خیر سے پٹرول کی نایابی اور گراں فروشی کو دوسرا کھڑکی توڑ ہفتہ چل رہا ہے اور احمد فراز کے ہونہار سپوت نے جو سرکار کی حمایت سے سینیٹ کے رکن بن گئے ہیں ابھی تک اس موضوع پر غزل سرائ نہیں کی ہے حالانکہ الیکٹرانک میڈیا پر بلا ناغہ رونمائی اور گہر افشانی کے بغیر حق نمک ادا نہیں ہوتا
پٹرول فروش عرف تیلی ہمیشہ سے اتنے دولت مند اور بارسوخ رہے ہیں کہ ایک ہالینڈ کی شیل کمپنی ہی پاکستان جیسے درجن بھر ممالک خرید کے سوئس بنکوں میں رکھوادے لیکن خسارے کا سودا کبھی نہیں کیا تو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔کہ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو .ہڑتال پہلے بھی بارہا ہوئ مگر ایک آدھ دن ۔اب ہر ماہ کے آخری دن قیمت کا تعین ہونے لگا تو پمپ اسٹاک روک لیتے تھے کہ کل زیادہ پر نکالیں گے۔۔فیشن قیمت بڑھانے کا تھا۔جب کم ہونے لگی تو سوگ میں ایک دن دکان بند رکھی۔۔مگر بعض اوقات وہ بھی وجہ بنا لیتے تھے مثلا" کمیشن زیادہ کرو۔ٹول ٹیکس کم کرو۔۔ملاوٹ کرنے دو۔نیت ہو تو بہانے بہت لیکن ایک دو دن میں اونٹ کو کسی کروٹ بٹھا دیا جاتا تھا ۔بٹھانے والے اونٹ کےکان میں نحر کی دھمکی دیتے یا دم کے نیچے مہندی لگاتے ۔۔۔۔مگر اونٹ بیٹھ جاتا۔۔لیکن 8 دن رات پٹرول کے رزق پر چلنے والی ہر مشین کو فاقوں کا سامنا ہو اور ملک چلانے والے صرف سینتھیا رچی کی سن رہے ہوں تو لگتا ہے کہیں یہ سچ ہی نہ ہو۔۔میرا مطلب ہے پٹرولیم مظاہرین کا شکوہ
مدنی ریاست کے پاکباز معماروں کی کیا بات۔۔بدنام زمانہ (بوری فیم) سیاست کے موجد ایم کیو ایم کے دور میں آئل ٹینکر ایسو سی ایشن نے ہڑتال کی اور ہزاروں ٹینکر کیماڑی میں ساکت ہو گئے ۔مطالبہ کچھ ضرورہوگا۔۔ان کا صدر کوئ آفریدی تھا جو چھکوں کا بادشاہ نہیں دولت اور طاقت والا بادشاہ تھا ۔ دوسرے دن بھی اس کا دل عوام کی خواری پر نہ پسیجا تو ایم کیو ایم کا ایک گمنام وزیرعادل صدیقی اپنی مہران گاڑی خود چلا کے کیماڑی گیا۔افریدی کو اس کے آفس میں ملا جہاں دربار سجا تھا اور اس کے نو رتن حاضری میں تھے۔چند منٹ میں تخلیہ ہوا تو عادل صدیقی نے کہا کہ میں حکومت کی طرف سے مزاکرات کرنے نہیں ایا۔ایم کیو ایم کا پیغام لایا ہوں۔تین بجے تک ہڑتال ختم کردو۔۔اور ہاتھ ملا کے رخصت ہوا۔افریدی کو دن میں تارے نظر آگئے۔وہ تصور میں سینکڑوں آئل ٹینکرز کو جلتا دیکھ رہا تھا۔
ہڑتال دو بجے ختم ہو گئ۔سب دم کی بات ہے
حاکم کے پاس دبانے کیلئےز بر والا دم ہونا چاہئے پیش والی دم نہیں (جو دبا کے بھاگنے میں کام آتی ہے )
