جب عادل کو اپنی موت صاف نظر آرہی تھی ۔ اس نے ایسا قدم اٹھایا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا!
عادل اٹھارہ ،انیس برس کا ایک خوش مزاج ،خوش گفتار لڑکا تھا۔ویسے تو اچھا لڑکا تھا اچھے کام بھی کرتا،تعلیمی ریکارڈ بھی شاندارتھا اور دوسروں کی مدد کے لئے ہروقت تیار رہتا لیکن اس میں ایک خامی تھی وہ بڑوں کی گفتگو کو سنجیدگی سے نہ لیتا اوراختلاف رائے پر اپنی مرضی چلاتا۔ اوربڑوں کی نصیحتیں ایک کان سے سنتا اوردوسرے کان سے ان کی سنی ہوئی بات ہوامیں اڑادیتا۔
ایک دن اس کے والد نے اس سے کہا دیکھو اگرجہاں میراتمہارااختلاف ہو وہاں میری بات پر عمل کریں تو 75 فیصد معاملات درست ہوں گے۔ اگر تمہاری بات پر عمل کریں صرف پچیس فیصد صحیح ہوں گے۔کیوں کہ تمہارے مقابلہ میں میراتجربہ اورلوگوں سے میل جول ، علم اوردنیامیں گھومنا پھرنا زیادہ ہے۔ میں نے دنیا میں بہت نشیب و فراز دیکھے۔ لہذا جہاں اختلاف رائے ہووہاں میری بات پر عمل کیاجائے۔اورایک اورچیزذہن میں رکھو!روزمرہ کی زندگی کمپیوٹر کی طرح رواں نہیں کہ جب چاہواپنی کسی غلطی کو Ctrl+Z کردو۔اپنااٹھایا ہواقدم واپس لے لو۔ بلکہ اس میں ڈیلیٹ یا ان ڈو کرنے کا کوئی آپشن ہے نہ واپسی کا کوئی راستہ ۔جوقدم اٹھالیا تم چاہو بھی تو واپس نہیں لے سکتے۔سابقہ گزراہوالمحہ جس میں تم نے کوئی عملی قدم اٹھانے کا سوچاتھا وہ کبھی واپس نہیں آئے گا اور اس لمحہ کا خمیازہ بعض اوقات انفرادی سطح پر دہائیوں اورقومی سطح پر صدیوں اٹھاناپڑتاہے۔اس پر مظفر رزمی کا یہ شعر صادق آتاہے :
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
لیکن وہ عادل ہی کیا جس پر ان باتوں کا اثرہوجائے۔ وہ لاپروائی سے سنتا،اپنے والد کو گزشتہ زمانے کے فلسفیوں سے ایک گردانتا ،اوراس کے بعد معاملات وہیں کے وہیں یعنی پرنالہ وہیں رہتا۔
ایک دفعہ اس کے والد نے اسے نصیحت کی کہ بیٹا اکیلا سفر نہ کیا کرو۔ عادل نے ماضی کی طرح اسے سنجیدگی سے نہ لیا۔وہ اکیلے سفر کا دلدادہ تھا اور اس نصیحت کے باوجود دلدادہ رہا۔ اسے گھومنے پھرنے کا تو ویسے بھی بہت شوق تھا۔وہ ایڈونچر پسند تھا۔ نئے نئے چیلنج کو قبول کرنا گویااس کی گھٹی میں تھا۔ وہ بہت ہی باہمت قوی ،جری اور بہادر تھا۔ وہ اکثر حالت سفر میں رہتا،کبھی لق ودق صحراؤں میں گھومتا، کبھی برفانی کہساروںمیں،کبھی کھیتوں کھلیانوں میں ،کبھی حسین وادیوں میں، کبھی پرخطر خارزار راستوں پر ،کبھی سنگلاخ پہاڑوں پر الغرض کبھی نشیب کبھی فراز کبھی پست کبھی بلند مقامات کی سیر وتفریح میں مصروف رہتا۔ اس نے اپنے ملک کا کوئی بھی خطہ نہ چھوڑا تھا۔
کئی دفعہ اسے سفری صعوبات ، مشکلات دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بعض اوقات وہ موت کے دہانے سے واپس لوٹا۔اورکبھی کبھی مصائب اورشدائد سے تنگ آکر وہ سند باد کی طرح دوبارہ سفر نہ کرنے کا عہد بھی کرلیتا۔ لیکن وہ عادل ہی نہیں جوکسی نئے ایڈونچر کے بغیر پورا سال گزارلے۔
شاید اس کی سرشت میں پرسکون زندگی گزارنا نہ تھا۔ اسی لئے پھر چند ماہ بعد وہ مضطرب اوربے چین ہوجاتا۔ اورپھر کبھی کسی مقام کی خوبصورتی کا سن کر ،کسی رسالہ میں حیرت انگیزجگہ کا پڑھ کر ،کسی منظر یا تصویرکے عجائب دیکھ کر وہ پھر جانے کے لئے کمربستہ ہوجاتا اوررخت سفر باندھ لیتا ۔
