualism ) ،نظر یۂ افادیت (Utilitarianism)اور نظریۂ تکثیریت (Pluralism) والوں کا اپنا اپنا زاویۂ نگاہ ہے ۔ یہ نظر یے اور فلسفے مندرجہ ذیل اہم موضوعات پر بحث اٹھاتے ہیں:
فرد اور ریاست کے مابین اختیارات اور ذمہ دار ایوں کی تقسیم ۔
فرد کا مقام۔
ریاست فرد کے تابع ہو یا فرد ریاست کے ۔
فرد کی آزادی کا دائرۂ کاراور حقوق و فرائض۔
معاشیات اور مادی ضروریات ۔
طلب اور رسد کا باہمی توازن۔
روزگار کی فراہمی۔
اقتصادی استحکام ۔
رہن سہن کے ضوابط۔
افراد کے باہمی تعلقات۔
ضابطۂ اخلاق ۔
امن و امان کا قیام۔
افراد کے طبعی میلانات، اجتماعی رجحانات ، مزاج اورخواہشات نیز عمل اور ردعمل کو ملحوظ رکھنا۔
علم سیاسیات کے مطالعہ میں قدیم اور جدید سیاسی فلسفے کا مطالعہ ہی ان تمام سوالات کا مؤثرجواب دے سکتا ہے ۔
نظری اور عملی سیاست میں فرق:
نظری سیاست سے مراد ریاست کی ابتدا، ارتقا اور ہیئت میں تبدیلیوں کا جائزہ ہے جبکہ عملی سیاست سے مراد حکومت کی تنظیم سازی ، دساتیر کا مطالعہ ، بین الاقوامی تعلقات ، قانون سازی اور امور منصوبہ بندی وغیرہ شامل ہے ۔
سیاسی نظریات اور ان کی تاریخ۔
سیاسی یعنی مقامی ، علاقائی اور مرکزی حکومتی ادارے اور آئین ۔
سیاسی جماعتیں، گروہ ، رائے عامہ اور شہری کے حقوق و فرائض ۔
بین الا قوامی تعلقات ، تنظیم اور قانون،
فرد کا سیاسی رویہ۔
علم سیا سیات ایک سائنس :
مفکرین کا ایک گروہ اسے سائنس قرار دیتا ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ اسے سائنس کا نام دینا بھی زیادتی ہے۔
میٹ ؔلینڈ نے لکھا ہے:
’’ خوب صورت پرچے پر پولیٹکل سائنس عنوان لکھا دیکھ کر مجھے حیرت ہو تی ہےاور معذرت کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن سوالات پر نہیں بلکہ عنوان کی وجہ سے۔ ‘‘
یکلؔ کے نزدیک موجودہ حالت میں سیاسیات نہ صرف سائنس کی حیثیت سے بہت پیچھے ہے بلکہ فنون میں بھی کمتر درجہ رکھتی ہے ۔ لیکن ارسطو علم سیا سیات کودنیا کا سب سے بڑا علم قرار دیتا ہے ۔
لارڈ برائسؔ علم سیا سیات کو مو سمیات کی سائنس کی طرح گردانتا ہے ۔
منطقی اعتبار سے جب انسان ادارے اور تنظیمات تشکیل دے کرانہیں چلانے کے لئے مسلسل مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر باقاعدہ اصول و قواعد وضع کرتا ہے تو میرے خیال میں سیاست باقاعدہ ایک ادارہ اور علم بن کر اُبھرتا ہے۔ انہی باتوں کا مطالعہ علمِ سیاست ہے۔
گار نرؔ صرف ریاست ، لیکا ک ؔ صرف حکومت جبکہ گلکراسٹ اور گیٹل کے نزدیک علم سیاسیات کا مطالعہ ریاست اور حکومت دونوں کا علم ہے ۔
بیسویں صدی میں سیاسیات کے مطالعہ میں مندرجہ ذیل موضوعات شامل ہوئے ہیں :
سیاسی ادارے۔پالیسی سازی۔ سیاسی قوت۔ بین الا قوامی تعلقا ت۔ ذرائع ابلاغ ۔سیاسی طرز عمل اور سیاسی حرکیات۔
