کچھ دن پہلے شاہد آفریدی کی ایک تصویر فیس بک پر دیکھی جس مٰیں وہ کٹے ہوےؑ بکرے کا سرایک تین سال کے بچے کے سامنے کرکے ہنس رہا ہے لیکن دہشت زدہ بچہ رو رہا ہے۔ اس پر کناڈا یورپ امریکہ سے کمنٹ ملے کہ خان یہاں ہوتا تو اب تک جیل میں ہوتا۔۔میں اس پر اپنا تبصرہ محفوظ رکھتا ہوں۔ ہمارے کچھ لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ سنگدلی اور سفاکی بھی ایک مردانہ صفت ہےچنانچہ بچپن سے اس کو لہو ریزی اور جان لینا اور بکرے یاگاےؑ کو ایڑیاں رگڑ کے مرتا دکھانے سے وہ 'مرد ' بنتا ہے۔دلچسپ تضاد یہ ہے کہ اسی جانور کوروں سے محبت کرنے والی فطرت رکھتے ہیں۔میرے بچے جب چھوٹے تھے تو گھر میں خرگوش تھے وہ انہی میں مگن رہتے اکثرخرگوش بغل میں دباےؑ سوجاتے خرگوشوں نے زمین کھود ڈالی اور ایزی چیؑیر کی بنایؑ سے کتابوں تک ہر چیز کتر ڈالی تو ہم نے انہیں ذبح کرکے کھانا شروع کیا۔بچوں کو آج تک پتا نہیں کہ وہ خرگوش تھے چکن نہیں۔۔ورنہ وہ روتے اور "چکن پلاو" کو ہاتھ نہ لگاتے ۔۔میرا بڑا بیٹا کالج میں تھا جب وہ ایک کتا لے آیا اس کو صاف اور صحت مند رکھنا اس کا شوق بلکہ خبط تھا وہ چکن کی دکان سے مرغیوں کے پنجے لاتا ان کو ابالتااورٹھںڈا ہوکے وہ سفید سوپ پیالے میں جم جاتا تو کتا بڑے شوق سے کھاتا۔۔ایک بار وہ دن میں کھلا رہ گیا اور میں بیوی کے ستھ گاڑی میں نکلا تو وہ پیچھے ہولیا۔ہمہیں پتا نہ چلا۔ نہ جانے کہاں کہاں پھر کے ہم واپس آےؑ تو احساس ہی نہ تھا کہ کتا شہر کی بھیڑ میں گم ہوگیا۔ہمارا ساتھ نہ دے سکا یا ہماری ساتھ رہنے کی کوشش میں حادثے کا شکار ہوگیا۔بیٹا کالج سے آیا تو اسے غایبؑ پاکے سخت پریشان ہوا۔ تلاش میں باہر نکلا تو کسی نے بتایا کہ تمہاری گاڑی کے پیچھے گیا تھا۔ اب ہم نے بہت قسمیں کھاییؑں مگر اس کی بدگمانی ہمیشہ بر قرار رہی کہ ہم نے اس سے پیچھا چھڑانے کیلےؑ عمدا" ایسا کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ہم اس کے شوق سے نالاں ہیں لیکن برداشت کرتے ہیں۔۔تین دن وہ دیوانہ وار سڑکوں پر اسے ڈھونڈتا رہا اور مہینہ بھر سے زیادہ اداس رہااس سے اگلی نسل میں چار نے آسٹریلین طوطے پالے۔۔ کتے بلیوں کا شوق عام تھا ایک نے کبوتر بھی اڑاےؑ لیکن یہ جانوروں سے بھی محبت کرنے والے بچے کیسے انسانوں سے نفرت کی طرف نا معلوم طریقے پر دھکیلے جارہے ہیں؟
ان کے درمیان مزہبی عقایؑدکی بنیاد پراختلافات پہلے سے تھے۔اسمیں دشمنی اور تشدد پسندی کو فروغ دیا گیا
مزید تفریق کیلےؑ لسانی اور صوبایؑ تنازعات کھڑے کےؑ گےؑ۔ان میں اختلاف کی حیوانی جبلت جگانا بھی ضروری تھا اس کی ابتدا میڈیا پر خونریزی کی لاییوؑ فوٹیج۔ خون آلود کٹی پھٹی لاشیں اور جسموں کے منتشر اعضا دکھا کے ہویؑ۔ اینکرز نے کیمرے فوکس کر کے اور چلا چلا کے خون بہتا۔ پسماندگان کوسر پیٹتے اورکفن پوش لاشوں لہو بہتا دکھایا خواہ وہ عبادت گاہوں کی دیوار پر ہو۔۔کسی اسکول میں یا ٹرین کے حادثے کا شکار ہونے والوں کی بکھری لاشوں پر ۔ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا تھا۔۔