عالمی ادب میں خواتین کی شمولیت ہمیشہ اپنے انفرادی اور اجتماعی شعور کے حوالے سے لائقِ توجہ رہی ہے،البتہ انیسویں اور بیسویں صدی کے بدلتے ادبی تناظرات نے اردو فکشن کو تانیثی اور نسائی ادب جیسی ثروت مند اصطلاحات کے ذریعے زیادہ بہتر انداز سے روشناس کیا۔افسانے کی صنف میں عالمی سطح پر بھی صنف ِنازک نے اہم اور وقیع اضافے کیے،بلکہ جدید عہد میں خواتین فکشن نگاروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ بھی دیکھنے میں آیاہے۔خواتین افسانہ نگاروں کے ہاں فرد کی اجنبیت اور بیگانی نے جو منفرد حسیت متعارف کرائی اس بنیاد پر فکشن کی اس نئی جہت کو نسائی فکشن کا نام دیا گیا جو اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ جمہور کے نزدیک یہ تخلیقی انفرادیت اپنا الگ مقام بنا چکی ہے۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ادب کو صنفی خانوں میں تقسیم کیا جائے بلکہ اس کی تاریخی، سماجی، تہذیبی اور نفسیاتی اہمیت کو زیادہ بہتر انداز سے تسلیم اور تصویر کرنا ہے۔آج دنیائے ادب میں نسائی اور تانیثی ڈسکورس کو بڑی دل چسپی اور کامل علمی سنجیدگی کے ساتھ سمجھا جا رہا ہے اردو زبان و ادب میں بھی اس عمرانی اور ادبی ڈسپلن نے انسانی زندگی کے بنیادی رویوں کی جانچ پرکھ نیز تفہیم و تشریح میں مرکزی اہمیت حاصل کر لی۔
اس کتاب میں اردو زبان و ادب کی سات معروف و مقبول افسانہ نگاروں کے پینتیس افسانوں کا بہترین اور زندگی آمیز انتخاب شامل ہے جو جدید اردو فکشن میں نئی بصیرت اور فنی و فکری باریکیوں کا بلیغ اشاریہ مرتب کرتا ہے۔زندگی کی گہری معنویت اور تلخ حقائق کے درد انگیز مرقعے بھی ان افسانوں میں عصری مزاج کے المیے رقم کرتے نظر آتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک جمالیاتی تجربے(Aesthetic Experience)کی لہر بھی موجزن ہے جو افسانے کی انکشافی معنویت کو ابلاغی قوت سے سرشار کرتی ہے۔رمزیت اور زندگی سے بھرپور ان جمال پاروں میں تخلیقی ہئیتی تجربات کا تشکیلاتی عمل انسان کی نفسیاتی الجھنوں اور کیفیات کی قصہ در قصہ داستان بھی سناتا ہے۔
مجموعی اعتبار سے یہ افسانے جدید حسیت (Modern Sensibility) کے ترجمان ہیں جن میں عصری آگہی اور نئے افسانے میں در آنے والے اچھوتے سماجی موضوعات کا عکس شامل ہے۔ افسانوں کی پہلی قرات کے دوران قاری کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ یہاں نئی تکنیک کے ساتھ تازہ اسالیب کے تجربات کا ذائقہ موجود ہے جو افسانے کی روایتی یا کلاسیکی ہئیت کو نئی راہیں دکھاتا ہے۔ان افسانوں میں بظاہر حقیقت نگاری کا رجحان دکھائی دیتا ہے لیکن کرداروں کی نفسیاتی صورتِ حال، اظہاری پیٹرن کے تیکھے انداز اور داخلی منظر نامے کی ہئیتی تعمیر نے افسانوی ساخت کو مابعد جدید صورتِ حال کے نزدیک تر کر دیا ہے۔اب ان افسانوں میں موجود حقیقت اصل میں غائب حقیقت (Hyperreality) کا درجہ اختیار کر جاتی ہے جہاں دنیا کے حقائق اور افسانوں میں پیش ہونے والے متفرق حقائق ایک دوسرے میں گم ہو کر ایک نئے وجود میں سامنے آتے ہیں۔حقیقت کی یہ قلبِ ماہئیت زندگی کو زیادہ بہتر اور گہری بصیرت عطا کرتی ہے۔