پڑھو فارسی بیجو تیل ۔بات کہی گئ ہوگی جب سرکاری عدالتی زبان فارسی نہ رہی ۔جو اتنے نالائق تھے کہ شاعری بھی نہیں کر سکتے تھے انہیں کسی نے یہ مشورہ دیا ہوگا کہ اب ایسے ہی گھٹیا کام کروگے۔۔لیکن بدلا زمانہ ایسا کہ تیل بیچنے والے ہی دولت سے باعزت ہوئے۔ یہاں تیل بیچنے کی دکان کیلئے ایک قطعہ زمین ہی کروڑوں سے کم نہیں۔پھر لائسنس لینا ہما شما کے بس کی بات نہیں ۔ ان کی سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔۔رکشا والے کے پیچھے لائن میں کوئ وائس چانسلر ہے تو اس کے پیچھے موٹر سائیکل پر داڑھی لہراتے نکاح خواں مولانا جلالی اور ان کے بعدقومی قتالہ عالم سینتھیا رشیاور پھر اگر اپنے بھل مانس افتخار عارف بھی فکر سخن میں غلطاں نظر آجائیں تو حیرانی کیسی۔۔لیکن اب تو پھرتے ہیں میر خوار کوئ پوچھتا نہیں۔۔ آدھی رات کو کسی درویش کی جس نےکبھی ایک کروڑ کا پرائز بونڈ نکلنے کی دعا تک نہیں مانگی لجاجت بھری صدا سنائ دیتی ہے کہ یار بانچ لیٹر پٹرول چاہئے۔۔تمہارے تو رووف کلاسرا سے مراسم ہیں فون کرادو شیخ رشید کو۔وہ کشمیری بازار میں امرتسری پائے کا شوربہ پیںے جاتا ہے۔میں وہیں ٹو ہوں۔۔۔اور ہم ہیلو ہیلو کر تے رہتے ہیں ۔۔کیا؟ آج کا پولٹری ریٹ۔۔۔تانگ نمبر۔۔
یاد کرتے ہیں پرانے وقتوں کو جب نہ کوئ پنچابی تھا نہ بلوچی۔۔ایک مغربی پاکستان تھا جس کے اکلوتے حاکم نواب کالا باغ تھے۔حکومت سبز باغ نہیں کالا باغ دکھاتی تھی ۔ تیل فروش ہڑتال پر گئے تو نواب صاحب کلف لگی دو دھاری مونچھوں کے ساتھ ٹی وی پر نظر ائے۔پیار سے کہا کہ صبح سات بجےتک دکانیں کھول دو۔ صبح دس بجے کے بعد سرکاری گاڑیوں نے سب پٹرول پمپ کے مالکان گھر سے اٹھا لئے اور سنا ہے وہیں گورنر ہاؤس میں میٹنگ کیلئے لے گئے۔پر تکلف طعام پیش کیا اور اخبار والوں کے سامنے مطالبات پر غور کرنے کا وعدہ کرنے کے بعد سب کو کسی کمرے میں پہنچا دیا۔جہاں دیواروں کے سوا کچھ نہ تھا اور ان کے بھی کان نہ تھےوہ کمرہ بھی شاید زیر زمین تھا ورنہ گورنر ہاؤس کے ایک سرے سے دوسرے تک کسی نے سفر نہیں کیا۔ موبائل فون کا زمانہ نہ تھا۔غم و غصہ فریاد و فغاں احتجاج خود انہوں نے ہی سنا وہ بھی دو تین گھنٹے۔پھر پیٹ میں گرج چمک کے ساتھ طوفان نے انگڑائ لی جو لنچ میں دئے گئے کسی طاقتور جلاب آور دوا کا اثر تھا۔اس کے آگے کون بند باندھ سکتا تھا۔۔ باتھ روم وہی روم تھا الگ کوئ نہ تھا۔ہال سے باہر جانا بھی ممکن نہ تھا گزشتہ رات کا کھایا پیا بھی قدرتی راستے سے باہر اگیا اور سب کے سامنے۔کپڑے اتار کے بھی کہاں ٹانگتے۔