اسلام اور سیاست :
اسلام ایک جامع نظام زندگی پیش کرتا ہے۔خالقِ کائنات نے قرآن کریم میں ہر شعبۂ حیات کے لیے الگ الگ بالتفصیل اصول و ضوابط بیان فرمائے ہیں۔ ممتاز و منفرد اسلامی دستور و آئینِ حیات ایسا جامع و اکمل ہے کہ خاص و عام، حاکم و محکوم، امیر غریب اور سرخ و سپید سب کو ایک سطح پر رکھ کر خاندان، قبائل، رنگ و نسل، ملک و ملت کے طوق سے آزاد کر دیتا ہے۔ اسلامی سیاست ہر فرد کو اپنے دستور کے تابع رکھ کر کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دیتی نیز اسلامی سیاست حکمران طبقہ کو باور کراتی ہے کہ تم بھی قرآن و سنت یعنی آسمانی دستور کے تابع رہو۔
پس اسلامی سیاست نہ تو جمہوریت ہے نہ اشتراکیت، نہ سامراجیت ہے، نہ بادشاہت بلکہ ایک مشاورتی نظام ہے۔ اسلامی سیاست نہ کسی کی آزادی سلب کرتی ہے نہ کسی کو بے راہ روی کے لیے شترِ بے مہار کی طرح چھوڑ دیتی ہے، اسلامی سیاست ہر حال میں احکم الحاکمین کے احکام کی بالادستی قائم رکھتی ہے۔
اسلام میں بہت سی نابغۂ روزگار ہستیاں پیدا ہوئیں۔ حضرت نعمان بن ثابت، امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ، ابو منصور ماتریدی، امام فخرالدین رازی ، بو علی سینااور امام غزالی رحمھم اللہ ۔ وغیرہ
اسلامی قانون میں شریعت اور سیاست دونو ں کا مقصد فلاح ِانسانی ہے۔ دین اور دنیا کو الگ الگ سمجھنے والوں نے شریعت کے مقصد اور فلاح و بہبود کے مابین بُعد پیدا کر کے شریعت کو قانون کے بالمقابل لا کھڑا کیا ہے حالانکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے تو پھر سب سے بڑا قانون ساز ادارہ شریعتِ اسلامی ہی تو ہے۔
اس ادارہ کے فرائض حسبِ ذیل ہیں:
حَسبہ یعنی ماپ تول اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کی نگرانی ۔ اَحداث۔ شُرطہ۔ کوتوال یعنی پولیس اور دیوان یعنی محصولات اور ٹیکس کی وصولی کے ادارے۔
ان اداروں کی حیثیت عدالتوں کی تھی البتہ ان کے اختیارات، قانونی کارروائی کا طریق کار، گواہی اور ثبوت کے ضابطے مختلف تھے۔ ان کے علاوہ تنازعات کے فیصلوں کے لئے قبیلوں اور گاؤں میں الگ قسم کی عدالتیں اور پیشہ ورانہ ادارے تھے۔مغلیہ عہد میں دیہی آبادی پنچایت کے مقامی قوانین کے تحت انصاف حاصل کرتی تھی۔ اکثر اوقات گاؤں کا مکھیا ہی فیصلے کرتا تھا۔ بعض اوقات مسلمانوں کے جھگڑے بھی ہندو پنچ ہی نمٹاتے تھے۔
جون سٹار نے عثمانی خلافت میں بھی ایسی ہی صورت حال کا تذکرہ کیا ہے۔
یورگے فش کہتا ہے کہ ’’ غالباً ایسی اسلامی ریاست کبھی بھی نہیں رہی جو جرائم کے مقدمات کے فیصلوں میں صرف اپنی شریعت کی پابند ہو۔ عدالتی طریق کار زیادہ تر دوسرے ایسے قوانین کا پابند تھا جو مقامی رسم و رواج پر مبنی تھے یا حکمران کے فیصلے پر جاری ہوتے۔ عدالتیں حکومت کے جاری کردہ قوانین کی بھی پابندی کرتیں حالانکہ اصولی طورپر اسلامی فقہ حکومت کو قانون سازی کی اجازت نہیں دیتی۔
