کیا ہے کہنے کو بھری بزم کی تنہائی میں
————————-
وقت کےساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے۔۔ اب سے چار پانچ سال قبل فیس بک پر علمی اور فکری تنوع تھا۔ہم بھی کچھ کہہ سن لیتے تھے دل لگا رہتا تھا۔ عقیدہ اور نظریہ میں انفرادی آزادی خیال و اظہار کا احترام پر میرا اصولی موقف ہمیشہ ایک ہی رہا ہے چنانچہ سیاست اورمذہب پر کسی اختلافی گفتگو میں شرکت کا کیا سوال میں نے اس کی پوری طرح حوصلہ شکنی کی۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ موضوعات بدلے نہیں محدود ہوگےؑ پیں
ایک طبقہ ان سیاسی دھڑوں کی ترجمانی میں بر سر پیکار ہے جو۔۔۔ ممکنہ طور پر۔۔۔ آنے والے مستقبل میؐں اقتدار سنبھالیں گے۔۔اس محاذ آرایؑ میں نہ کسی کے سیاسی شعور کی اہمیت ہے نہ اخلاقی حدود کی۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ فی سبیل اللہ حریف بن جانے والے پہلے کسی سیاسی نطام کا حصہ تھے یا آیندہ ہوں گے ۔ زیادہ تر کسی قسم کی سیاسی تاریخ سے واقف نہیں چنانچہ بلا تکلف غلط بیانی میں بے بنیاد حوالے پورے اعتماد سے لاتے ہیں۔۔ ایسے پیادے سیاسی شاطروں کو استعمال کے بعد ضایؑع کرنے والےٹشو پیپر کی طرح ہمیشہ دستیاب رہے ہیں لیکن پیادہ کیا کر سکتا ہے اور یہ بات پٹشو پیپرکیسے سمجھ سکتا ہے
دوسرے جذبات کی زیادہ شدت کے ساتھ نادانستہ طور پرمذہبی عقایؑد میں فکری انتشارکو فروغ دینے میں مصروف ہیں اور فیس بک کے اکھاڑے میں اتر آےؑ ہیں۔ان میں وہ بھی ہیں جو صفر قوت برداشت رکھتے ہیں اور اس نظریہ پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کا یقین برحق ہے چنانچہ اس کی ترویج کیلےؑ اخلاقی یا قانونی جوازضروری نہیں۔ حالانکہ یہ بھی ٹشو پیپر ہیں جو تاریخ کے ہر دور میں اگلی صفوں کے شہید بنا کے جنت ارسال کےؑ جاتے رہے ہیں ہیں۔مگر ان سے ڈرنا چاہۓ کیونکی یہ اختلاف کرنے والوں کو جہنم رسید کرنا فرض عین جانتے ہیں
اب رہ گیا اہل علم اور اہل قلم کا نمایندہ طبقہ تو اس میں وہ جوانی اور بزرگی کے درمیان کی عمر والی صاحب ثروت خواتین داخل ہوگیؑ ہیں جن کا اصل نفسیاتی مسیؑلہ تو جہ حاصل کرنا ہے۔۔ دوسرا طبقہ وقت گذاری اوراپنے ماحول کی گھٹن کے خلف بغاوت کرنے والی خواتین کا ہے۔شاعری کا لایسنس انہیں کسی مطالعہ یا طبعی شعورکی سند کے بغیر مل جاتا ہے۔ ان کے ساتھ آزادی نسواں کے اپنے اپنے تصورات کے ساتھ وہ خواتین بھی میدان میں اتر آیؑ ہیں جو اپنی روشن خیالی میں معاشرتی اور اخلاقی حدود کو نظر انداز کرنے میں پیش پیش ہیں اوربڑی "بہادری" سے۔۔(لا حاصل )۔۔زنانہ موضوعات اور مسایلؑ پر ایسے جارحانہ لہجے اور زبان میں بات کرتی ہیں کہ مجھے اپنی طبعی آزاد خیالی اپنی غلط فہمی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان کا آیؑیڈیل مغربی عورت بھی آزادی کا یہ تصور نیں رکھتی
میں نےبہتر جانا کہ خود کو اس ماحول سے الگ کرلوں اور اپنی تھوڑی بہت ذہنی توانیؑ کا استعمال وہاں کروں جہاں میں اجنبی نہیں۔ سب اپنے جیسے ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