گیارہ ستمبر 2014 کا سورج طلوع ہوا تو یہ ہر روز کی طرح ایک عام سا دن تھا لیکن جب یہ دن ختم ہوا تو میری متاع عزیز میرے ابوجان چوہدری مشتاق احمد گورائیہ کو ہمیشہ کے لئے ہم سے دور لے کر جا چکا تھا۔ معمول کی روٹین کے مطابق میں تقریباً دس بجےآفس پہنچا ہی تھا کہ قریباً ساڑھے دس گیارہ بجے کے قریب میرے کزن کی پاکستان سے میرے موبائل پر کال آئی۔ کزن کا نام فون پر دیکھتے ہی میں پریشان ہو گیا کہ کوئی گڑ بڑ ہے ورنہ یہ پاکستان سے کسی کا فون آنے کا وقت نہیں ہے۔ میرے کزن نے مجھے صرف اتنا بتایا کہ ابو جان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور حالت اچھی نہیں ہے میں بار بار اس سے یہی پوچھتا رہا کہ مجھے سچ سچ بتاؤ کہ ابو جان ہیں یا نہیں اس وقت یہ حوصلہ ہی نہیں تھا کہ یہ پوچھ سکوں کہ ابو زندہ ہیں کہ نہیں لیکن میرا کزن جواب میں یہی کہتا رہا کہ جلدی سے پاکستان آجاو۔ بہرحال اس کے بعد کیسے گھر پہنچا، کیسے سارا دن گزرا، کیسے پاکستان کے لئے بکنگ ہوئی، کیسے ہم لوگ سترہ اٹھارہ گھنٹے کے سفر کے بعد پاکستان پہنچے یہ سب یاد تو ہے لیکن بیان کرنے کی ہمت آج بھی نہیں۔
ابو جان کو رخصت ہوئے آج سات برس ہو گئے ہیں لیکن آج بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ کہیں آس پاس ہی موجود ہیں۔ ابو جان کےجانے سے ہماری زندگی میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ میں ذاتی طور پر ہر اہم موقع پر ابو جان کی کمی کو شدت سے محسوس کرتا ہوں کیونکہ کسی بھی پریشانی یا فیصلہ کے وقت ابو جان سے مشورہ کر لینے اور ان کی رائے جان لینے سے پریشانی کا حل بھی نکل آتا تھا اور درست فیصلہ کرنے کے قابل بھی ہو جاتے تھے۔
ابو جان کے اوصاف بیان کرنے کے لئے صفحات کے صفحات درکار ہوں گے اس چھوٹی سی تحریر میں ابو جان کی خوبیاں بیان کی ہی نہیں جا سکتیں۔ابو جان نہایت نرم دل، ہمدرد اور شفیق طبیعت کے انسان تھے اور ابو جان کی یہ ہمدرد اور شفیق طبیعت صرف اپنے عزیزواقارب تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ہر ملنے والے اور اجنبی سے بھی ان کا رویہ نہایت ملنساری اور شفقت سے بھرپور ہوتا تھا۔ ایسا بھی ہوا کہ آفس جاتے ہوئے ایک دفعہ کسی لڑکے نے ابو جان سے لفٹ مانگی تو اسے گاڑی میں بٹھا لیا راستے میں گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ لڑکا بیروزگاری کی وجہ سے پریشان ہے تو اسے اپنے ساتھ آفس لے گئے اور نوکری پر لگوا دیا۔ ابوجان کی وفات کے بعد کتنے ہی ایسے لوگ مجھ سے ملے اور بتایا کہ کیسے اور کن کن موقعوں پر ابو جان نے چپکے سے انکی مدد کردی اور کیسے ہر مہینے پیسے ان کے گھر پہنچ جاتے تھے۔ جہاں تک ہو سکتا اگر کسی کی نوکری کا بندوبست کر سکتے تو ضرور کرتے تھے۔ آج بھی ان لوگوں میں سے کسی سے ملاقات ہو جائے تو ابو جان کا ذکر نہایت عقیدت سے کرتے ہیں کہ کیسے چوہدری صاحب نے ان کے لئے نوکری کا بندوبست کیا جس سے ان کے گھر کی دال روٹی عزت سے چلنے لگی۔
ابو جان پاکستان کی ایک بڑی انشورنس کمپنی میں چیف مینیجر کے عہدے سے 2004 میں ریٹائر ہوئے۔ ابو جان نے ساری زندگی نہایت ڈسپلن اور ایمانداری کے ساتھ کام کیا۔ میں نے کبھی ابو جان کو غیر ضروری طور پر آفس سے چھٹی کرتے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ وقت پر آفس پہنچتے تھے۔ میرے ایک کزن نے یہ واقعہ مجھے سنایا کہ ایک دفعہ انہوں نے ابوجان سے پوچھا کہ کبھی ایسا ہوا ہو کہ آپ آفس دیر سے پہنچے ہوں تو ابوجان نے جواب دیا کہ ایک دفعہ دیر ہو گئی تو پھر اس دن میں آفس ہی نہیں گیا آدھے راستے سے ہی واپس گھر لوٹ آیا۔ ابو جان نے ہمیں بھی ہمیشہ ایمانداری کی ہی تلقین کی۔