سیاسی اور اقتصادی موضوعات پر فقہا نے الگ رسالے اور کتابچے تولکھے ہیں لیکن ان کو فقہ کا مستقل موضوع نہیں بنایا نہ ہی فقہ کی متداول کتب میں ان دو امور کا ذکر ملتا ہے۔ اسلامی قانون کا مظہر اور مصدر صرف فقہ کی کتابوں کو سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی قانون کے اطلاقی پہلوؤں کی اہمیت کے پیشِ نظر اصول سیا ست کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس کے متعلق تصانیف اور تحقیق میں اب فتاوٰی۔ اصول ِقضااور اصول السیاستہ کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔یاد رہے کہ حالیہ مطبوعات میں السیاستہ کے اصول کا مطالعہ اصول فقہ یا قانونی اصول کی بجائے سیاسی فلسفے یا سیاسیات کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
بہرحال یہ تو علم سیاست کا سیاق و سباق ہے لیکن اصل میں یہاں یہ تذکرہ اس لیے کیا گیا کہ ادارہ عالمی اردو بیسٹ پوئٹری نے اپنے ہفتہ وار پروگرام کا عنوان سیاست رکھا اور یہ پروگرام مورخہ ۲۲ جون ۲۰۱۹ ء کو منعقد ہوا جس میں مقالہ جات بھی پیش کیے گئے اور منظوم کلام بھی پیش کیا گیا۔
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 208
بعنوان : سیاست
ادارہ ھٰذا دنیا کا واحد ادارہ ہے،جو اس برقی ترقی یافتہ دور میں شعراء,ادباء و مصنفینِ زبانِ اردو ادب کی ذہنی آبیاری کرتا ہے اور نئے نئے لسانیاتی پروگرامز منعقد کرتا ہے….
جگر مراد آبادی
ان کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
افسانہ
واپسی کا سفر
’’ یہ ہے وہاں کی بے ایمانیوں ، بد عنوانیوں اور سیاست بازیوں کی فہرست۔ یہ دیکھو سب لکھ دیا ہے میں نے‘‘۔
مجھے غصہ آ گیا۔
عذرا نقوی
مورخہ 22 جون 2019 بروز ہفتہ پاکستانی وقت شام ۔07:00بجے اور ہندوستانی وقت شام ۔07:30بجے یہ پروگرام منعقد کیا گیا۔ پروگرام کی ابتدا محترمہ صبیحہ صدف صاحبہ نے بطور ناظم مشاعرہ کی اور صدر محفل، مہمانان خصوصی اور مہمانان اعزازی کو منچ پر آنے کی دعوت دی تاکہ پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا جا سکے۔ ہمیشہ کی طرح اس مشاعرہ کا آغاز بھی بہت نپے تلے انداز میں صبیحہ صدف صاحبہ نے کیا اور پروگرام کی مناسبت سے امام غزالی کا سیاست کی تعریف پر ایک اقتباس پڑھا۔
دوسری ناظمِ مشاعرہ محترمہ گلِ نسرین صاحبہ ملتان پاکستان سے تشریف فرما ہوئیں اور اپنے مخصوص نپے تلے انداز میں خوب صورت ادائیگی تحت الفظ اور کبھی ترنم کے ساتھ شعرا کو دعوت کلام دی۔
قارئین محترم!
