آزاد کشمیر الیکشن کی گہما گہمی اور ٹکٹوں کی تقسیم پر تقریبا سبھی پارٹیوں کے ناراض ارکان نے طبل بجا دیا ہے، اور کچھ بجانے کی تیاری میں ہیں۔ آزاد کشمیر کی چار بڑی پارٹیاں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، مسلم کانفرنس اور پی ٹی آئی میں فاروڑ بلاک کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا ہم خیال گروپ تو الیکشن سے کچھ ماہ قبل ہی فاروڈ بلاک بنا چکا ہے۔ اگرچہ ہم خیال سے ٹکٹ کے امیدوار کو ٹکٹ تو نہیں مل سکا تا ہم وہ مسلم لیگ ن سے سپیکر اسمبلی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ جمہوریت کا بھی یہ تقاضہ تھا کہ دو حلقوں سے ایک ٹکٹ کسی پڑھے لکھے نوجوان کو دیا جاتا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے موروثیت اور غیر جمہوری اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے دونوں حلقوں کے ٹکٹ شاہ صاحب اور میاں صاحب کو جاری کر دیے۔ پیپلز پارٹی سے ٹکٹ کا امیدوار محض مستقبل کے گرین سگنل پر میاں صاحب کے حق میں دستبردار ہو گیا۔مسلم لیگ ن کی جانب سے عوامی دکھاوے کے لیے کچھ امیدواران نے ٹکٹ کی درخواست دی مگر وہ ردی کی ٹوکری کی نظر ہو گئی۔ دونوں بڑی جماعتوں نے اپنے لیے خطرہ سمجھے جانے والے افراد کو دونوں حلقوں سے جیتنے کی صورت میں ایک حلقے کی نشت سے الیکشن لڑنے کا موقعہ دیے جانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ایک حلقے سے چھوڑی جانے والی سیٹ کی امید پر کافی لوگ چپ سادھے ہوئے ہیں۔ دونوں حلقوں سے کسی بھی پارٹی کے جیتنے کے امکانات آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ فرض کیا اگر شاہ اور میاں صاحب دونوں حلقوں سے جیت بھی جاتے ہیں تو دونوں لوئر نیلم کی سیٹ سے چمٹ کر اپر نیلم کی سیٹ چھوڑیں گے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ اپر نیلم جو پہلے ہی پسماندہ ہے اسے ایک بار پھر سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی اپر نیلم میں الیکشن مہم کسی دوسری پارٹی کے ساتھ بہتر مک مکاؤ یا کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے کے تحت جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ حقیقت ہے اگر میاں صاحب دونوں حلقوں سے جیت جاتے ہیں تو اپنے ہوم ٹاون لوئر نیلم کو ترجیح دیں گے۔اپر حلقے کی پسماندگی اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اپر حلقہ کبھی بھی کسی پارٹی کی ترجیح نہیں رہا۔ دونوں پارٹیوں کو ماضی کی نسبت اس الیکشن میں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ ن لیگ مفتی منصور صاحب کو لال بتی کے پیچھے لگانے میں کامیاب ہوگئی ہے جس کا سارا فائدہ ن لیگ کو ہے۔ مفتی صاحب کا اچھا خاصہ ووٹ بینک ہے۔ ایم سی کا ٹکٹ لینے کی صورت میں وہ پی پی اور ن لیگ کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے تھے۔ پی پی اور ن لیگ کی پس پردہ سیاسی چال کے زریعے مفتی صاحب کو لالی پاپ دکھا کر میدان سے آوٹ کیا گیا ہے۔