عوام کے زریعے، عوام کے لیے عوام کی حکومت۔اس تعریف کا ہمارے الیکشن سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ یہ نعرہ عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے لگایا جاتا ہے۔سب سیاسی پارٹیاں اور آزاد امیدوار ملک و قوم کو بدلنے، سابقہ فرسودہ نظام سے جان چھڑانے اور عوام کی فلاح بہبود کے نعروں اور منشور کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔ پاکستان، کشمیراور گلگت بلتستان میں آج تک روائیتی سیاست ہی اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہے۔ آٹے میں نمک کے برابرنئے چہروں میں سے اکثر موروثیت یا کسی پارٹی کی چھاپ لیے ہوئے ہیں۔ سب اس بات پر متفق ہیں کے سابقہ حکومتوں نے کچھ نہیں کیا حالانکہ یہ کہنے والوں کی اکثر یت ایوانوں کا حصہ رہ چکی ہے۔ ایسے نایاب سیاستدان بھی موجود ہیں جو رات کو ایک پارٹی کے وزیر تھے سورج طلوع ہوتے ہی وہ دوسری پارٹی پر قربان ہو گئے۔ منطق پیش کرتے ان کے عوامی کام نہ ہونے پر پارٹی چھوڑ دی۔ کتنی مزاحیہ بات ہے کہ پانچھ سال اقتدارکے مزے لوٹتے انہیں عوامی کاموں کا خیال نہیں آیا۔ کچھ ایک پارٹی کا ٹکٹ لے کر دوسری میں چلے جاتے۔ جہاں تک سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے وہ بھی میرٹ کے بجائے لوٹا کریسی کے فارمولے پر عمل کرتی ہیں۔ آزادکشمیر میں گنتی کے سیاستدان ہیں وہی پارٹیاں بدل بدل کر عوام کا استحصال کرنے میں مگن رہتے۔ ایم سی نے پی پی کے ایم ایل ایز توڑے، پی پی نے ایم سی کے، ن لیگ نے پی پی اور ایم سی کے اب پی ٹی آئی نے سبھی کے ایم ایل ایز توڑ کر تبدیل کا نعرہ لگادیا۔ اگر لوٹا کریسی ہی تبدیلی ہے تو اللہ ہمیں ایسی تبدیلی سے محفوظ رکھے۔
اس بار تو آزادکشمیر کی تقریبا سبھی پارٹیوں نے ٹکٹوں کی تقسیم پر یو ٹرن کے ریکارڑ قائم کر دیئے ہیں۔ سابقہ مقتدر سیاستدان تو آزمائے ہوئے ہیں ان کا ہدف عوام نہیں ایوان ہے۔پارٹی ٹکٹ اور بطور آزاد الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواران اس بات پر متفق ہیں کہ سابقہ ایم ایل ایز نے عوام کا استحصال کیا اور مسائل حل کرنے میں ناکام رہے، اب نئے چہروں کو موقعہ دیا جائے۔ پرانے سیاستدانوں نے اپنے لیے خطرہ سمجھے جانے والے نئے چہروں میں سے اکثر کو سیاسی داو پیچ کے زریعے دنگل سے باہر پھینک دیا ہے۔ ضلع نیلم میں پیر مظہر سعید شاہ، ثمر سراج، مفتی منصور، قاضی اسرائیل، راجہ الیاس، صداقت شاہ، نصیر اعوان، میاں عبدالقدوس، نواز اعوان اور کئی دیگر کو سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت سیاست سے باہر کر دیا گیا ہے۔ ہوا ان کے ساتھ بہت اچھا ہے کم از کم سیاست تو کرنی آئے گی۔ چھوٹی سیاسی پارٹیوں اور آزاد امیدوار سابقہ سیاستدانوں کو وجہ پس ماندگی گردانتے ہیں اور سابقہ حکومتوں کو ناکام قرار دینے پر متفق ہیں۔ سب کا اتفاق ہے کہ سابقہ ایم ایل ایز کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ سب اس بات پر بھی بضد ہیں کہ ان کا ایک بڑا ووٹ بینک موجود ہے اور بلامبالغہ اکثر کاہے بھی۔ ایسی کیا بات ہے سب نے ہلکی پھلکی موسیقی کے بعد چپ سادھ لی ہے۔ ان میں سے کچھ پارٹی ٹکٹ کی تبدیلی اور کچھ عدالتی فیصلے سے امیدیں وابسطہ کیے ہوئے ہیں۔کچھ نے ٹکٹ نہ ملنے پر روائیتی احتجاج کے بعد چپ سادھ کر پارٹی میں ہی رہنے کو عافیت سمجھا اور کچھ نے پارٹی بدل لی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر ان کا واقعی ووٹ بینک اور عوامی پذیرائی ہے تو پھر یہ بطور آزاد امیدوار میدان میں اترنے سے کیوں کتراتے ہیں؟ ان تمام افراد نے نئی نسل کو غلط راہ پر چلا نے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ پارٹی کے بغیر آپ نہ الیکشن لڑ سکتے اور نہ جیت سکتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں انہوں نے نئی نسل کو سرمایہ دارانہ، جاگیر دارانہ اور موروثی نظام سے آزاد کرنے کے بجائے ان کے چرنوں میں بیٹھنے کا مشورہ دے دیا ہے۔ ان کی فکرونظر میں سیاسی زندگی کا دارومدار پارٹی پر منحصر ہے۔ جو افراد پارٹیوں کے بغیر الیکشن نہیں لڑ سکتے وہ کشمیر کو خاک تبدیل کریں گے۔ اس ضمن میں پیر مظہر سعید شاہ نے تمام امیدواران کو متفقہ امیدوار لانے کے لیے تین نکاتی فارمولا دیا جس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ نمبر 1سب بات چیت کے زریعے کسی ایک امیدوار پر اتفاق کر لیں اوروہ اپنی پارٹی چھوڑ کر بطور آزاد امید وار الیکشن لڑے گا۔ 2سب اپنی جانب سے چند افراد کونامزد کریں وہ جسے متفقہ طور پر منتخب کریں اس پر اتفاق کر لیں۔3 سب ملکر کر کرہ اندازی کر لیں جس کا نام نکلے اس کو سامنے لائیں۔پیر مظہر سعید شاہ صاحب تو بری و ذمہ ہو گئے اب اہل نیلم یہ نہیں کہہ سکتے کے انہوں نے نیلم کے بجائے مفادات کو ترجیح دی۔ ماضی میں بھی پیر مظہر سعید شاہ نیلم عوامی محاذکے زریعے عوامی مسائل اور نیلم کے حقوق کی جنگ لڑ چکے ہیں جس کا سب ریکارڈ موجود ہے۔دراصل یہ سب اقتدار کی جنگ ہے ان کا محور و مرکز نہ کبھی عوام تھی نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہو سکتی ہے۔ ان کی سوچ پارٹی سے شروع ہو کر پارٹی پر ختم ہوتی ہے۔ ان کو نیلم کی فکر نہیں انہیں اپنی پارٹی، اپنی شہرت، اپنی باری، اپنے اقتدار، اپنی ایڈجسٹمنٹ اوراپنے مفادات کی فکر ہے۔اگر یہ کشمیر اور نیلم کے اتنے ہی ہمدرد ہیں تو سب ملکر سابقہ ایم ایل ایز کے خلاف متحدہ و متفقہ امیدوار لا کر الیکشن کیوں نہیں لڑتے؟اگر نیلم میں جیتنے کے لیے متوقع ووٹوں کا حساب لگائیں تومتذکرہ بالا امیدوار دیگر امیدواران اورناراض ارکان کے ووٹ ملا کر بھاری اکثریت سے الیکشن جیت سکتے ہیں۔