اس پروگرام کی ایک نئی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس پروگرام کی رپورٹ لکھنے کے لئے دو احباب کی ذمہ داری لگائی گئی ایک ت میرے محترم خالد سروحی صاحب جو گکھڑ سٹی گوجرانوالہ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک یہ عاجز احمدمنیب لاہور پاکستان سے۔
اس پروگرام کو ادارہ کے چیئرمین جناب توصیف ترنل صاحب نے ہانگ کانگ سے آرگنائز کیا۔ اس پروگرام کے گرافکس بھی صابر جاذب لیہ پاکستان نے ڈیزائن کیے۔
قارئین محترم!
اس اہم پروگرام کی صدارت محترم مشرف حسین صاحب محضر نے کی جو علی گڑھ انڈیا سے تشریف فرما تھے۔ آپ نے خوبصورت کلام سنایا اور بہترین خطبۂ صدارت بھی ارشاد فرمایا۔
مرے مولا!
سیاست کو تو پھر سے خیر کی جانب رواں کر کے
زمانے سے تباہی کے تصور کو فنا کر دے
مہمانِ خصوصی محترم شیخ نورالحسن حفیظی صاحب تھے جو سری نگر جموں وکشمیر سے نشست پر تشریف رکھتے تھے انہوں نے خوب صورت کلام نذرِ احباب کیا:
ہیں جتنے چور غنڈے اور لٹیرے
ہیں رہزن اور قاتل جو وڈیرے
ہیں جتنے فراڈیئے اور فول چیٹر
وہ میرے دیس کے ہیں اب منسٹر
ان کے بعد ناظم مشاعرہ نے مہمانِ اعزازی کو دعوتِ کلام دی اور محترم رضاالحسن رضا امروہہ یو پی بھارت سے گویا ہوئے کہ:
آگئے ہیں وہ اب سیاست میں
جو کہ کرتے تھے پیار پیسوں سے
قارئین محترم!
اس پروگرام کی ایک اور انفرادیت یہ بھی تھی کہ اس میں دو خصوصی مقالہ جات بھی شامل کئے گئے تھے۔ ایک محترم ڈاکٹر ارشاد خان بھارت کے رشحات قلم سے جبکہ دوسرا محترم امیرالدین امیر بیدر بھارت کے نتیجۂ فکر سے ہمارے سامنے آیا۔
قارئین محترم!
حسبِ سابق اس پروگرام کے لیے بھی ناقدین میں محترم مسعود حساس کویت، محترم ذوالفقار نقوی صاحب جموں بھارت اور محترم غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان سے حاضر تھے۔ جن میں سے محترم نقوی صاحب کی طرف سے مختلف احباب کے منظومات پر تبصرہ جات اتوار کی شام تک آتے رہے اور انہوں نے خوب صورت انداز میں منظوم کلام پر گفتگو فرمائی۔
قارئین محرم کی اطلاع کے لیے عرض کر دوں کہ ہمیشہ کی طرح اس پروگرام کا آغاز کا بھی حمدِ باری تعالیٰ سے ہوا اور خاکسار احمد منیب لاہور پاکستان کو یہ سعادت ملی کہ حمد باری تعالیٰ پیش کروں ایک شعر ملاحظہ فرمایئے:
یہ خوئے التفات، یہ الطاف، یہ کرم
طاعت کے بدلے کوثر و تسنیم دی ہمیں
دوسری حمد پیش کرنے کی سعادت جناب گلفام صادق بھارت نے پائی :
تو شکست دیتا ہے ہر جگہ پہ باطل کو
سچ کا ہر زمانے میں بول بالا کرتا ہے
نعت رسول مقبول ﷺ کی سعادت محمد شاكر عزم ٹھاکردوآرہ مرادآباد یوپی انڈیا نے حاصل کی :
بات کرنا چلنا پھرنا بیٹھنا اٹھنا ہی کیا