مفتی صاحب کو ایک حلقے کے ٹکٹ کابھی کہا گیا ہے جس کے امکانات کم ہیں۔ہو سکتا ہے مفتی صاحب کے خلاف کوئی سیاسی چال چلائی جا رہی ہو جس کے نتیجے میں وہ مکمل طور پر پیدل ہو جائیں۔ پانچھ سال تک ن لیگ کی ترجمانی کرنے، سکیمیں کھانے، مفادات لینے اور شاہ جی واہ جی کے نعرے لگانے والے ن لیگ کے خلاف ہو گئے ہیں۔ایم سی نے تو اپنے خلاف خود ہی محاذ کھول لیے ہیں۔ اس کے ناقص فیصلوں کے نتیجے میں گنتی کا ووٹر بھی تقسیم در تقسیم ہو چکا ہے۔ اپر حلقے کے لیے پیر مظہرسعید شاہ صاحب کو ٹکٹ کے وعدے پر ایم سی میں لایا گیا اور پھر جھنڈی دکھادی۔پیر مظہر سعید شاہ نہ صرف بہت بڑا ذاتی ووٹ بینک رکھتے ہیں بلکہ ایک مدبر اور تجربہ کارسیاستدان، اعلی درجے کے عالم کے علاوہ وسیع پیمانے پر فلاحی، دینی اور سماجی شناخت کی حامل شخصیت ہیں۔اب پیر صاحب یا تو ایم سی میں رہیں اور اگلے پنج سالے میں پھر ڈسیں یا بطور آزاد امیدوار میدان میں اتریں یا پھر سیاست سے توبہ تائب ہو کر اپنادینی، فلاحی اور سماجی کام جاری رکھیں۔پیرزادہ برادری میں پیر صاحب واحد شخصیت ہیں جن کے ساتھ ان کی ساری برادری کھڑی ہے۔یہ بات سچ ہے ایم سی کو نیلم میں دوبارہ زندہ کرنے والا شخص پیر مظہر سعید شاہ ہے۔ اپر حلقے سے ایم سی کے بعض ذمہ داران نے نہ صرف استعفی دے دیا ہے بلکہ کچھ نے بطور آزاد امیدوار میدان میں اترنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔پیرزادہ برادری کا ایک بھی ووٹ ایم سی کو نہیں پڑے گا۔پیر مظہر صاحب کے الیکشن نہ لڑنے کی صور ت میں لوئر حلقے سے پروفیسر غلام مصطفی شاہ صاحب کو تحریک لبیک کا ٹکٹ ملنے پر پیرزادہ برادری کا ووٹ لبیک اور لبریشن لیگ کے نامزد امیدوار لطیف الرحمان آفاقی کو ملے گا۔ لوئر حلقے کی اعوان فیملی بھی ٹکٹ کی تقسیم پر نالاں ہے اگروہ بطور آزاد امیدوار میدان میں نہیں بھی اترتے ایم سی کو ووٹ نہیں دیں گے۔دہائیوں تک ایم سی سے وابستہ میاں عبدالقدوس صاحب کو بھی پارٹی نے دم کر تے ہوئے جن سمجھ کر ٹکٹ کی دوڑ سے باہر کر دیا۔ میاں عبدالقدوس صاحب اگر پارٹی نہیں بھی چھوڑتے ان کا ذاتی ووٹ اب ایم سی کو نہیں ملنے والا۔ ایم سی کے لیے ایک بری خبر یہ بھی ہے کہ لوئر حلقے سے پی ٹی آئی کا ٹکٹ بھی جھاگ سرکار کے حصے میں آگیا ہے۔ اگر میاں صاحب کو ٹکٹ دیا ہوتا تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی خواہش میں مدد مل سکتی تھی۔ سنا ہے میاں صاحب پی ٹی آئی کو پیارے ہونے والے ہیں۔ میرے خیال میں مزید وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کوئی فیصلہ کر لیا جائے۔اپر حلقے سے پیرمظہر سعید شاہ صاحب کو ایم سی کے سبھی امیدواران کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اچھی خاصی الیکشن مہم بھی ایم سی کے کہنے پر چلائی مگر نہ جانے ایم سی قیادت کو کیا سوجھی کہ سب کو دیوار کے ساتھ لگا کراپنے پاوں پر کلہاڑ ماردیا۔ یوں اپر نیلم میں ایم سی کا پتہ صاف ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے خلاف میرٹ ٹکٹوں کی تقسیم کے بعددونوں حلقوں میں فاروڈ بلاک بن چکے ہیں۔راجہ الیاس، قاضی اسرائیل، صداقت شاہ صاحب اور ٹکٹ کے دیگر امیدواران نے پارٹی فیصلوں کو پارٹی اور عوامی دونوں سطح پر کھل کرنہ صرف چیلنج کیا ہے بلکہ کھل کر فاروڈ بلاک بنانے کے علاوہ ٹکٹ لینے والے امیدوارن کی مخالفت کا اعلان کر دیا ہے۔اپر حلقے سے بھی ٹکٹ کے امیدواران میں سے زیادہ تر حاجی صاحب کے خلاف ہیں۔ کچھ نے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے میرٹ کے قتل پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی ہیں مگر ان کی آنکھیں جیتنے کے بعد حاجی صاحب کھول دیں گے اور رہی سہی ہوا سوشل میڈیا اور قلم کارنکال دیں گے۔ابھی پی ٹی آئی کے اندر جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ الیاس تنویر گروپ، بیرسٹر گروپ، چغتائی گروپ اور چوہدری گروپس دنگل میں ہیں۔بیرسٹر اور تنویر الیاس گروپ میں رسہ کشی جاری ہے۔ اسی گروپ بندی کے نتیجے میں میرٹ،جدوجہداور نوجوانوں کے نعرے لگانے والے باباجی کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے اورفاروڈ بلاک کو دوسرے گروپ کی آشیر باد حاصل ہے۔ یوں میرٹ کو روندھنے والوں کا ساتھ دینے والے ہر طرح سے نقصان میں ہی نظر آتے۔لوئر حلقے سے سادات فیملی کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہ ملنے اورایم سی کا ٹکٹ ملنے پر یہ بات واضع ہو چکی ہے کہ سادات برادری کا ووٹ پی ٹی آئی کے بجائے ایم سی اور دیگر پارٹیوں کو ملے گا۔پی ٹی آئی کے لیے یہ بات بھی خطرے سے خالی نہیں کہ ابھی تک راجہ الیاس، صداقت شاہ، قاضی اسرائیل اور ٹکٹ کے دیگر مرکزی امیدواروں نے دونوں حلقوں سے ٹکٹ ہولڈر امیدواران کی الیکشن مہم کا حصہ نہیں بنے۔ پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کو ٹکٹ بدلنے کاکافی حد تک یقین ہے کیونکہ یو ٹرن خان کبھی بھی پلٹا مار سکتے ہیں۔ ٹکٹ تبدیل ہونے یا نہ ہونے دونوں صورتوں میں یقینا پی ٹی آئی کو دیگر پارٹیاں ٹف ٹائم دیں گی۔آزاد امیدواروں میں سے اکثر موسمی ہیں جو الیکشن کے دوران ہی پرواز کر تے نظر آتے۔ البتہ اس مرتبہ چھوٹی سیاسی پارٹیوں کے علاوہ آزادامیدوار بھی ووٹ توڑنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ لوئر حلقے سے ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم سی اور پی ٹی آئی کے ناراض ارکان، آزاد امیدواران اورچھوٹی سیاسی پارٹیوں کو ملا کرایک مشترکہ فاروڈ بلاک بنا لیں تو بڑی پارٹیوں کا دھڑام تختہ ہو جانا۔ اپر نیلم سے پیر مظہر صاحب، قاضی اسرائیل، میاں عبدالقدوس، خرم جمال صاحب،دیگر آزاد امیدواران، ناراض ارکان اور چھوٹی پارٹیاں ملکر ایک مشترکہ نیلم متحدہ الائنس بنا لیں تو میاں، حاجی، اور شاہ جی کا بوریا بستر گول ہو جائے گا۔ نیلم کی طرح آزاد کشمیر بھر میں یہی صورتحال ہے ہر حلقے میں فاروڈ بلاک بن چکے ہیں.
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...