اس سے بچوں کے ذہن پر وہی اثر ہورہا تھا جو کٹی ہویؑ بکرے کی سری یا پھڑک پھڑک کر جان دیتے پالتو بکرے کی موت کا ہوتا ہے۔بہت کم لوگ چھوٹے بچوں کو خوں ریزی کے منظرسے دور رکھتے تھے۔۔نتیجہ یہ کہ بلی کتے کے بیمار بچے کیلےؑ فکر مند ہونے والے انسان کے بچے بکرے کی بوٹیاں بنتی دیکھتے تھے ۔ یہ سفاکی دماغ کی کنڈیشننگ کا عمل تھا۔ ہم بالاخر اپنی ماں یا باپ کو زمیں میں گاڑنے کا منظر دیکھ کے سکون سے سو سکتے ہیں ۔۔ ہندوبچے ان کو خود جلا کے ذہنی طور پر ڈسٹرب نہیں ہوتے
زیادہ حساس طبقات کی طرف سے احتجاج ہوا جن کا پیشہ انسانوں کو مارنا نہ تھا تو اس قسم کے مناظردکھانے پر پابندی لگ گیؑ لیکن پھر ایک اور پالیسی کے تحت "خبروں" کو سنسنی خیزبنا دیا گیا ۔۔ اب آپ ملاحظہ کر لیں۔۔ ہر صبح ابتدا ہوتی ہے کسی بچی کے ریپ ہا غلطی سے پولیس کی گولی کا نشانہ بننے کی خبر یاکسی بچے کے اغوا اور قتل کی اطلاع سے۔ ہر خبر سے جو چلا چلا کے تین تین چار چار بارچمک دمک کے ساتھ سنایؑ جاتی ہے۔تصویر میں اسے مسلسل فلیش کیا جاتا ہے اور ساتھ چلتی ہے دھواں دھار موسیقی۔۔ کلوز اپ میں ماں کے انسو۔۔باپ کا سر پیٹنا بہنوں کا ماتم ۔۔ اس کے بعد آجاتے ہیں حادثات ۔۔فلاں گاوں میں ٹرک نے رکشا کو روند ڈالا۔۔ ٹرالر نے ساییؑکل سوار کو کچل دیا۔۔ فلاں جگہ دھماکا سنا گیا۔۔۔کچی بستی میں اگ بھڑکٍ اٹھی۔۔ پہلے سزاےؑ موت کی خبر ہوتی تھی اب اس کے ساتھ پھانسی گھاٹ۔۔ اوپر رسا باندھنے کے کنڈے اس کے تختے کھلنے کا منظر خبر کے ساتھ تفریح طبع کیلےؑ۔۔ کراچی میں اسٍٹریٹ کرایم کی شرح بڑھ گیٍؑ۔۔چیف جسٹس نے پاگل خانے کا دورہ کیا۔۔چوروں ڈاکووں کو چوک میں لٹکایا جاےؑ گا وزیر اعظم کا اعلان
خبریں ختم ہوییؑں۔۔یا مظہر العجایب۔۔یہاں رات بیت گیؑ مگرباقی آدھی دنیا میں تو دن تھا ۔ کہیں کچھ نہیں ہوا؟ ہمارے سو سے زیادہ ملک میں دیکھا جانے والا خبرنامہ رکشا کے حادثے اور بچوں کے ریپ کی خبریں ہی دے گا۔یہ دھوم دھڑکا اور شور شرابہ بی بی سی اور سی این این پر کیوں نہیں۔۔وہ آج بھی 50 سال پہلے کی طرح متانت سے شام اور یمن کی تباہی سے چین اور امریکہ کی اقتصادی جنگ تک دنیا کے ہر خطے کی سیاسی اور معاشی صورتحال امپورٹ ایکسپورٹ اسپورٹس کی خبریں اور دنیا کے موسم کا حال کیوں بتاتے ہیں۔۔ہم انڈیا کی خبریں کیوں نہیں دیکھ سکتے اگر ڈرامے فلمیں اور کامیڈی یا فیش شو دیکھ سکتے ہیں؟ وہاں سے اردو کی ادبی کتابیں تک ممنوع ہیں۔ ہمیں ہمساےؑ ہم مذہب اور اولیں دوست ایران کا کیوں پتا نہیں؟شام اور یمن میں بمباری کی تباہی اور ہلاکت آفرینی کا کیوں علم نہیں ہونے دیا جاتا اللہ کی زمین تو بہت بڑی ہے لیکن رفتہ رفتہ نوجوان اور بے خبر نسل نے کم آگاہی کو قبول کرلیا ہے کیونکہ غیر اہم سے زیادہ جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کا شور محشر بپا ہے۔بنایؑ گیؑ خبروں کا طوفان کھڑٍا کردیٍا گیا ہے۔ اصل خبروں کو روک دیا جاتا ہے۔۔مثال کے طور پر۔۔۔