ایک دفعہ اس نے بلوچستان کے چند علاقوں کے بارے میں سنا کہ وہ بہت سنسان اورخطرناک پہاڑی علاقے ہیں۔ اس نے وہاں جانے کا پروگرام بنالیا۔
وہاں بنیادی سہولیات کافقدان تھا۔ بجلی پانی گیس نہ تھی۔اور وہاں موبائل اورانٹرنیٹ کے سگنل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ وہاں سے گھومتا گھامتا بہت دور نکل گیا جہاں پر اسے نہ آدم نظرآیا نہ آدم زاد۔
گھومتے گھماتے وہ ایک مقام پر ٹھہر گیا۔ وہاں چٹان ایک طرف کچھ اس انداز سے جھکی ہوئی تھی کہ دیکھنے والا حیرت میں ڈوب جاتا۔ایک اور مقام پر اسے ایک چٹان چٹخی ہوئی نظر آئی۔شاید وہاں کبھی زلزلہ آیاہو۔ وہاں چٹخ سے ایک بڑی دراڑ پیدا ہوچکی تھی کہ انسانی ہاتھ بآسانی اس میں داخل کیاجاسکتاتھا۔عادل کو نہ جانے کیا سوجھی اس نے اپنا ہاتھ میں پکڑا ہوا بیگ زمین پر رکھا جس میں اس کا چاقو،پلیٹ اور کچھ کھانے پینے کی چیزیں تھی۔وہ اس دراڑ کے نزدیک آیا اوراپناہاتھ اس میں داخل کیا۔ اس کا پورا بازو کندھے تک اندر چلا گیا لیکن ابھی بھی آگے راستہ تھا۔ ابھی وہ اس مقام کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس مقام کی پیمائش کس طرح کرے یہ کتنا گہرا ہے۔ کہ اچانک ایک چٹخ کی آواز آئی اورپھر فضا میں ایک زوردار چیخ گونجی۔
یہ چیخنے کی آواز کہیں اور سے نہیں آئی تھی بلکہ خود عادل کے چیخنے کی آواز تھی۔ عادل کا بازو کہنی تک بری طرح جکڑا جاچکاتھا۔اوراسے نکالنے کا بھی کوئی راستہ نہ تھا۔ عادل چیختا چلاتا رہا، مدد کے لئے پکارتا رہا لیکن وہاں تھا ہی کون جو اس کی مدد کرتا۔وہاں دور دور تک نہ آدم نہ آدم زاد۔ ایک ہو کا عالم ، ویرانی ہی ویرانی بقول علی احمد جلیلی
دور تک دل میں دکھائی نہیں دیتا کوئی
ایسے ویرانے میں اب کس کو صدا دی جائے
جب عادل نے دیکھا کہ چیخنے چلانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔اسے رہ رہ کراپنے والد کی نصیحتیں یاد آنے لگی۔بہرحال اب کچھ نہ ہوسکتاتھا۔ عادل کو اپنی موت صاف نظرآرہی تھی۔ لیکن وہ ہمت ہارنے والانہ تھا۔اس نے اپنے ارد گرد کا جائزہ لیا۔اس کے کھانے پینے کی چیزیں اس سے کچھ فاصلے پر موجود تھیں۔ اس کی جیب میں تو صرف کچھ چنے اور ہاتھ میں ایک چھوٹی سی پانی کی بوتل تھی۔ وہ چنددانے چنے اورایک دوگھونٹ پانی پیتا رہا۔دودن عادل اسی حالت میں گزرگئے۔ جب دودن گزرنے کے باوجود کوئی شخص اس طرف آتے ہوئے نظر نہ آیا جبکہ اس کا لایاہواباقی سامان خوردونوش اس کے سامنے ہونے کے باوجود اس کی دسترس سے دور تھااورہر طرف اسے موت رقص کرتی ہوئی نظرآنے لگی تو اس نے دل میں ایک بہت بڑا ارادہ کرلیا۔ لیکن اس کے لئے اسے اپنا چاقو درکار تھا جو اس سے دس فٹ دوری پر بیگ کے اندرموجود تھا۔یعنی وہ اسے حاصل نہ کرسکتاتھا۔اس نے ایک بار پھراردگرد کا جائزہ لیا۔اب کے بار قریب پڑے ہوئے نوکیلے پتھر کوپاؤں سے اپنی طرف کھینچا اورپاؤں سے اسے اٹھالیا اوراپنے ہاتھ میں لے کرکچھ سوچنے لگا۔شاید دل ہی دل میں ارادہ مضبوط کررہا ہو۔
یہ عادل ہی کا حوصلہ تھا کہ وہ اتنی تکلیف سہہ رہاتھا۔ ورنہ کوئی عام آدمی ہوتا تو دنیا سے جاچکا ہوتا۔ لیکن عادل کے حواس مکمل بحال تھے۔وہ جانتا تھا کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔شاید یہ مقولہ ایسے ہی موقع پر بولا جاتا ہے ۔
Do or die