ہر ادا سرکار کی پیغام ہو کر رہ گئی
دوسری نعت محترم نفیس احمد نفیس ناندوروی بھارت نے پیش کرنے کی توفیق پائی:
جن و بشر ہیں آقا سبھی آپﷺ پر فدا
اس رب ذوالجلال کے دل دار آپ ﷺہیں
اس کے بعد ناظمِ مشاعرہ نے شعرا کرام کو بلا کر دعوت کلام دینا شروع کیا اور سب سے پہلے محترمہ ساجدہ انور صاحبہ کو پکارا جو کراچی پاکستان سے تشریف فرما تھیں۔ آپ نے بہت خوب صورت کلام سیاست کے عنوان پر سماعتوں کی نذر کیا:
بڑی مچھلی کا چھوٹی مچھلیوں کو ہی نگل جانا
اسی محکومیت کو سب نے پھر ضرب المثل جانا
پھر باری آئی جدید لب و لہجہ کی شاعرہ محترمہ روبینہ میرصاحبہ کی جنہوں نے راجوری جموں کشمیر بھارت سے اپنا کلام پیش فرمایا:
کیا دور ہے کہ جس میں یہ شغل بن چکا ہے
اس بات پر سیاست اُس بات پر سیاست
محترم اصغر شمیم کولکاتا انڈیا سے گویا ہوئے کہ:
میں یہی سوچ کر ہوں خوش اصغرؔ
زندگی درد کی علامت ہے
اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے پکارا محترم عامر حسنی صاحب کو جو ملائشیا سے تشریف فرما تھے انہوں نے کالم عطا فرما کر کہا کہ:
سیاست کیا ہے؟ اب ایک بددیانت کی کہانی ہے
غریبوں کے اُجاڑے گھر فقط جھوٹوں کی نانی ہے
محترمہ ماورا سید کراچی پاکستان نے اپنا خوبصورت کلام پیش فرما کر خوب داد سمیٹی:
پیر تسمہ پا سیاست
ڈگڈگی بجنے لگی
شہر کے سارے بندر
اپنے پنجروں سے نکل آئے تماشے لے کر
پروگرام نمبر 208 کی دوسری ناظم مشاعرہ محترمہ گلِ نسرین ملتان پاکستان سے اپنا پیارا کلا م سنایا :
محبت بھی اب کے سیاست بنی ہے
کہانی وفا کی عداوت بنی ہے
محترم جعفر بڑھانوی صاحب بھارت نے اس پروگرام کی مناسبت سے اپنا کلام پیش کیا کہ:
کون کرتا ہے حفاظت دیکھو
ہم پہ ہوتی ہے سیاست دیکھو
جناب خالد سروحی صاحب نے گکھڑ سٹی گوجرانوالہ پاکستان سے اپنا کالم پیش کیا کہ:
جو فرد سیاست کا غلط استعمال کرتا ہے وہ عام اور ملک کو نقصان پہنچاتا ہے جو کہ غلط ہے اور ناقابلِ تلافی اور ناقابل معافی جرم ہے۔ جیسا کہ آج ہم بری سیاست کے ذریعے سے اقتصادی بحران کا شکار ہیں۔
محترم اکرم جمیل ٹھاکردوارہ مراد آباد یو پی انڈیا کو پکارا گیا اور انہوں نے کلام عطا فرمایا کہ:
آج پوری دل کی حسرت ہو گئی
اس کو بھی مجھ سے محبت ہو گئی
محترم ایڈووکیٹ متین طالب صاحب ناندورہ بھارت سے تشریف فرما تھے انہوں نے اپنا کلام احباب کی نذر کیاکہ:
جب سے پگڑی کی حفاظت پہ اتر آئے ہیں
آپ بھی گندی سیاست پہ اتر آئے ہیں
اپنی طرز کے منجھے ہوئے استاد شاعر جناب علی شیدا جموں کشمیر سے بیدار ہوئے اور ایک خوب صورت غزل سیاست کے موضوع پر نذرِ احباب کی:
تماشا ہے مداری ہے سیاست اوڑھ لی ہم نے