اس مجموعے کا ایک خاص پہلو نسائی فکر و احساس کا ادبی شعور ہے جو سماجی تشخص کی نئی تشکیلات کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتا ہے۔اس ضمن میں جہاں صنفی حرمت اور رواجی تہذیب سے پیدا شدہ مسائل و عوارض کا ادراک ہوتا ہے وہاں نئے نفسیاتی تجزیے،سماجی بصیرت،نرم و لطیف جذبات اور نازک احساسات کی ترجمانی کا حق بھی بخوبی ادا ہو رہاہے۔سماج کی پیچیدگی نے گھریلو رشتوں اور نسائی وژن کو کس انداز سے متاثر کیا ان سب کا احوال بھی افسانوی جمالیات کی حدود میں رہ کر بیان کر دیا گیا ہے۔خوش آئند بات تو یہ ہے کہ ان افسانوں میں تانیثیت کے نام پر کسی سیاسی یا سماجی نظریے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا اس کے برعکس عورت اور مرد کے باہمی رشتوں کو خالصتاً نسائی ڈسکورس کے تحت سلجھانے کا ادبی انداز سامنے آتا ہے۔ البتہ کہیں کسی افسانے میں مصنوعی صنفی امتیاز کو زائل کرنے اور مثبت ثقافتی قدروں کو نمایاں کرنے کا لاشعوری احساس ملتا ہے لیکن اس کا مقصد سماجی توازن کو مستحکم کرنا ہے نہ کہ کسی نئی سماجی تھیوری کا پرچار کرنا،اگر اس سارے عمل کو سماجی اور ثقافتی تکثیریت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو اس مجموعے کا ہر افسانہ کلچرل التباسات کو دور کر دیتاہے۔یہ نسائی بیانیہ اصل میں صنفی جبریت کو توڑنے کی ایک لطیف کوشش ہے۔ ان افسانوں کی فضا کچھ ایسی دل پذیر اور کیف آفریں ہے جن میں حیاتیاتی رشتوں کی ماہئیت اور معنویت کو از سر نو تشکیلی مراحل سے گزارا گیا ہے یہی عمل موجودہ افسانوں کو Metafiction کے مقام پر فائز کرتا جہاں سماجی حالات میں موجود امکانات کی تعمیر توجہ طلب ہے۔
یہ خاص مجموعہ جہاں فکریاتی اکائیوں کی تجسیم کرتا ہے وہاں لسانی اور ادبی اسالیب کا جامع منظر نامہ بھی ہے۔ان افسانوں میں سادہ اور پیچیدہ بیانیے کہانی کی مابعد الطبعیات کو اپنے کامل ادبی سبھاو اور رچاو کے ساتھ آگے بڑھاتے ہیں۔پلاٹ،کردار، ماحول،لفظ و خیال،فارم،صورتِ واقعہ،منطقی ربط و تسلسل،افسانویت،وحدتِ فکر و تاثر،فنی لوازمات،ایجاز و اختصار،تکنیک،فضا بندی،کرافٹ،علامتی تکنیک،مکالماتی اُسلوب،جمال و اختصار،دل چسپی،ابہام اور تخیل کی رنگ آمیزی نے ہر افسانے کی پڑھت (Readibility)کو بڑھا دیا ہے۔ان تمام معنوی اور صوری صفات کی بدولت یہ شاہکار مجموعہ معاصر اردو افسانے کا ترجمان بن گیا ہے۔