یہ تمام سوچ کر وہ پتھراپنی کہنی پر مارنے لگا ۔ اس نے مار مارکر اپنےبازو کی ہڈی توڑدی۔لیکن بازو ابھی الگ نہ ہوا۔ وہ تمام اذیت برداشت کرتارہا۔ اب وہ اس پتھر سے اپنا گوشت کاٹ رہا تھا۔ کیونکہ پتھر تیز دھار کا نہ تھا ۔ اس لئے اسے گوشت کاٹنے میں بہت اذیت اورمشقت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب کئی گھنٹوں کے بعد وہ اپنا بازو کاٹنے میں کامیاب ہوا تو وہ پرجوش اندازخوشی سے چیختا چلاتا ناچنے لگا۔ گویا اس نے ہمالیہ سر کرلیا ہو۔ اورواقعی یہ اس کے لئے ہمالیہ سے کم نہ تھا ۔ کیونکہ بازوکٹنے کے نقصان اٹھاکر اس نے اپنی قیمتی زندگی بچالی تھی۔ اس نے اپنا بیگ جس میں ضروری سامان تھا اس سے ماچس نکال کر کچھ کپڑے جلا کر ان کی راکھ اپنے زخم پر لگائی اور اس پر پٹی باندھ لی۔
وہاں سے آزادی ملنے پر فوراً چلنے لگا۔کئی گھنٹے چلنے کے بعد وہ ایسے مقام پر پہنچا جہاں کچھ آبادی تھی۔ ان لوگوں نے عادل کی مدد کی اوراسے قریبی ڈسپنسری پہنچایا جہاں کمپاؤنڈر نے عادل کے زخم کو صاف کرکے دوبارہ اچھی طرح سے پٹی کی۔وہاں موجود ہر شخص عادل کے حوصلے کو سراہے بغیر نہ رہ سکا۔
پھر عادل نے گھر آکر اپنا صحیح علاج کرایا ۔اوربالکل تندرست ہوگیا۔ لیکن اب ایک فرق تھا کہ اس کا ایک بازو اس سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوچکا تھا۔ لیکن چونکہ وہ خوش باش رہنے والا شخص تھا تووہ اس بازو پر افسوس کرنے کے بجائے اپنے زندہ بچ جانے پر شکربجالاتا۔ جب اس کے دوست اس کے بازو کے ضائع ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے تو وہ انہیں کہتا:بقول ابو علی رمضان صاحب
آگیا زخم کھاکرمسکراناآگیا
"افسوس کی کوئی بات نہیں۔انسان کو ہر قسم کے حالات کا بہادری ،حوصلہ اور صبر سے سامنا کرنا چاہئے۔تقدیر کا کبھی شکوہ نہ کرنا چاہئے۔ہرحال اورہرزمان میں رب ذوالجلال کا شکرگزاررہنا چاہئے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے یہ سب اسی کی عطا ہی عطا ہے۔ بس اتنا فرق ہے کہ اس نے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دیا ہے۔ یہ مختصر سی زندگی خوش وخرم اورشکر اداکرتے ہوئے بجالانی چاہئے۔اورشکر بجالانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان خود سے کم تر افراد کو دیکھے۔"
ایک آدمی کا واقعہ سناتا جس کی کسی حادثہ میں ٹانگ کٹ گئی تھی۔ جب اس شخص کے دوست اس کی تعزیت کے لئے آتے ۔ وہ مزاحا کہتا کہ پہلے مجھے دو جوتے پالش کرنے پڑتے تھے لیکن اب میرا کام ہلکا ہوگیا ہے اورمجھے صرف ایک ہی جوتا پالش کرنا پڑے گا۔ یہ کہہ کر خود بھی قہقہہ لگا تا اور پوری محفل زعفران زار ہوجاتی۔
یہ واقعہ سنانے کے بعد عادل کہتا کہ اب مجھے بھی سردیوں میں ٹھنڈ سے بچنے کے لئے ایک ہی دستانہ پہننا پڑے گا۔
اس واقعہ کے گزرنے کے بعد جب اس نے ایک دفعہ جمعہ کی تقریر میں امام صاحب سے حضور اکرم ﷺ کی یہ حدیث مبارکہ سنی کہ" اگر لوگوں کو بھی اکیلے سفر(کی برائیوں) کے متعلق اتنا علم ہوتا (جتنا مجھے)تو کوئی سوار رات میں اکیلا سفر نہ کرتا۔" یعنی اتنا طویل سفر جس میں رات بھی باہر گزارنی پڑے کوئی اکیلا سفر نہ کرتا۔
جسے سن کر عادل اس قول کی حکمت کا دل سے قائل ہوگیا اور اس نے عہد کیا کہ آئندہ وہ بزرگوں کی تمام نصیحتوں پر عمل کرے گا۔
ہاں اس واقعہ کے بعد عادل کے اندر ایک تبدیلی رونما ہوئی۔اب وہ عملی زندگی کی طرف آگیا اور اس نےایڈونچر سے واقعی توبہ کرلی اور اکیلے کبھی سفر پر نہ جانے کا عزم کرلیا۔