بھارت کی مسلم خاتون شاعرہ محترمہ انا دہلوی صاحبہ کے بارے میں پڑھا کہ وہ ایک پیشہ ور شاعرہ ہیں ۔ان کے گھر کا تمام تر خرچہ مشاعروں سے ملنے والے اعزایہ سے چلتا ہے ۔ یہ بات میرے لیے حیرت کا باعث تھی۔ انا دہلوی کا اصل نام روبینہ خان ہے اور وہ ایک یوسفزئی پٹھان کی بیٹی ہیں ۔ روبینہ خان ابھی بمشکل 5 سال کی عمر کی تھیں کہ ان کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ۔ ان کی والدہ محترمہ ٹیچر تھیں لیکن وہ اپنے خاوند محترم کے انتقال کے بعد بیمار رہنے لگیں ۔ روبینہ کا ایک چھوٹا بھائی تھا ۔ ایسی صورت میں گھر کی تمام تر ذمہ داریوں کا بوجھ روبینہ کے ناتواں کاندھوں پر آن پڑا ۔ روبینہ کا خاندان علم و ادب سے دلچسپی رکھتا تھا بلکہ ان کے والدین، ایک چچا اور ایک ماموں بھی ہلکی پھلکی شاعری بھی کرتے تھے ۔ شاید اس ماحول کا اثر تھا کہ روبینہ نے بچپن سے ہی شاعری شروع کر دی اور 12 سال کی عمر میں 1988 میں انہوں نے پہلا مشاعرہ پڑھا جس میں ان کو 400 روپے کا اعزازیہ دیا گیا جس میں 200 روپے ان کی آمد و رفت کا خرچہ بھی شامل تھا جبکہ اس دور میں عام طور پر شعراء کو 100روپیہ اعزازیہ دیا جاتا تھا چنانچہ اس لحاظ سے 400 روہے ان کے لیے بڑی رقم تھی ۔ جو انہوں نے اپنے گھر کے اخراجات کی مد میں خرچ کیے ۔ اسی پہلے مشاعرے میں روبینہ نے روبینہ خان یوسفزئی نے انا دہلوی کے نام سے اپنا کلام پیش کیا تھا ۔ غربت کی وجہ سے وہ جیسے تیسے کر کے انٹر تک ریگیولر تعلیم حاصل کر سکیں اور مزید تعلیم پرائیویٹ طور پر حاصل کی ۔ شاید قدرت انا دہلوی پر مہربان تھی کہ ان کو مشاعروں میں زیادہ بلایا جانے لگا ۔ بطور شاعرہ ان کی شہرت اتنی پھیل گئی کہ ان کو امریکہ، پاکستان، یورپ، خلیجی ممالک اور سعودی عرب تک کے مشاعروں میں ان کو بلایا جانے لگا ۔ اس وقت وہ عالمی شہرت یافتہ شاعرہ بن چکی ہیں ۔ ان کو عزت و شہرت اور دولت سب کچھ حاصل ہو چکا ہے ۔
انا دہلوی ہندی اور اردو زبان میں شاعری کرتی ہیں ۔ ان کو مشاعرے کے اسٹیج کی ملکہ کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے وہ جب اپنا کلام پیش کرنے کے لئے اسٹیج پر آتی ہیں تو اسٹیج پر چھا جاتی ہیں لوگ مکمل انہماک کے ساتھ ان کو سنتے اور بھرپور داد و تحسین سے نوازتے ہیں ۔ انا دہلوی کو بھارت کے سب سے بڑے ٹی وی چینلز میں بھی ملازمت مل گئی ہے وہ بھارت کے سب سے بڑے سرکاری ٹی وی چینل " نیشنل " میں 20 سال سے مسلسل پروگرامز کرتی چلی آ رہی ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھارت کے نجی مشہور ٹی وی چینلز میں بھی ان کو بہت سے پروگرام دئیے جاتے ہیں ۔ اس طرح مشاعروں اور ٹی وی چینلز کے پروگراموں سے ان کو بڑی آمدن ہوتی ہے اور اس حوالے سے شاید جنوبی ایشیا کی یہ واحد شاعرہ ہیں جن کا ذریعہ معاش مشاعرے ہیں ۔ عزت و شہرت اور دولت حاصل ہونے کے باوجود ان کو قلبی یا دلی سکون حاصل نہیں ہو سکا ہے ۔ انا دہلوی کو ایک محترم نے ایک مشاعرے میں شاعری اپنا کلام ترنم کے ساتھ پڑھتے ہوئے پسند کیا اور شادی کی درخواست ہیش کر دی جو منظور کر لی گئی اور دونوں خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کرنے لگے ۔ انا دہلوی نے اپنے کلام اپنے شوہر کو ان کے نام سے منسوب کر کے ان سے بھی مشاعرے پڑھوانے لگی اور ان کے نام سے شعری مجموعہ بھی چھپوانے دیا اس کتاب پر ان کے شوہر کو ایک ادبی ایوارڈ بھی ملا ۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان کے شوہر کو انا دہلوی کے نام اور شہرت سے حسد ہونے لگا یہاں سے ان کے درمیان اختلافات شروع ہو گئے اور باالآخر دونوں کے درمیان علیحدگی ہو گئی ۔ بقول سلمی آغا
ہم وفا کر کے بھی تنہا ہو گئے
انا دہلوی کے اب تک 6 شعری مجموعے شایع ہو چکے ہیں جن میں 3 ہندی اور 3 اردو زبان میں ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندی اور اردو کو بھارت میں 2 بہنیں کہا جاتا ہے ۔ بھارت میں اردو اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ہم مسلمان کم ضرور ہیں مگر کمزور نہیں ہیں ہم اپنے مذہب اسلام کے لیے اپنی جان دے بھی سکتے ہیں اور کسی کی جان لے بھی سکتے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ اب تک موہن کرم چند گاندھی، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی سمیت ہندو رہنماؤں کو قتل کرنے والوں میں کوئی مسلمان ملوث نہیں رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اردو کی نسبت بھارت کے حکمران ہندی کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اردو زبان کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ میں نے بذریعہ انٹرنیٹ کچھ اپنے بھارتی احباب شعراء اور شاعرات سے یہ معلوم کرنا چاہا کہ بھارت میں شعراء کو مشاعروں میں اتنا اعزازیہ ملتا ہے کہ جس سے شعراء کے گھریلو اخراجات پورے ہو سکیں تو اس بارے میں محترمہ روبینہ میر صاحبہ اور جناب مصطفے دلکش صاحب کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ مشاعروں سے ملنے والے اعزایہ سے کسی شاعر کا گھر چلتا ہو شعراء کے شعری مجموعوں کی اشاعت اور معاوضے وغیرہ کے بارے میں جاننا چاہا اس بارے میں بھی انہوں نے وہ کچھ بتایا جو یہاں پاکستان میں ہوتا ہے البتہ محترمہ نسیم خانم صبا صاحبہ کا کہنا تھا کہ بھارت میں معیاری شاعری پر اچھا خاصا اعزازیہ ملتا ہے اور معیاری شاعری پر مبنی کتابوں کی اشاعت یہاں کی اردو اکیڈمیاں مفت میں کرتی ہیں اور شاعر یا شاعرہ کو اس کی کتاب کی 200 کاپیاں بھی مفت فراہم کرتی ہیں ۔ نسیم خانم صبا صاحبہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت میں اردو یا مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا البتہ انہوں نے کہا کہ مٹھی بھر انتہا پسند عناصر بھارت سمیت دنیا کے تمام ممالک میں موجود ہوتے ہیں ۔ جن کے ساتھ اکثریت کو جوڑنا مناسب نہیں ہے ۔