پرانا کھیل جاری ہے سیاست اوڑھ لی ہم نے
جناب تہذیب ابرار، بجنور، انڈیا سے تشریف فرما تھے جنہوں نے اپنی باری پر کلام پیش فرمایا:
بلاشک فائدے ہیں اک سے اک بڑھ کر سیاست میں
معزز کیسے کیسے ہو گئے آکر سیاست میں
خطبۂ صدارت:
پروگرام نمبر 208 بعنوان سیاست نہایت شاندار اور کامیاب ترین رہا کیونکہ احقر ادب کے ساتھ سیاست میں بھی دخل رکھتا ہے لگاتار دو مرتبہ سے اپنے حلقہ سے منتخب رکن بلدیہ ہے اور بھارت کی مقبول ترین سیاسی جماعت بہوجن سماج پارٹی سے ضلع علی گڑھ کا کو آرڈینیٹر بھی ہے انہی سیاسی مصروفیات کے باعث گروپ میں اپنی حاضری درج نہیں کرا پاتا جس کا احساس بدستور رہتا ہے لیکن احقر کا سیاست کرنے کا طریقہ موجودہ سیاست دانوں سے الگ ہے:
احقر کا ایک شعر
وہ عبادت بھی سیاست کی طرح کرتے ہیں
میں سیاست کو عبادت کی طرح کرتا ہوں
خاکسار کو عالمی پروگرام کی صدارت کا جو اعزاز بخشا ہے سچ تو یہ ہے کہ خاکسار خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا کیونکہ گروپ میں بر صغیر ہند کی بہت قدآور اور ادبی شخصیات شامل ہیں ان میں سے ہی کسی کو یہ ذمے داری سونپنی چاہیے تھی خاکسار نے تو اس اعزاز کو آپ کی محبت اور ﷲ کا کرم سمجھ کر قبول کر لیا ورنہ خاکسار کہاں اور یہ اعزاز کہاں
اک ستارہ ہوں بس ٹمٹماتا ہوا
میں ادب کا کوئی ماہِ کامل نہیں
جس بلندی پہ لایا گیا ہے مجھے
سچ تو یہ ہے کہ میں اس کے قابل نہیں
احقر
آج کے اس پروگرام میں سب زیادہ اگر کسی نے متأثر کیا تو وہ نظامت ہے دورانِ نظامت جن اشعار کا انتخاب کیا گیا وہ اپنے آپ میں یکتا تھے ۔ شاندار نظامت کے لیے پھر ایک بار مبارکباد
جہاں تک سیاست کے تعلق سے پروگرام میں پیش کی گئیں تخلیقات کا سوال ہے تو وہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک رہیں یوں تنقید تو ہر بات پر کی جاسکتی ہے جملہ لکھاریوں کو دل سے مبارکباد۔ سامعین ناظرین اور شائقین نے بھی قلم کاروں کو بھر پور داد و تحسین سے نواز. ان کا شکریہ
آخر میں ادارہ کے بانی و چیئر مین محترم توصیف ترنل صاحب اور ان کی ٹیم کو ڈھیروں دعائیں کہ وہ آج کے اردو کش دور میں بھی اردو کی شمع جلائے ہوئے ہیں ﷲ ان کو مزید ہمت و طاقت عطا کرے تاکہ وہ اردو کا چراغ جلائے رکھیں آمین
خاکسار
مشرف حسین محضر
علی گڑھ یوپی انڈیا
22-06-2019
یوں اڑھائی گھنٹے سے سے بھی زیادہ وقت چلنے والا یہ پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا اور کامیابی کا ایک اور ثمرہ ادارہ عالمی اردو بیسٹ پوئٹری کی جھولی میں ڈال دیا۔ جناب چیئرمین اور جملہ ممبران ادارہ کو ایک اور کامیاب ترین پروگرام پر مبارک باد۔
والسلام
خاکسار
احمدمنیب
22-06-2019