زبان کے بغیر کسی سیاسی سرگرمی کا تصور بھی ممکن نہیں۔ زبان اور سیاست کا باہمی تعلق سیاسی لسانیات کہلاتا ہے۔ سیاستدان عوام کے سامنے اپنا منشوراپنی ساکھ بچانے اور انہیں قائل کرنے کے لیے بڑی مہارت سے پیش کر تے ہیں۔ سیاسی لسانیات سیاست میں ترغیب دینے اور حکمرانی کرنے کا ایک ہتھیار ہے۔ سماجی راست گوئی کے لیے زبان صاف شفاف اور غیر جانبدار نہیں ہے۔ ہم عام طور پر پوشیدہ معانی کے بجائے سطحی معانی تک محدودرہتے ہیں۔ سیاسی لسانیات عام طور پرمخفی مقاصدکے عیاں ہونے تک پر کشش مگر نقصان دہ ہوتی ہے۔ یہ عوامی فہم و فراست پر اثر انداز ہوتی ہے۔ عوامی جذبات کی ترجمانی اوراظہارکے لیے اہم سرکاری اور نجی تقریبات کی تقاریر بڑی مہارت سے تیار کی جاتی ہیں۔سیاسی لسانیات عوامی حمایت اور ناپسندیدگی دونوں کا سبب بنتی ہے۔ سیاستدان چاہیے عوامی، قومی یا بین الاقوامی سطح پر تقریر کریں، وہ اقتدار کا حصہ ہوں یا اپوزیشن میں، ہر صورت زبان کو گھما پھیرا کر استعمال کر تے ہیں۔ سیاستدان سیاسی لسانیات کو اپنی سیاست چمکانے، اقتدار کو طوالت دینے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر تے ہیں۔گھریلو معاملات سے لیکر عالمی مسائل تک ہر جگہ سیاسی لسانیت کا بھر پور استعمال کیا جاتا ہے۔تاہم سیاست میں یہ بہت مقبول ہتھیار کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ سیاستدان عوام کواس کے زریعے سدھاتے ہیں۔ عوام کو بندر اور بکری والا تماشہ دکھاتے، نوٹ کی جگہ ووٹ بٹورتے اور رفو چکر ہو جاتے۔پانچھ سال کے لیے ووٹ ہضم کھیل ختم۔دہائیوں سے ہم دھوکہ کھانے کے بعد بھی پانچھ سال بعد پھر سے تماش بینی کا شوق پورا کرنے حاضر ہو جاتے۔ امریکہ کے صدارتی امیدوار بوب ڈول نے ’میں‘،’آپ‘ اور’وہ‘ کے ضمائر کثرت سے استعمال کیے جبکہ کلنٹن نے ان کے بجائے اسم ضمیر ’ہم‘ کابھر پور استعمال کیا اورلیکشن جیت گیا۔ امریکی صدر باراک اوبامہ اپنی تقاریر میں ’میرے خیال میں‘،’میں نہیں کرسکتا‘، جیسے الفاظ کا استعمال19%جبکہ رومنے نے یہی استعمال 38%کیا۔صدر باراک اوبامہ اپنی اکثر تقاریر میں ’یقین کے ساتھ‘ ’نہیں کریں گے‘ اور ’نہیں ہو گا‘ جیسے جملوں کااستعمال15%جبکہ رومنے یہی استعمال31%کرتے تھے۔ اوبامہ نے معاون افعال کا استعمال36%جبکہ رومنے نے ان کااستعمال 56%کیا۔ ان معاون افعال میں سے دونوں امیدواران نے معاون فعل cannot کا ریکارڈاستعمال کیا۔ اسم ضمیر ’میں‘اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی مقرر انفرادی حیثیت میں بات کر تا ہے جبکہ نمائندگی ظاہر کرنے کے لیے ’ہم‘ اسم ضمیر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسم ضمیر ’ہم‘ سے مشترکہ ذمہ داری کا سہارا لیتے ہوئے سیاستدان اپنے کندھوں سے بوجھ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسم ضمیر ’میں‘ کا استعمال دیگر مقاصد کے لیے بھی کیا جاتا ہے مثلا اپنا نقطہ نظر بیان کرنے،اپنا مثبت کردار اور رویہ ظاہر کرنے، سامعین کے ساتھ تعلق کوتقویت دینے، ذاتی کاوش اور وفائے عہد کے اظہار اور اپنی طاقت کے اظہار کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔فاعلی اور مفعولی اسم ضمائر کے استعمال میں بہت فرق ہے اور یہ بعض اوقات مختلف نظریات کی ترجمانی کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔عموما ’ہم‘ مقرر اور سامعین کے درمیان اچھے تعلقات کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ’جمع وہ‘ اپنی ذات اور دوسروں کو الگ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔’2016کے امریکی انتخابات میں ’میں اور ہم‘ ضمائر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن سے زیادہ استعمال کیے۔ان ضمائر کا بہت زیادہ استعمال ہمیں بعد میں ٹرمپ کی پالیسیوں میں پوری طرح نظر آیا جن کے زریعے انہوں نے سفید فارم کو باقی طبقات کے سامنے لا کھڑا کیا۔ سیاستدانوں سے عوامی شکوے دراصل سیاسی لسانیات کی کم فہمی کی وجہ سے ہیں۔ مقامی، قومی اور عالمی زبان میں سیاسی تقریر کے الگ الگ معانی اور مقاصد ہوتے۔ اول الذکرعوام اور سیاستدان میں فاصلہ کم کر تی ہے جبکہ ثانی الذکر فاصلے کو بڑھاتی ہے۔شروع کے روائیتی جملے عوامی جذبات اور موقعہ کی مناسبت سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ سیاسی پس منظر میں خاموشی بہت اہم محرک ہے۔ سیاسی تقریر کے دوران خاموشی سامعین کی عدم دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے۔ سیاسی تقرریں پارٹی ایجنڈے کے مطابق تیار کی جاتی ہیں۔ اسم ضمیر ’ہم‘ کے زریعے مقرر اپنے آپ کو عوام ہی میں سے ظاہر کرنے کی کوشش کر تا ہے مگر سامعین کے لیے اکثر یہ ضمائر مبہم بن کر رہ جاتے ہیں۔وہ فرق نہیں کر سکتے ’ہم ’سے مراد پارٹی، عوام، اپوزیشن یا حکومت میں سے کون ہے۔ سامعین عام طور پر ’ہم‘ کومقرر کی ذات تصور کر تے ہیں۔عام آدمی کو پتہ بھی نہیں چلتا سیاستدان کیسے اسم ضمائر کا سہارا لیتے ہوئے اپنے کندھوں سے ذمہ داری اتار دیتے ہیں اور عوام ان کی اس چال کا باآسانی شکار ہو جاتی ہے۔ ’اسم ضمائر ہمارا، ہمارے، کا استعمال ’ہم‘ سے قدرے مختلف ہے۔ یہ ’ہم‘ کے برعکس ملکیت یا صلاحیت کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسم ضمیر ’میں‘ کا استعمال شخصی یا انفرادی طاقت، مرتبے یا نمائندگی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اسم ضمیر ’آپ، تم‘عام عوام کو مخاطب کر نے کے لیے استعما ل کیا جاتا ہے بعض اوقات یہ عزت و تکریم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ضمائر کے زریعے سیاستدان عوام میں ایک طرف یک جہتی پیدا کرنے کی کوشش کر تے ہیں جبکہ دوسرے جانب انہیں سیاسی چال کے زریعے رام کر لیتے ہیں۔لفظی معانی کے اعتبار سے مقرر اور اس کے مقاصد کو اس کی آواز کے اتار چڑھاو، الفاظ کے بار بار دہرانے، اور الفاظ کے انتخاب سے باآسانی پہچانا جاسکتا ہے۔ سیاستدان سامعین کی توجہ معاملے کی نزاکت سے ہٹانے کیلیے مختلف الفاظ کا استعمال کر تے ہیں۔ الفاظ کے اس جال کے زریعے وہ عوامی جذبات کو قابو کر کے ان کے احساسات کا استعمال کرتے ہیں۔ لفظی استعمال کی مہارت کے زریعے وہ عوام کو سطحی معانی تک محدود رکھ کر موضوع کو سمیٹ لیتے ہیں یا اپنے مقصد کی طرف لے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سیاستدان موضوع بدلنے میں بھی ماہر ہوتے وہ فورا ایک موضوع کو دوسرے سے ملا کر موضوع تبدیل کر لیتے۔ جملوں میں بلواسطہ اور بلاواسطہ کے ساتھ فعال اور غیر فعال جملوں کے زریعے عوام کو الفاظ تک محدودرکھ کر اپنے مقاصد کو پوشید ہ رکھتے ہوئے بنیادی نقطہ سے دو لے جاتے ہیں۔ سیاسی لوگ درجہ بندی کا حربہ استعمال کرتے ہوئے مختلف طبقات میں فاصلے بڑھا دیتے ہیں۔ وضعیت، امدادی افعال، اسم صفت او ر معاون افعال کے زریعے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکے میں کامیاب ہوجاتے۔ مقرر کی اشاراتی زبان، چہرے کے تاثرات، جسمانی حرکات، تقریر میں تسلسل یا رکاوٹ سے بھی اس کی امیدوں اور توقعات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔دوران گفتگو یا تقریر الفاظ کے تسلسل کا ٹوٹنا، غیر ضروری وقفوں کا استعمال، الفاظ، حرکات اور تاثرات میں عدم مماثلت عوامی اور ذاتی ترجیحات کو واضع کر دیتے ہیں۔ بدقستمی سے عام آدمی سیاسی لسانیات کی ان بھول بھلیوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان کے اندر ہی گھومتا رہتا ہے۔ سیاسی لسانیات لوگوں کے رویوں، سوچنے کے انداز اور فکر و نظر پر اثر انداز ہوتی ہے۔ غریبوں کو سیاسی لسانیات کے ٹوکے سے سیاست کی قربان گاہ پر قربان کر دیا جا تا ہے۔جب سیاسی لسانیات کو عوامی پس منظر میں ڈھالا جاتا ہے تو یہ سیاستدانوں اور عوام دونوں پر گہر اثرات مرتب کرتی ہے۔روائیتی سیاسی لسانیات سننے اور بولنے میں سہانی ہے مگر یہ اپنی اصل صورت میں بہت مہلک اور نقصان دہ ہے۔یہ ایک سراب کی طرح ہے۔ یہی وہ ہتھیار ہے جس کے زریعے سیاستدان جھوٹے وعدوں کو سچا ثابت کرواتے اور ایک بار پھر جھوٹے وعدے کر کے ووٹ لے جاتے اور ہم بس منہ دیکھتے رہ جاتے۔