آج سے 10 سال پہلے آج ہی کے دن گوتم گھمبیر نے شاندار اننگز کھیلتے ہوئے ورلڈ کپ فائنل جتوایا ہے۔ اُس ورلڈ کپ کی، اُس دن کی یادیں میرے ذہن میں رچی بسی ہوئی ہیں۔ میرے پیپرز کے ٹھیک ایک ہفتے بعد یہ ورلڈ کپ شروع ہوا تھا۔ 12 فروری کو میں امتحانات سے فارغ ہوا تھا اور 19 فروری کو اس ورلڈ کپ کا آغاز ہوا تھا۔ چونکہ میری فیورٹ ٹیم بچپن سے ہی بھارتی ٹیم تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جماعت چہارم کا طالب علم تھا اور ہمارے اردو کے پیپر میں درخواست آئی تھی۔ اب درخواست کے آخر میں جیسے حسبِ معمول لکھا جاتا ہے کہ آپ کا فرمانبردار شاگرد اپنا نام، رولنمبر وغیرہ۔
میں نے اُس درخواست میں اپنے نام کی بجائے راہول ڈریوڈ کا نام لکھا۔ جس پر استاد صاحب نے میرے تین نمبر کاٹ لئے تھے۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ وریندرا سہواگ کے پوسٹر تک میں اپنے ساتھ رکھتا تھا۔
خیر اس تمام عرصہ میں یہاں تک کہ آج تک میری پسندیدہ ٹیم انڈیا ہی رہی ہے۔ تو 2011 کے ورلڈ کپ میں بھی میری یہی ٹیم تھی۔ اس ورلڈ کپ بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ ساؤتھ افریقہ کے خلاف کھیلے گئے میچ میں سچن رمیش ٹنڈولکر نے سینچری ٹھوک دی۔ اور اس کا اثر یہ ہوا کہ 300 سے زائد کا ہدف دینے کے باوجود بھی وہ میچ انڈین ٹیم ہار گئی۔ اُس میچ ڈی ویلئیرز کی وکٹ لینے کے بعد جو ہربھجن نے جشن منایا تھا اس کو تاریخ کے اوراق میں علیحدہ حیثیت سے لکھنا چاہیے۔ آخر میں 18 گیندوں پر 29 رنز درکار تھے تو مناف بھیا نے 12 رنز دے ڈالے۔ پھر ظہیر خان نے بہترین اوور پھینکا جس میں انہوں نے فقط 4 رنز دئیے اور یوں آخری اوور میں 13 رنز درکار تھے جو نہرا نے بآسانی حریف کی جھولی میں ڈال دئیے۔
پھر ایسی ہی میچ میں انگلینڈ کے خلاف سچن رمیش ٹنڈولکر نے سینچری لگائی اور وہ میچ بھی انڈیا کے لئے بھاری ثابت ہوتے ہوئے برابری کی سطح پر جا کر ختم ہوا۔ ہر میچ کے لئے لکھا تو سلسلہ طویل ہوجائے گا۔
کوارٹر فائنل میں رکی پونٹنگ نے سینچری لگائی تو ہدف کے تعاقب میں پہلی وکٹ جلد گرنے کے بعد لٹل ماسٹر نے نئے گیند کا سامنا کرتے ہوئے 53 رنز کی یادگار باری کھیلی اور یوراج سنگھ نے شاندار بلے بازی کرتے ہوئے رائنا کے ساتھ اچھی شراکت ڈالی۔ اس میچ بریٹ لی نے یادگار بولنگ کی جب 18 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے تو رائنا نے چھکا جڑ دیا پھر جو 3 یارکر بریٹ لی نے لگائے وہ شاندار تھے۔
سیمی فائنل روایتی حریفوں کے درمیان ہوا جس میں لٹل ماسٹر ہی مین آف دی میچ ٹھہرے۔
فائنل میں سری لنکا کے خلاف ہدف کے تعاقب میں بلے بازی کرتے ہوئے جب دونوں لیجنڈز سہواگ اور سچن پویلین لوٹ گئے تو بہت مشکل ہو گئی تھی تو آؤٹ آف گوتم گھمبیر اور ویرات کوہلی (اُن وقتوں میں کوہلی نئے تھے) نے شاندار شراکت قائم کی۔ اس بلے بازی کے دوران سنیل گواسکر بار بار کہہ رہے تھے کہ بہت بڑا موقع ہے دونوں پلئیرز کے پاس اچھی باری کھیلنے کے لئے۔ بہرکیف دونوں اچھی شراکت ڈالی اور گھمبیر نے ایک یادگار اننگز کھیلی کوہلی کے بعد دھونی نے گھمبیر کا ساتھ دیا۔ گھمبیر نے 97 رنز پر ہوتے آف کٹ کھیلنے کی دلیری کی جس کا خمیازہ سینچری سے محرومی کے طور پر بھگتنا پڑا۔ بہر حال دھونی روایتی انداز میں چھکا لگا کر اختتام کرتے ہوئے 72 رنز کی باری کے ساتھ مین آف دی میچ اپنے نام کیا۔ اور انڈین ٹیم ورلڈ چیمپئن بنی۔