چل بسا کوئی مرے حلقہ احباب سے پھر
آو اور آکے رضی اپنا جنازہ پڑھ جائو
جناب صفدر صدیق رضی صاحب کا یہ شعر موقع کی مناسبت سے کتنی زیادہ مطابقت رکھتا ہے کہ سال رواں یعنی 2020 کے جون کا مہینہ اردو ادب پر بہت بھاری ثابت ہوا ہے اس میں پاکستان کے ممتاز شاعر منظر ایوبی صاحب اور ان سے چند روز قبل جناب سرور جاوید صاحب اس دار فانی سے رخصت ہو گئے اور دونوں کا تعلق کراچی سے ہے۔ میری کوئی ادبی حیثیت تو نہیں ہے لیکن اس بات پر مجھے فخر ضرور ہے کہ مجھے پاکستان کی اکثر ممتاز ادبی شخصیات اور شعراء کے ساتھ ادبی تقاریب اور مشاعروں میں شرکت اور ان سے گفتگو اور ملاقات کا اعزاز حاصل رہا ہے ان میں جناب منظر ایوبی صاحب بھی شامل ہیں ۔ مجھے احمد فراز صاحب، امجد اسلام امجد صاحب، سلیم کوثر صاحب ، اوریا مقبول صاحب اور فواد حسن فواد صاحب کے ساتھ بھی مشاعروں میں شرکت کا اعزاز حاصل رہا ہے لیکن سب سے زیادہ جن ادبی اور علمی شخصیات کے ساتھ مشاعروں اور ادبی سیمیناروں میں شرکت کی ہے ان میں عطاء الحق قاسمی صاحب، محسن بھوپالی صاحب، پروفیسر آفاق احمد صدیقی صاحب، تابش دہلوی صاحب،راغب مراد آبادی صاحب، منظر ایوبی صاحب، اعجاز رحمانی صاحب ، احمد خان مدہوش صاحب اور قمر وارثی صاحب شامل ہیں ۔
یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ جب بھی کسی شخصیت یا دوست و احباب اور عزیز و اقارب کا انتقال ہوتا ہے تو ان کی باتیں اور ان کے کام اور خوبیاں وغیرہ بڑی شدت کے ساتھ یاد آتی ہیں اور وہ شخصیت ذہن کی اسکرین پر جلوہ گر رہتی ہے ۔ ٹھیک اسی طرح منظر ایوبی صاحب کے انتقال سے ان کی یادیں قطار اندر قطار کھڑی ہیں ۔ وہ مشاعروں کی جان اور شان ہوا کرتے تھے ۔ میں نے اپنی ادبی زندگی میں مشاعروں میں ان جیسی بارعب اور گرجدار آواز نہیں سنی ہے۔ منظر ایوبی صاحب 4 اگست 1932 کو بھارت کی ریاست اتر پردیش کے بدایوں شہر میں پیدا ہوئے انہوں نے 1950 میں بدایوں شہر سے ہی انٹر میڈیئٹ کی تعلیم حاصل کی اور اسی سال محترمہ حبیبہ خاتون سے ان کی شادی ہوئی اور وہ اسی سال 5 مئی کو ہجرت کر کے لاہور پاکستان آ گئے ۔ پنجاب یونیورسٹی سے ادیب فاضل کی سند حاصل کی اور پھر لاہور سے کراچی منتقل ہوئے ۔ کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی ۔ جس کے بعد وہ سرکاری ملازمت سے وابستہ ہو گئے اور 1994 میں رٹائر ہوئے ۔ انہوں نے 1946 میں طالب علمی کے زمانے سے ہی شاعری شروع کی تھی ۔ پاکستان کے صف اول کے شعراء میں ان کا شمار ہونے لگا ۔ ان کی شاعری ، علمی اور تحقیقی تصانیف کی تعداد نصف درجن سے زیادہ ہے جن میں ، تکلم ، مزاج، چڑھتا چاند ابھرتا سورج اور " نئی پرانی آوازیں " وغیرہ شامل ہیں ۔
