حیاء غزل صاحبہ کے تعارف سے پہلے 3 خوب صورت اشعار ملاحظہ ہوں
زندگی کے بوجھ کو ڈھوتا ہوا
آدمی ہر اک یہاں مزدور ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرخیاں پڑھ کے سبھی نے چھوڑ دیں
زندگانی شام کا اخبار ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرد لہجہ ہے تو اطوار میں خنکی ہے کھلی
مجھ کو محبوب ملا بھی تو دسمبر جیسا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی معروف خواتین شاعرات میں سے ایک شاعرہ ، مصورہ، افسانہ نگار، کالمسٹ،بیوٹیشن اور ماہنامہ انٹرنیشنل روابط میگزین کے بیوٹی ٹپس پیج کی انچارج محترمہ حیاء غزل صاحبہ کا اصل نام غزالہ وسیم ہے لیکن وہ اپنے حیاء غزل کے قلمی نام سے مشہور و معروف ہیں ۔ غزل صاحبہ 25 فروری 1978کو اندرون سندھ کے سب سے بڑے اور تجارتی شہر سکھر سے ملحقہ شہر روہڑی کے محمد جمیل احمد خان کے علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔ اس لیئے شاعری کا شوق ان کو بچپن میں ہی ورثے میں ملا ۔ غزل صاحبہ کے بزرگ ہندوستان کے شہر آگرہ سے ہجرت کر کے پنجاب پاکستان میں آباد ہوئے اور وہاں سے روہڑی منتقل ہو گئے ۔ اور پھر ہجرتوں کا یہ سلسلہ کراچی میں آ کر تھم گیا ۔ وہ ہماری رائٹرز کلب کراچی اور اسلامک رائٹرز موومنٹ کی بھی ممبر ہیں ۔ ان کی شاعری، کہانیاں، فکشنز ،افسانے کالمز مختلف اخبارات اور رسائل و جرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔
حیاء غزل صاحبہ ابھی ساتویں جماعت میں تھیں کہ ان کا خاندان روہڑی/ سکھر سے کراچی منتقل ہو گیا ۔ انہوں نے 14 یا 15 سال کی عمر میں شاعری شروع کی اس کے ساتھ ساتھ مصوری، کالم نویسی اور افسانہ نگاری کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ۔ بعد ازاں بیوٹیشن بھی بن گئیں اور تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔بی اے سر سید گورنمنٹ گرلز کالج کراچی سے کیا جہاں اس وقت ملک کی ممتاز شاعرہ پروین شاکر بطور لیکچرر تعینات تھیں ۔ بی اے کرنے کے فوری بعد وہ وسیم صمد صاحب کےساتھ شادی کے ازدواجی بندھن میں بندھ گئیں جس کے بعد پورے 10 سال تک شاعری سے دور ہو کر امور خانہ داری میں مصروف ہو گئیں لیکن خوش قسمتی سے ان کے خاوند محترم نے ان کو پھر سے شاعری کے ساتھ جڑنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ ان کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی کی ۔ غزل صاحبہ کی شاعری کے بارے میں، میں صرف اتنا کہنا ہی کافی سمجھتا ہوں کہ " پڑھتا جا سر دھنتا جا" ۔ ان کی شاعری احساسات اور دلی جذبات سے بھرپور ہے ۔ ان کے چند ایک اشعار تو ضرب المثل بننے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ان کی شاعری کا بڑا کمال یہ ہے کہ ان کے ہر شعر اور کلام،غزل اور نظم پر دل کھول کر داد دینے کو جی چاہتا ہے اور ان کا ہر ایک شعر یاد کرنے قابل ہے ۔ ان کی ابھی تک کوئی کتاب نہیں چھپی ہے اگر ان کی شاعری کی کتاب ہوتی تو میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ جب تک اس کی شاعری کی کتاب کو آخر تک نہ پڑھ لیتے اس وقت تک یکسو ہو کر اس کی شعری احساسات میں کھوئے رہتے ۔ آپ ان کے جس شعر کو پڑھیں آپ کو یہی محسوس ہوگا کہ " گویا یہ بھی میرے دل میں تھا " یا یہی سوچتے کہ یہ شعر میرے ہی بارے میں لکھا اور کہا گیا ہے ۔ ان کے اشعار میں زندگی کا سفر رواں دواں ملتا ہے اور محبت سر چڑھ کر بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جہاں محبت اور احساس کی بات کی جاتی ہو وہ انسان خود کو ہزار دکھ اور غم کے باوجود خود کو مایوس ہونے نہیں دیتا اور حیاء غزل صاحبہ کی شاعری میں یہ تمام لوازمات موجود اور دستیاب ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں غزل صاحبہ نے کہا کہ انٹرنیٹ سروس سے پہلے اخبارات اور رسائل و جرائد تک قارئین اور ادیب و شعراء کی رسائی بہت محدود تھی لیکن انٹر نیٹ نے ایک بٹن کے ذریعے دنیا بھر سے رابطے کو استوار کیا علمی خزانے تک رسائی دی جہاں پر تحقیقی کام، کتابیات سازی ،اشارات اور لغات وغیرہ سے ہماری علمی استعداد میں اضافہ ہونے لگا ۔ اردو زبان کو بین الاقوامی ویب گاہوں میں اردو کو جگہ دی گئی جس سے اردو زبان و ادب کی اہمیت اور حیثیت میں اضافہ ہوا ۔ آن لائن کتب خانوں اور ادبی ویب گاہوں کی بدولت اردو سے قاری کا رشتہ مضبوط ہو گیا ۔
آخر میں آپ کو ان کی خوب صورت شاعری سے لطف اندوز کرنے کیلئے چند منتخب اشعار آپ کی نذر کیے جاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیئے تھوڑا سا سنبھل کے رستے میں
آدمی آرہا ہے. ……… پیروں میں
…….
