شہید رانی محترمہ بینظیر بھٹو کا شمار ان رہنماؤں میں کیا جاتا ہے جن کی ذہانت اور عظمت و قابلیت کا اعتراف ملکی اور غیر ملکی سطح پر کیا جاتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک عظیم لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہادر خاتون بھی تھیں جنہوں نے نہایت نامساعد حالات میں سیاست میں قدم رکھا۔ بدترین ڈکٹیٹر شپ کا سامنا کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنے سیاسی سفر میں بے شمار مشکلات ومصائب سے گزرنا پڑا، جنرل ضیا کی بدترین آمریت اور اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ مخالف حکومتوں کے خلاف شہید رانی کی جدوجہد سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے بدترین حالات میں بھی ہمت نہ ہاری، مشکل سے مشکل حالات میں بھی ڈٹی رہیں لیکن آئین پاکستان اور جمہوریت سے اپنی غیر متزلزل وابستگی پر حرف نہیں آنے دیا۔ آج بھی ملکی اورغیر ملکی سطح پر اپنی جہد مسلسل، جمہوریت اور انسانی حقوق کی چمپئن کے طور پر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو پاکستان کا روشن چہرہسمجھا جاتا ہے۔ تاریخ انہیں ایک ذہین و فطین، قابل اور جراتمند سیاسی رہنما کے طور پر جانتی ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید اکثر کہا کرتی تھیں کہ میں نے سیاست کا انتخاب نہیں کیا بلکہ سیاست نے میرا انتخاب کیا ہے۔ یہی بات چیرمین بلاول بھٹو زرداری پر بھی صادق آتی ہے۔ جب ایک غیر ملکی صحافی نے بلاول بھٹو زرداری سے سوال کیا کہ آپ کی والدہ اور نانا کو مار دیا گیا تو کیا آپ خود کو غیر مخفوظ تصور نہیں کرتے تو بلاول بھٹو زرداری کا جواب تھا کہ میرے پاس دو ہی راستے تھےیا تو باہر چلا جاتا اور عیاشی کی مخفوظ زندگی گزارتا یا پھر پاکستان میں رہتا اور عوام کے حقوق کا تخفظ کرتا تو میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا ہے جو میری والدہ کا راستہ ہے۔ یہ راستہ مشکل اور خطرات سے بھرپور ہے لیکن درست راستہ یہی ہے۔ موروثی سیاست کا الزام لگانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہے جو محترمہ بینظیربھٹو شہید اور بلاول بھٹو زرداری دونوں کو حالات کے جبر نے بہت کم عمری میں پہنا دیا۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے سیاست میں قدم رکھا تو ملک میں آمریت کا گھپ اندھیرا ضیائی مارشل لاء کی صورت میں مسلط تھا۔ چیرمین بھٹو کو پھانسی پر لٹکا کر منظرنامے سے ہٹایا جا چکا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو، محترمہ نصرت بھٹو اور پیپلز پارٹی کے رہنما و کارکن مسلسل قید و بند کا شکار تھے۔ تو یہ تھے وہ حالات جن میں محترمہ بینظیر بھٹو نے عوام کی قیادت کا بیڑا اٹھایا اور اپنے ملک اور قوم کو مارشل لاء کے گھپ اندھیرے سے نکالنے کے لئے جمہوریت کی جانب سفر شروع کیا۔ یہ ایک مشکل سفر تھا لیکن کوئی بھی مشکل اورمصیبت محترمہ بینظیر بھٹو کے قدم نہ لڑکھڑا سکی۔ سکھر جیل میں قید تنہائی اور شدید گرمی میں گزرے شب و روز کو انتہائی بہادری،عزم اور جرات سے گزار کر محترمہ بینظیر بھٹو نے ضیا آمریت کا سر شرم سے جھکا دیا۔ بالآخر 1988 کے انتخابات کے نتیجے میں ملک سے سیاہ رات کا خاتمہ ہوا اور ملک میں جمہوریت کا سورج طلوع ہوا۔ محترمہ بینظیر بھٹو دنیا کی کم عمر ترین اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے وزیراعظم منتخب ہوتے ہی آمریت کی باقیات نے اپنے آقاؤں کے اشارے پر جمہوریت کے خلاف ایک بار پھر صف بندی شروع کردی اور جمہوری قوتوں کے خلاف سازشوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ انہی سازشوں کے نتیجے میں انیس سو نوے میں بدنام زمانہ آٹھویں ترمیم کے زور پر محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کر دی گئی لیکن محترمہ انیس سو ترانوے میں ایک بار پھر عوام کی طاقت سے برسر اقتدار آ گئیں لیکن آٹھویں ترمیم کے ہی کلہاڑے سے حکومت ایک دفعہ پھر چھین لی گئی۔ اس تمام عرصے کے دوران الیکشن کے نتائج کی انجنئیرنگ بھی کی جاتی رہی جو تاریخ کا ایک اور سیاہ باب ہے۔ انیس سو نوے کاالیکشن محترمہ بینظیر بھٹو پہلے سے بھی زیادہ اکثریت سے جیت رہی تھیں لیکن راتوں رات نتائج تبدیل کر دئیے گئے اور پورا الیکشن چرا لیا گیا۔ آج تاریخ کی عدالت اس دھاندلی کو ثابت کر چکی ہے لیکن انصاف کی عدالت سے محترمہ کو انصاف کبھی نہ مل سکا۔اسی طرح انیس سو ستانوے کے الیکشن میں بھی محترمہ بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کو صرف سندھ تک محدود کر دیا گیا۔ دو ہزار دو کےالیکشن میں محترمہ بینظیر بھٹو کو الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا گیا اور اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کے لئے پاکستان آنے کی اجازت بھی نہ دی گئی اس کے باوجود محترمہ بینظیر بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اس الیکشن میں سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی لیکن جنرل مشرف کی آمریت نے حکومت نہ بنانے دی۔ ان تمام الیکشنز میں کی جانے والی دھاندلیوں کے باوجود محترمہ بینظیر بھٹو کا کردار ہمیشہ ایک مدبر, ذمہ دار اور محب وطن رہنما کا رہا۔ محترمہ نے تمام تر تحفظات کے باوجود ہمیشہ انتخابی نتائج کو تسلیم کیا اور کبھی اپنی جدوجہد کو جمہوری اقدار کے دائرے سے نکلنے نہیں دیا تاکہ ملک انارکی اور انتشار کا شکار نہ ہو۔ تمام تر دھاندلیوں کے باوجود ہمیشہ ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پارلیمان میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔ محترمہ کہا کرتی تھیں کہ کمزور سے کمزور جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں آج بھی کوشش کی جاتی ہے کہ خواتین کو گھر اور بچوں تک ہی محدود رکھا جائے ایسی سوچ والے مردانہ حاکمیت پر مبنی معاشرے میں ایک خاتون کی ایسی لازوال جدوجہد کی مثال ملنا مشکل ہے۔ بدترین ڈکٹیٹرشپ کا سامنا کرنا، گھٹیا پروپیگنڈہ اور غلیظ الزامات، چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کبھی ایک شہر کبھی دوسرے شہر مقدمات کی سماعت کے لیے پیش ہونا، دہشت گردوں کے حملے، غرض کون سا ایسا حربہ تھا جو بی بی شہید کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا، سیکیورٹی رسک تک کہا گیا لیکن کوئی بھی ہتھکنڈہ بی بی شہید کو نہ تو اپنے مقصد سے ہٹا سکا اور نہ اپنے عوام سے دور کر سکا۔ آج بدترین مخالفین بھی بی بی شہید کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں۔ یہی بی بی شہید کی خدمات کا اعتراف بھی ہے اور مخالفین کی ناکامی اور جھوٹ کی دلیل بھی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا موقف بالکل واضح تھا۔ جب دوسرے سیاسی رہنما دہشت گردوں کے ڈر سے کوئی واضح موقف دینے سے گھبراتے تھے تو ایسے میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہی تھیں جنہوں نے کھل کر دہشت گردوں کوللکارا اور راولپنڈی کے لیاقت باغ میں کی جانے والی اپنی آخری تقریر میں اپنی حکومت آنے کے بعد سوات کو دہشت گردوں کےپنجے سے چھڑانے کا اعلان کیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے اس وعدے کی تکمیل محترمہ کی شہادت کے بعد جناب آصف علی زرداری نے کی جب پیپلزپارٹی کی حکومت کے حکم پر ہونے والے آپریشن کے نتیجے میں سوات کو دہشت گردوں سے پاک کردیا گیا۔ محترمہبینظیر بھٹو شہید کو اس صورتحال کا مکمل ادراک تھا کہ اپنے اصولی موقف کے باعث وہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں لیکن شہید رانی نہایت بہادری اور جرات کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہیں یہاں تک گھات لگائے بزدل دشمن اپنے گھناونے عزائم میں کامیاب ہو گئے، چاروں صوبوں کی زنجیر توڑ دی گئی اور دُختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو شہادت کے منصب پر فائز ہو کر شہید رانی کے لقب سے ہمیشہ کے لیے امر ہو گئیں۔
وہ دریا دیس سمندر تھی
جو تیرے میرے اندر تھی
وہ سوندھی مٹی سندھڑی کی
وہ لڑکی لال قلندر تھی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...