میں نے جب منظر ایوبی صاحب کی وفات کی خبر سن کر ان کی یادوں کو کریدنا شروع کیا تو ان کے ساتھ شامل ہونے والے بہت سے مشاعرے یاد آنے لگے اور میں نے جب پرانی ڈائری کی ورق گردانی شروع کی تو ان کی زیر صدارت منعقد ہونے والے ایک مشاعرے کی رپورٹ میرے سامنے آ گئی ۔ 22 اپریل 2004 کو روزنامہ جنگ کوئٹہ میں میری ایک ادبی رپورٹ شایع ہوئی تھی اس مشاعرے کی صدارت منظر ایوبی صاحب نے کی تھی ۔ یہ مشاعرہ 14 اپریل 2004 کو ضلع کونسل ہال جیکب آباد میں منعقد ہوا تھا جس کے مہمان خصوصی سندھی کے بزرگ شاعر سید اظہر گیلانی صاحب جبکہ عطاء الحق قاسمی صاحب اور فرخ گیلانی صاحبہ اعزازی مہمان خصوصی تھے ۔ نظامت کے فرائض نوجوان شاعر اختر مراد صاحب نے سر انجام دیئے تھے ۔ اس مشاعرے میں جو شعراء شریک ہوئے تھے ان میں قمر وارثی، صابر براری ،احمد خان مدہوش، ، نشتر ناتھن شاہی، ڈاکٹر اسد جمال پلی، ڈاکٹر عابد لغاری رفیق خاکی، حافظ رشید، مرشد گیلانی، قطب الدین تاب، مراد علی نور، ڈاکٹر انیس الرحمن، ڈاکٹر بشیر شاد، غلام غوث غازی، نواز علی ڈومکی، رضوان گل، آغا احسان دانش اور یہ ناچیز آغا نیاز مگسی و دیگر شامل تھے ۔ یہ مشاعرہ غالب سندھ فیض بخشاپوری اکیڈمی جیکب آباد کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا ۔ میری اخباری رپورٹ میں جن شعراء کے چند منتخب اشعار شامل ہوئے وہ یہاں قارئین کی نذر کیے گئے ہیں ۔
منظر ایوبی صاحب صدر مشاعرہ
دکھ جو سنائیں تو ہم کس کس کا
زخم سے کوئی سینہ خالی ہے
سب کے ہاتھوں میں ایک سا کشکول
شہر کا شہر ہی سوالی ہے
عطء الحق قاسمی صاحب اعزازی مہمان خاص
ان اندھیروں میں بھی منزل پا سکتے ہیں ہم
جگنووں کو راستہ یاد ہونا چاہیے
ظلم بچہ جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے
فرخ گیلانی صاحبہ اعزازی مہمان خصوصی
ہم نے ہی اس کو بلایا تھا بڑی چاہت سے
ہم بھی پھر ساتھ گئے شہر بدر ہونے تک
تم نے ایک لمحے میں مسمار کر لیا جس کو
سیکڑوں سال لگے اس کو نگر ہونے تک
قمر وارثی
سکون قلب اسی پے بحال رہتا ہے
وقار زیست کا جس کو خیال رہتا ہے
صابر براری
چاند دیکھا جو کل چودھویں رات کا
تم صبح تک یہاں بہت یاد آئے ہمیں
حافظ رشید
دراز دست طلب اس لیئے نہیں کرتے
کہ اس میں اپنی انا کو مٹانا پڑتا ہے
رفیق خاکی
آج سو یوسف گم گشتہ اسی شہر میں ہیں
کون بچھڑے ہوئے بھائی کی کہانی لکھے
اختر مراد
تھی اس قدر فضل کہ کھڑی فصل جل گئی
برسی اتنی بوند کہ بادل گزر گئے
آغا نیاز مگسی
وطن کے ناخدائوں سے گلے شکوے ہزاروں ہیں
کبھی آئین ٹوٹا ہے کبھی دستور بدلا ہے
منظر ایوبی صاحب کے کئی اشعار ہمیشہ یاد رہ جانے اور دل و دماغ پر نقش کر جانے والے ہیں آخر میں ایسے ہی اشعار میں سے ان کے 2 اشعار ملاحظہ فرمائیں
بناتے جائو کسی دور کے بھی نقش قدم
یہ کیوں کہوں کہ میرا ہمسفر نہ تھا کوئی