دستار میرے بیٹے کے قدموں پہ پڑی ہے
میں جرم ضعیفی کی سزا کاٹ رہا ہوں
………
ہم بال بنائیں کہ خدوخال سنوارین
آئینہ ء دیوار سے بہتر تری آنکھیں
……
سامنے سے اٹھا کے تم دیوار
میرے حصے کی دھوپ مت چھینو
……
انا کی قید میں ہم دونوں ہی بندی تھے غزل
میں اسکو چھوڑ گئی وہ جہان چھوڑ گیا
بندی(قیدی)
…………..
نئی پرواز کا نہ حوصلہ چھینو پرندوں سے
نگاہیں پھیر لو تم کو اگر اچھا نہیں لگتا
………….
غائبانہ شریک کرکے تمہیں
ایک چسکی بھری ہے چائے کی
………….
حاشیے کھینچ کے عادی تھی سطر لکھنے کی
زندگی میں یہی ترتیب مجھے لے ڈوبی
…………
لکھی ہے ابتداء میں نے جسے انجام دیتے ہو
تمہاری اس کہانی میں کہیں میرا بھی حصہ ہے
………..
وقت سے پہلے بند کلیوں پر
کیسے آیا شباب مت پوچھیں
تلخیاں گھولتے ہیں لہجوں میں
نفرتوں کے نصاب مت پوچھیں
…….
ہم نے جسے ذرا سی توجہ ملا کے دی
ہونٹوں سے اس کے چائے کا چسکا نہیں گیا
……….
شام ہوتے ہی تیرے جسم کی دھوپ
میرے سائے میں چھپا کرتی ہے
……….
پیاس بجھتی نہیں سمندر کی
ہم نے دریا لٹا کے دیکھ لیا
……….
تمام عمر محبت میں سر جھکاتی رہی
جبین شوق کا سجدہ کوئی قضا نہ ہوا
……..
جسم تو جسم ہیں احساس محبت کے لیے
میں نے سائے کو بھی دیوار سے لپٹے دیکھا
……….
میں نے باندھا نہیں پازیب سے اس کو اپنی
لوٹ آتا ہے مگر جب بھی جہاں جاتا ہے
………..
کیسے سمجھیں گے آئینے کا دکھ
آپ جب تک سنور نہیں جاتے
………..
راز افشا نہ ہو اسی خاطر
دور سے ہی سلام ہوتا ہے
………
جنوں جنوں میں پتہ ہی نہیں چلا مجھ کو
بغیر ناؤ کے پانی میں چل پڑی تھی میں
ہر آتا جاتا مجھے محویت سے تکتا تھا
کہ جیسے وقت بتاتی کوئی گھڑی تھی میں
…….
ریل کی سیٹی بجی اور چل پڑا ٹیشن کہیں
آنکھ میں ٹھہرے ہوئے منظر سبھی چلنے لگے
…………
ہم نے جسے ذرا سی توجہ ملا کے دی
ہونٹوں سے اس کے چائے کا چسکا نہیں گیا
………..
درد کے رنگوں نے تصویر بنائ ایسے
چشم حیرت کے مناظر نے دھواں باندھ دیا
………….
اس سے پہلے کہ دروبام ہمیں کھاجاتے
سب کو حصہ بھی تو دینا تھا، مکاں بیچ دیا
…. …
وہ بلبلے کی طرح میری زندگی میں رہا
چھوا جو ہوگیا غائب مرے گماں کی طرح
…….
دیا ہوں پر میں سورج کو بجھا کے
ہر اک شب کے اندھیروں سے لڑی ہوں
………..
……..
مجھ کو دیتا ہے اسیری کا وہ مژدہ ایسے
مری پرواز کو پر دے کر کتر دیتا ہے
……
سادہ اور سہل بات کیا کہیئے
لہجے کی مشکلات کیا کہیئے
بات ہوتی ہے ساری باتوں میں
باتوں باتوں میں بات کیا کہیئے
……..
میں نے خواہش کے جھولے پہ پینگیں بھریں
عمر رفتہ مری مجھ کو لائ کہاں
………
اس کی تصویر کو سینے سے لگا کے ہم نے
وصل کی رات گذاری ہے نئے طور کے ساتھ
………..
پھر گیا کوئ زندگانی سے
وقت رخصت ہوا کہانی سے
……
ہم نے دیوانگی سے توبہ کی
اب وہ صحرا کھنگالتے کیوں ہیں
…………
……….
اک جا نہیں ٹھہرنے دے اپنی نگاہ شوق
ہر دم تلاش کر تو نئے آسمان کی
……….
جس کی تخلیق ہے لمحوں میں مٹادے گا تجھے
پیکر خاک ہے تو اتنا اکڑتا کیوں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مانا فرصت نہیں دنیا کے جھمیلوں سے تجھے
تو مجھے خط نہ لکھے…. فون تو کرسکتا ہے
………
وبا ایسی ہے پھیلی آدمی سے
پرندوں کو کوئ خطرہ نہیں ہے
…
………..
مانا….. خاصے کی چیز ہوں لیکن
مجھ کو نسبت ہے عام لوگوں سے۔
حیاء غزل