1کسی حمیرا زلفی کو "بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام" کا سربراہ نہیں بنایا گیا گیا۔۔اس نام کی کسی خاتون نے وضاحت کی ہے کہ نہ میں کسی زلفی بخاری کی بہن ہوں نہ میرا کہیں تقرر ہوا ہے۔ یہ خبر 'جنگ' نے بھی پہلے صفحے پر شایعؑ کی
2 ایک جعلی فؤٹو شاپ وڈیو عمران خان اور ان کی بیگم کی اس کیپشن کے ساتھ پھیلایؑ گیؑ کہ"بشریٰ بی بی کا عکس آییؑنے میں نظر نہیں آتا"
3۔ایک جھوٹی خبر نشر ہویؑ کہ بشریٰ بی بی کی چھوٹی صاحبزادی کا ساڑھ سات لاکھ روپے ماہانہ پر "ویمن ایمپلایمنٹ ونگ" میں تقرر کا نوٹی فیکیشن جاری کردیا گیا۔یہ بے بنیاد خبر اردو اخبارات میں صفحؑہ اول کی زینت بنی
4، ایک اور فیک وڈیو چلایؑ گیؑ کہ عمران نے ہیلی کاپٹر چھوڑ کے "مہران" میں آنا جانا شروع کر دیا ۔اس کو کار ڈراییؑو کرتے بھی دکھایا گیا۔وہ سڑک پرایک پیلی ٹیکسی کو اوور ٹیک بھی کرتا ہے اور ہاتھ بھی ہلاتا ہے۔۔یہ قطعی عمران نہیں اس کا ہم شکل ہے۔۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کچھ عرصہ قبل اسے پی۔کے۔ میں کہاں دکھایا گیا تھا۔ وہ کیمرے کے سامے بات بھی کرتا ہے کہ اس مشابہت کی وجہ سے وہ خوش بھی ہے اور پریشان بھی
۔۔اب دیکھےؑ وہ خبریں جو سنسر کردی گیینؑ
1۔چند دن قبل پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات رات دو بجے 6 ہمراہیوں کے ساتھ پہنچے اور مطالبہ کیا کہ انہیں خطرناک قیدیوں کے وارڈ کی چابی دی جاےؑ۔انکار پر چابیا﷽ں چھین لی گؑیؑین حفاظتی عملے کو محدود کر دیا گیا اور وزیر صاحب نے کیؑ گھنٹے دہشت گردوں سے خفیہ مزاکرات بھی کےؑ،وہ چند ایک کو لے جانا بھی چاہتے تھے لیکن عملے نے مزاحمت کی۔۔بلا شبہہ وزیر کو چھاپا مارنے کا اختیار حاصل ہے لیکن کسی شکایت پر۔۔شکوک ان کے دہشت گردوں سے ملاقت نے پیدا کیا۔ جب جیلر نے اس کی شکایت کی تو اس کا ٹرانسفر کردیا گیا۔۔خبر میں نے بھی نہیں سنی تھی کین "ٹریبیون" نے دوچار دن پہلے ایک اداریہ لکھا تو مجھے پتا چلا
2،لاہور ہایؑ کورٹ کے عباد لودھی نے ایفیڈرین کیسس میں حنیف عباسی کی ضمانت منظور کرلی۔
3۔ سپریم کورٹ نے کل1954 میں پاکستان کا حصہ بننے والی ریاست بھاولپور کے وارثوں کا حق وراثت تسلیم کر لیا ہے
آپ نے یہ خبریں ٹی وی پر سنیں؟
مجھےبتاینں کہ میں خبر کسے سمجھوں اور افواہ کسے جب وہ ہمارے انٹرنیشنل سٹلایؑٹ نیوز نیٹ ورک سے نشر ہوجاےؑ؟۔۔خبر کی سند میں "ڈان" ۔۔"جیو" اور 'سما" یا "92" کی کچھ گڈول ہے لیکن وہ جو برساتی مینڈکوں کی طرح ہر ایرا غیرا چینل لانچ کر رہا ہے اور خبریں گھڑ کے پھیلا رہا ہے اسے پوچھنے والا کویؑ نہیں اے پی این ایس بھی نہیں۔۔۔پیمرا بھی مجبور کردیا گیا ہے؟ساری عمر جھک مارکے نیک نام ہونے والے اہل صحافت پریشان ہیں کہ نہ جانے کس پر لفافہ جرنلسٹ کی مہر لگ جاےؑ۔ان پر حق گویؑ کے راستے مسدود کےؑ جارہے ہیں۔اخبار بند ہورہے ہیں۔کسی نام نہاد چینل سے "کارڈ" حاصل کر لینے والے بلیک میلر صحافی بن گےؑ ہیں
پھرکویؑ خبریں سنے تو کیوں سنے؟۔۔بہتر یہی ہے کے بے خبر رہے۔۔اس پالیسی کا مقصد یہی رجحان پیدا کرنا ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...