ان افسانوں میں ہمیں تکنیک اور بیانیہ کے نئے نئے انداز ملتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ ہر افسانہ نگار نے اپنے مزاج،ادبی تربیت اور اختراعی میلان کے پیشِ نظر جدت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔کسی ایک مجموعے میں تکنیک کا اس قدر تنوع بجائے خود عملِ خیر ہے۔یہ بات خاطر نشان رہے کہ افسانوی متن کے تشکیلی عناصر جب کسی نئی تکنیکی ہئیت میں جلوہ گر ہوں تو مکالمے کی معنی خیزی میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے اور کہانی کی تفہیمیت اور مظہریت پہلو بہ پہلو ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی قاری کے دل پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔یہ تمام کیفیات قاری کو نئے جہانوں کا سراغ دیتی ہیں۔
ان افسانوں کے موضوعات اپنی زمین کے ساتھ مکمل طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ساری کتاب پڑھ ڈالیے آپ کو کہیں بھی نام نہاد آفاقیت کا عنصر نہیں ملے گا۔افسانوں میں پیش کیے جانے والے تمام کردار ہمارے جانے پہچانے ہیں۔ یہ سب ہمیں اپنے آس پاس چلتے پھرتے باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔سماجی حقائق اور کرداروں کے نفسیاتی مطالعات نے افسانوں کی ادبی قدروقیمت میں اضافہ کیا ہے۔کسی خاص نظریاتی تحریک اور رجحان سے وابستہ ہوئے بغیر سماج کو فکشن میں سامنے لانا خاصا مشکل کام ہے کیوں کہ افسانہ نگار کے پاس ماسوائے ادبی مہارت کے کوئی دوسرا معاون و مدد گار حربہ باقی نہیں ہوتا۔اس مقام پر تخلیق کار کا اصل امتحان شروع ہوتا بچتا۔جو تخلیق کار اس وادئ حیرت سے بخیریت گزر گیا وہ ادب میں بقائے دوام کی سند اور مسند حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔خوشی کی بات ہے کہ اس افسانے میں شامل تمام تخلیق کاروں نے یہ مراحل سلیقے سے طے کیے ہیں۔مجھے یہ بات کہتے ہوئے فخر کا احساس ہو رہا ہے کہ یہ مجموعہ نہ صرف نسائی ادب کے حوالے سے توسیع و تجدید کی ضمانت ہے بلکہ اردو افسانے کی طویل روایت میں رجحان ساز تصنیف کا درجہ بھی حاصل کرے گا۔
اس امر میں قطعاً کوئی مغالطہ نہیں کہ یہاں جو افسانے آپ پڑھیں گے ان میں آپ کو روحِ عصر (Episteme) کی جھلکیاں دکھائی دیں گی جس میں وجودی تفکر سے پیدا ہونے والے اَن گنت مسائل اور انسان کی امکانی اور اختیاری صلاحیتوں کا تذکرہ شامل ہے۔یہ مجموعہ دیکھ کر افسانے کی قوت اور اس کے مخفی جہان از سرِ نو اپنے بھید کھولتے چلے جاتے ہیں۔ہمارے مشاہدات،توہمات،ثقافتی انتشار اور پیچیدہ سماجی نظام جس نفسیاتی خلا کو جنم دیتے ہیں یہ افسانے اس خلا کو حددرجہ سلیقے سے پُر کرتے ہیں۔مجھے اس مجموعے کا ہر افسانہ زندگی کی گرہ کشائی کرتا ہوا نظر آیا ہے،ایسی زندگی جس میں المیہ اور طربیہ کے ساتھ سماج کے جبری اور قدری پیمانوں کا نقش بھی شامل ہے۔افسانے پڑھنے کے دوران فانی بدایونی کا شعر بھی ذہن میں گردش کرتا رہا:
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ یہ افسانے بنیادی طور پر نسائی بیانیہ کے آہنگ پر مشتمل ہیں۔جن میں سوچ اور فکر کی نئی راہیں ہموار ہوتی نظر آتی ہیں۔ان افسانوں میں جس نئے کلچر کا تصور سامنے آیا اس نے یہ حقیقت بھی واضح کر دی کہ انسانی رویوں کی چھوٹی چھوٹی اکائیاں کس طرح سماج میں بڑے تغیرات کا سبب بنتی ہیں۔اس مجموعے کا ہر افسانہ ہماری خصوصی توجہ چاہتا ہے کیوں کہ وہ کثیرالجہات معنویت کا حامل ہے۔اگرچہ مابعد جدید افسانہ اکہری سچائیوں کی پیش کش کو بھی کافی سمجھتا ہے لیکن یہاں ایسی کوئی صورتِ حال نظر نہیں آتی اس کے برعکس ان افسانوں میں معنی کے کثیر جہتی دائرے دور تک پھیلتے نظر آتے ہیں۔ان افسانوں کا ایک اور لائق توجہ پہلو یہ ہے کہ سماج اور سماج سے نسبت رکھنے والے مسائل کو کسی مردانہ ڈکٹیشن سے ہٹ کر خاص نسوانی پہلووں سے جاننے کی کوشش ملتی ہے تاہم اس کا مقصد مرد کی بالا دستی یا اس کی ردتشکیل کرنا نہیں ہے بلکہ معاشرے کو ایک فیمینسٹ نقطہ نظر فراہم کرنا ہے۔اس نوع کا نسائی فریم ورک ادب میں رجائیت کو فروغ دیتا ہے اور تخلیقات میں جدید تر حسیت اور رجحانات کو عام کرتا ہے۔اردو کے سنجیدہ قارئین جب اس مجموعے کا بغور مطالعہ کریں گے تو انھیں احساس ہو گا کہ یہ ایک غیر معمولی مجموعہ ہے جس میں اکیسویں صدی کے دیدہ اور ناشنیدہ کرداروں کی ایک کہکشاں آباد ہے اور ہر افسانہ نئے لفظیاتی پیکر اور فکشن کے وسیع تر امکانات کی تشکیل کرتا ہے۔یہ تمام افسانے کسی تحریک،منشور،فکر،رجحان اور ادبی تھیوری کے اثرات سے یکسر پاک ہیں۔ان افسانوں میں ایک طرح کا تجرباتی انحراف بھی ہے اور ہر افسانہ نگار کی فنی انفرادیت کا جامع عکس بھی۔ہم عصر افسانہ جن فنی وسائل اور روایتی تکنیکی امور پر انحصار کرتا ہے اس کے اثرات اس مجموعے میں نظر نہیں آتے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہر افسانہ نگار نے اپنی جس منزل کا تعین کیا تھا اس کا راستہ بھی خود تلاش کیا ہے۔ اس اجتہادی روش نے افسانوں کی تازہ کاری اور تکنیکی تنوع کو مزید مستحکم بنایا یے۔مجھے یہ بات کہتے ہوئے بھی خوشی ہو رہی ہے کہ ان خواتین افسانہ نگاروں کے ہاں تکنیک اور بیانیہ کے ایسے نئے زاویے ملتے ہیں جن میں علامتی اور تجریدی عناصر کا اجتماع حد درجہ سلیقے سے سامنے آیا اور روایتی طرزِ بیان سے ہر ممکن اجتناب برتا گیا ہے۔ٹھوس ارضی حقائق اور علامتی و استعاراتی اسلوب نے سماجی حسیت اور نئے انسان کے ذہنی خلفشار کو بھی موضوع بنایا ہے۔عصری سچائی اور ماجرا گوئی میں کہانی پن کو قائم رکھنا اور اس کے پیچیدہ لوازم کے اظہاریوں کو آرٹ بنا کر فکشن میں محفوظ کرنا خاصا مشکل اور کٹھن کام ہے لیکن اس مجموعے میں شامل ہر افسانہ نگار نے تمام مشکل مقامات اپنی فنی قوت،کرافٹ اور ریاضت کی بدولت آسان بنا لیئے ہیں۔کسی ایک مجموعے میں ہئیتی تجربات اور جدید فکشنی رجحانات و عوامل کا جمع ہو جانا خوش گوار حیرت کا باعث ہوتا ہے،ان تمام نکات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ مجموعہ بہت جلد اپنی منفرد شناخت قائم کرے گا۔