ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے چمن میں ہوتا ہے دیدہ ور پیدا
آج کا دن تاریخ کے اوراق میں پاکستان کے لیے نمایاں حیثیت رکھتا ہے کیونکہ آج ہی کے دن پاکستان کے مایہ ناز سائنس دان طبعیات دان نے 1979 عیسوی میں نوبل انعام حاصل کرکے اس دھرتی کا نام روشن کیا ہے.
یہ آرٹیکل آج کے دن لکھنے کا مقصد اس پاکستان کے فرزند کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جس کی بدولت آج پاکستان کا نام بھی سائنس کے شعبے میں نظر آتا ہے.
ڈاکٹر پروفیسر عبد السلام نے پنجاب کے شہر جھنگ میں غلام حسین اور ہاجرہ حسین کے قادیانی (احمدی) گھرانے میں جنم لیا. آپ کے والد محترم محکمہ تعلیم میں افسر تھے. ڈاکٹر صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم لاہور حاصل کی جہاں میٹرک کے امتحان میں بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کرتے ہوئے ٹاپ کیا. نہ صرف ٹاپ کیا بلکہ سابقہ ریکارڈز بھی توڑ دئیے. گورنمنٹ کالج لاہور (یونیورسٹی GCU) میں سکالر شپ حاصل کرلی. آپ اردو اور انگریزی میں کافی متاثر کن تھے اور آپ کے اساتذہ کی خواہش تھی کہ وہ آپ انگریزی میں تعلیم حاصل کریں مگر آپ کی دلچسپی ریاضیات میں غیر معمولی تھی.1944 عیسوی میں آپ نے ریاضیات میں گریجویشن کی سند حاصل کی اور اپنا کام رامانوہنجن کی مساوات پر شائع کروایا.
باقی والدین کی طرح محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالسلام کے والدِ ذی وقار کی بھی خواہش تھی کہ آپ سول سروس جوائن کریں. آپ نے پدر بزرگوار کی خواہش کو احترام بخشتے ہوئے ریلوے میں ملازمت اختیار کرنے سعی کی مگر کم عمری کی وجہ سے کامیاب نہ ہو پائے.1946 عیسوی میں ریاضیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی گورنمنٹ کالج لاہور سے. پھر 1949 عیسوی میں سکالر شپ پر St John's college, Cambridge چلے گئے. وہاں 1950 عیسوی کو جامعہ کیمبرج سے smith's prize اپنے نام کیا.وہاں کے اساتذہ نے پند و آدیش دیا کہ آپ تجرباتی طبعیات میں وقت دیں مگر پاکستان کے سپوت نے وطن واپسی کی راہ لی کیوں کہ اُن کا شوق نظریاتی طبعیات میں تھا اور یوں وہ دوبارہ سکالر شپ پر یونائیٹد کنگڈم روانہ ہوا اور نظریاتی طبعیات میں ڈاکٹریٹ کی.
1952 عیسوی میں ڈاکٹریٹ میں سند لینے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور واپس آئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور معلم خدمات انجام دیں بعد ازاں وہ کیمبرج میں بھی بطور پروفیسر تعینات رہے. امپیریل کالج میں بھی درس و تدریس کی خدمات سرانجام دیں.
1959 عیسوی میں ان کو جامعہ پنجاب کی طرف سے ذراتی طبعیات میں اعزازی ڈاکٹریٹ کی سند عطا کی گئی.
انہوں نے امپیریل کالج اور کیمبرج یونیورسٹی میں درس و تدریس کے دورانیہ میں کئی بار پاکستان چکر لگائے جو کہ اُن کی دھرتی ماں سے اُنسیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں. آپ نے امپیریل کالج میں تھیوریٹیکل فزسسٹ کا گروپ تشکیل دیا جہاں پر اکثریت پاکستانیوں کی رہی یہ بھی آپ کی حب الوطنی کی مثال ہیں. آپ نے پاکستان میں تعلیمی اور تحقیقی میدان میں ترقی کی بےلوث کاوشیں کیں.
آپ نے انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹیکل فزسسٹ کی بنیاد 1964 عیسوی میں رکھی. اٹلی میں قائم کردہ اس ادارے میں 1993 عیسوی تک بطور ڈائریکٹر خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں. 1974 عیسوی میں پاکستان میں بھی انٹرنیشنل سینٹر فار نتھیا گلی سمر کالج کی بنیاد رکھی اور سائنس کے میدان میں پاکستان کی ترقی کے لئے اپنی کاوش کو رقم کروایا. اس ادارے میں ہر سال بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوتی ہے جس میں جید سائنس دان اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں. آج کل ڈاکٹر صاحب کے شاگرد ریاض الدین صاحب اپنی خدمات بطور ڈائریکٹر سر انجام دے رہے ہیں.
آپ نے ICTP میں رہتے ہوئے بھی حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی سائنسدانوں کو مدعو کرنا جاری رکھا اور اپنے طور پر علمی کاوشیں کرتے رہے.
آپ کے شاگرد ڈاکٹر پرویز ہود بھائی صاحب جو کہ انتہائی قابل شخصیت ہیں وہ آج بھی آپ کے مشن کو سنبھالے ہوئے ہیں اور فزکس کی تعلیم دے رہے ہیں. ریاض الدین صاحب بھی بہت بڑی علمی شخصیت ہیں وہ بھی ریاضی اور فزکس کے میدان میں درس و تدریس کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں.
آپ کا بیٹا بھی بائیو مالیکیولر فزکس کا پروفیسر ہے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اور آپ کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہے.
1979 عیسوی میں آج ہی کے دن آپ کو یونیفیکیشن تھیوری پر نوبیل انعام دیا گیا. یوں آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے فرزند ٹھہرے جن کو یہ اعزاز حاصل ہوا اور ملت اسلامیہ کے دوسرے فرزند بنے جس نے یہ اعزاز اپنے نام کیا. پاکستانی حکومت کی جانب سے آپ کو ستارہ امتیاز اور نشانِ امتیاز سے انعامات سے نوازا گیا.
70 برس کی عمر 21 نومبر 1997 عیسوی کو فرزندِ پاکستان کا انگلینڈ میں وصال ہوا اور آپ کی خواہش پر آپ پاکستان کی سرزمین پر ربوہ میں بہشتی قبرستان میں دفن کیا گیا.
عظیم قومیں اپنے فرزندوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہیں اور ملک و ملت کا نام روشن کرنے والوں کا نام روشن رکھنا زندہ قوموں کا شیوہ رہا ہے. ہم بحیثیتِ پاکستانی اپنے فرزندِ ملت ڈاکٹر عبدالسلام کی کاوشوں کو سراہتے ہیں.
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...