ابو جان کی وفات کے بعد ابوجان کے ایک دیرینہ دوست ڈاکٹر ایس ایم یعقوب صاحب جو 1977 میں لاہور سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے بھی منتخب ہوئے تھے انہوں نے مجھے یہ واقعہ سنایا کہ الیکشن کے دنوں میں انہوں نے ابوجان کو الیکشن کے کسی کام کے سلسلے میں کچھ رقم دی۔ رات کو الیکشن مہم سے فارغ ہونے کے بعد گھر واپس آئے تو ابوجان نے پینتیس ہزار کی رقم نکال کر ڈاکٹر صاحب کو واپس دی اور کہا کہ آپ نے غلطی سے یہ پیسے مجھے زیادہ دے دئیے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں تمہارے والد کا منہ دیکھنے لگا کہ کیا بات کر رہے ہو یہاں تو پتہ نہیں کون کتنے کتنے پیسے کھا گیا ہے اور تم مجھے اتنی بڑی رقم واپس کررہے ہو۔ 1977 میں پینتیس ہزار ایک بڑی رقم تھی لیکن ابوجان کی ایمانداری سے پھر بھی بڑی نہیں تھی۔
ابو جان کی سیاست اور حالات و واقعات پر بڑی گہری نظر ہوتی تھی۔ ملکی حالات اور سیاست پر ابوجان کا تبصرہ بہت نپا تلا اور برمحل ہوا کرتا تھا۔ مطالعہ کی بڑی پکی اور پرانی عادت تھی۔ ابو جان کی زیر مطالعہ رہنے والی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جو پاکستان ہمارے گھر میں محفوظ ہے جس میں سیاست، مذہب اور تاریخ سمیت مختلف موضوعات پر مشتمل کتابیں شامل ہیں۔
ابو جان پروفیشنل طور پر تو فنانس کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے لیکن اپنے شوق کی خاطر اپنے پروفیشن کے بالکل برعکس ہومیوپیتھک کی بھی باقاعدہ چار سالہ ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور کچھ عرصہ بڑی کامیاب پریکٹس بھی کی لیکن آفس کی مصروفیات کی وجہ سے اس کو جاری نہ رکھ سکے۔ اللہ تعالی نے ابو جان کے ہاتھ میں شفا بھی بہت رکھی تھی۔ بچوں کو تو ابو جان کی دوائیوں کا ایسا اثر ہوتا تھا کہ شائد ہی کبھی ابو جان کی ہومیوپیتھک دوا کے علاوہ کبھی کوئی دوائی استعمال کی ہو۔
ابو جان نہایت نفیس شخصیت کے مالک تھے۔ کپڑوں کی چوائس بہت اعلی تھی۔ سردیوں میں کبھی سوٹ اور ٹائی کے بغیر آفس جاتے نہیں دیکھا۔ گرمیوں میں زیادہ تر سفاری سوٹ پہنا کرتے تھے۔ گاڑی میں سیٹوں کے صاف ستھرے سفید کورز اور غزلوں کی بہترین کولیکشن ابو جان کی شخصیت کا ایک خاصہ تھی۔ ابو جان ایک زمانے میں پائپ پیا کرتے تھے جسے بعد میں چھوڑ دیا لیکن ہمارے گھر میں ابو جان کے سموکنگ پائپس کی اچھی خاصی کولیکشن جمع ہو گئی۔ ابو جان کی وفات سے دو ماہ پہلے جولائی 2014 میں ہم لوگ پاکستان گئے ہوئے تھے تو میری بیگم کو ابو جان کا ایک پرانا سموکنگ پائپ نظر آیا تو ابو جان سے کہنے لگی کہ یہ میں لے لوں تو ابو جان مذاق میں کہنے لگے، کیا میری نشانیاں جمع کر رہی ہو۔ کیا معلوم تھا کہ دو ماہ بعد ان کی یہ بات سچ ثابت ہو جائے گی۔
ابو جان آسٹریلیا بھی بہت شوق سے آیا کرتے تھے لیکن ڈیڑھ دو ماہ سے زیادہ کبھی یہاں قیام نہیں کیا۔ مستقل آسٹریلیا رہنے کا کبھی نہیں سوچا۔ کہتے تھے کہ اس عمر میں بھائیوں بہنوں سے دور نہیں رہ سکتا بس وزٹ کی حد تک ہی ٹھیک ہے۔ ہر روز شام کو بلا ناغہ ہمیں فون کرتے تھے اور میرے بیٹے اور اپنے پوتے شاویز احمد گورائیہ سے بات ضرور کرتے تھے۔ انکی یہ روٹین انکی وفات تک جاری رہی۔ وفات سے ایک روز پہلے بھی روٹین کے مطابق ابو جان کا فون آیا۔ میرے ساتھ بھی بات ہوئی، ان دنوں عمران خان کا دھرنا بھی چل رہا تھا تو میں نے پوچھا ابو جان کیا بنے گا اس دھرنے کا تو کہنے لگے چھوڑو یار اس موضوع کو اپنی بات کرتے ہیں۔ بس یہ آخری گفتگو تھی جو ابو جان سے ہوئی۔
والدین اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہوتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی رشتہ والدین کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ والدین کی دعائیں اولاد کی تقدیر بدل دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اللہ تعالی میری امی جان اور سب کے والدین کو صحت و تندرستی والی لمبی زندگی عطا فرمائے اور میرے ابو جان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
وہ مجھے پیار سے روتے میں ہنسانے والا
جب یاد آتا ہے تو ہنستے میں رلا دیتا ہے
اک ستارہ تھا میں
ایک تو سفر کی تھکاوٹ، پھر تقریب میں شرکت کا طویل وقت، اور پھر تقریب سے رہائش گاہ تک کا...