ایک جمام میں سب ننگے ہو گئے۔نوبت بہ ایں جا رسید کہ کھڑے رہنے کی توانائ بھی نہ رہی سب اسی مشترکہ گٹر کی غلاظت میں گر گئے اور گٹر کے کیڑوں کی طرح کلبلاتے رہے ۔خفیہ کیمروں نے ہر زاویے سے سب کو دیکھا ۔جب وہ بیہوش ہوئے تو ان کو اٹھالیا گیا دھو دھلا کے عہد جیسے نئے جوڑوں میں طبی امداد دی گئ اور آرام دہ بیڈ رومز میں منتقل کردیا گیا۔شام کے بعد ان کی طبیعت بحال ہوئ تو ان کو اپنے اپنے فلمی ٹوٹے دکھائے گئے اور ان سے پوچھا کیا کہ کیا وہ گھر والوں یا پریس سے ملنا چاہیں گے؟ ان سب کا ایک جواب تھا۔ہم صبح ہڑتال ختم کرنے کا اعلان ٹی وی پر پریس کانفرنس میں کریں گے۔ ان کو مطلع کیا گیا کہ یہ اعلان بھی خبر نامے میں نشر ہو چکا تھا
واللہ اعلم بالصواب۔۔نواب کالا باغ کو نہیں کا لفظ سخت ناپسند تھا ۔فلمسٹار نیلو نے بھی یہ لفظ بولنے کی غلطی کی تھی۔اس پر حبیب جالب کو سمجھانا پڑا۔۔رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔
ایک بار یوں بھی ہوا کہ پنجاب یا صرف لاہور کی قریش برادری نے سوچا کہ اپن بھی بولیں تو کچھ مطالبات کے ساتھ ہڑتال کا اعلان کردیا۔۔اسی گورنر ہاؤس میں ایک چھڑا چھانٹ نوجوان مصطفے کھر۔۔(اسے پیش کے ساتھ نہ پڑھا جائے۔۔) مقیم تھا ۔اس نے تھانوں کو حکم جاری کیا کہ سب کی دکانیں سیل کردو۔اور کارکنوں سے کہا کہ دکان کے سامنے تخت پر بیٹھ جاؤ جیسے بادشاہ بیٹھتے تھے۔بکرے کاٹو خواہ آری سے یا قینچی سے مگر گاہک کو مت جانے دو۔وہ بلا منافع گوشت سرکاری ریٹ پر بیچتے رہے جو تین چوتھائی تھا۔ چھری قریشی برادری کے دلوں پر چل رہی تھی ان کے خریدے بکرے سربلند کھڑے ہوئے مسکرارہے تھے۔ایک ہفتے بعد بڑی منت سماجت سے مطالبات کی جگہ معافی نامہ لکھوا کے بخدمت اقدس عالی جناب کو ارسال کیا اور حلفیہ یقین دلایا کہ بکروں کی صف میں بار برداری کا جانور بھی شامل نہیں کریں گے۔۔تو تھانے داروں نے مونچھیں ہلا کے کہاکہ چلو معاف کیا
لیکن دماغ کس کا کب چل جائے ۔ فال نکالنے والا طوطا بھی نہیں جانتا۔۔اچانک خود تھانیداروں کی امت کو ہڑتال کی سوجھ گئ۔حاکم تو وہی لونڈا تھا۔۔اس نے سب کی پیٹی اتروا کے لائن حاضر کر دیا اور کارکنوں سے کہا کہ ہر جوک میں مولا بخش کے سات سیٹی لے کر اجاو ۔کوئ اماں کاکپڑے دھونے والا ڈنڈا لایا تو کوئ ماسٹر صاحب یا مولوی صاب سے مانگ کے۔۔مگر تین دن بعد تھانے کا قبضہ پھر ملا
اخبار گواہ ہیں کہ ان تین دنوں میں لاہوری چین سے سوئے اور کوئ جرم نہیں ہوا
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...