مگر قربانی دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔اتحاد نہ بنا کر ان سب نے ہارنا ہے۔یہ سب اپنے مفادات کی جنگ لڑرہے ہیں او ر میری نظر میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کی سیاست کا مقصد کشمیر، نیلم یا وہاں کی عوام ہے۔ ان کا مقصد عوام نہیں ایوان ہے۔جب مقصد ایک ہے، منزل ایک ہے، رقیب مشترکہ ہے تو پھر ہچکچاہٹ کس بات کی؟مگر یہ ایسا کبھی نہیں کریں گے کیونکہ ہر کوئی کشمیر اور نیلم پر اپنی پارٹی، اپنے نشان،اپنے مفادات اور اپنے اقتدار کو ترجیح دیتا ہے بلکہ ان کی ترجیح کشمیر نہ کبھی تھا اور نہ ہے۔ اگر ہم اپنے اذہان سے وابستگیوں، رشتہ داریوں، پارٹیوں اور مفادات کے پردے اٹھا کر دیکھیں تو یہ سب بھی نیلم کے لیے اتنے ہی نقصان دہ ہیں جتنے سابقہ ایم ایل ایز رہ چکے ہیں۔ موسمی امیدواروں نے الیکشن کے نتائج آتے ہی اپنے ٹھکانوں اور آستانوں کی طرف اڑان بھر لینی ہے اور پھر اگلے الیکشن کے دوران محو پرواز ہوں گے۔ کچھ امیدوار شاید الیکشن نتائج کا انتظار بھی نہ کریں اورواپسی کی راہ لیں۔ ان میں سے اکثر نام کے ساتھ سابقہ امیدوار اسمبلی لکھوانے کے شوق والے ہیں جو کاغذات نامزدگی سے ایک دو دن پہلے اعلان کر دیتے۔ تعجب کی بات یہ ہے اگر پی ٹی آئی اور ایم سی اتحاد کر سکتی ہیں، سپیکر اسمبلی 42000ووٹ لے کر ایک حلقہ قربان کر سکتا ہے، حاجی گل خاندان، میاں شفیق جھاگوی اور سردار شفیق کمانڈر کو ٹکٹ مل سکتا ہے، میاں قدوس، پیر مظہر، مفتی منصور، قاضی اسرائیل، راجہ الیاس، صداقت شاہ اورثمر سراج کو سیاسی دوڑ سے باہر کیا جا سکتا ہے تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔جن افراد سے نیلم کے پڑھے لکھے طبقے کی امیدیں وابسطہ ہیں اور انہوں نے یہ ڈرامہ بازی کرنی ہے تو جناب پھر ہمیں پہلے ٹھگ ہی منظور ہیں نئے بہروپیوں کو کیا کرنا ہے۔ سابقہ کو کچھ حد تک تو سمجھ پائے ہیں اگر یہ نئے مفاد پرست مسلط ہو گئے تو دس سال انہیں سمجھنے میں لگ جائیں گے۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں الیکشن کے بعد بھی ہم مفاد پرستوں کو معافی نہیں دیں گے۔ کراچی ایکسپریس والے بھی ذہن نشین کر لیں سیرو تفریح کرنے اور چند رفاعی کام کرنے سے ووٹ نہیں ملتا۔ اگر نیلم پیار ا ہے تو نیلم میں رہیں اور عوام کے ساتھ پانچھ سال گزار کر ٹکٹ کے لیے کسی پارٹی کی دم پکڑنے کے بجائے عوام سے ٹکٹ لے کر الیکشن لڑیں۔کچھ امیدوار ایسے بھی ہیں جو اپنے چند اچھے کاموں کی وجہ سے بننے والے ووٹوں کی بارگیننگ کرکے ذاتی مفادات لے کر چلتے بنتے۔عوام ادھر ہی دھکے کھاتی رہتی ہے۔ووٹ کسی کا موج کسی کی۔ ووٹروں کے بدلے خطبہ جمعہ یا رفلاعی امداد میں سے کچھ حصہ ہی ملتا ہے وہ اسے بھی بھاگتے چور کی لنگوٹی سمجھ کر غنیمت جان لیتے۔