جعلی ہیرو، جعلی نعرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری نسل یعنی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پیدا ہونے والے لوگوں نے ستر کے عشرے کی کشمکش تو عمر کم ہونے کی وجہ سے نہیں دیکھی، مگر نوے کے عشرے کی سیاسی پولرائزیشن کا باقاعدہ حصہ بنے۔ ہمارے جیسے لوگ جن کا میلان رائٹ ونگ کی طرف تھا، پیپلزپارٹی اور لیفٹ کی سیاست میں ہمارے لئے کشش نہیں تھی،ہم نے دائیں بازو کے معروف جریدوں تکبیر، زندگی، اردو ڈائجسٹ وغیرہ سے خاصا استفادہ کیا۔ بھٹو صاحب کا دور دیکھا تھا نہ ہی اس دور کی خامیوں کا عملی مشاہدہ ہوپایا۔ پیپلزپارٹی کے خلاف ہماری تمام تر بیزاری اور تعصبات دائیں بازو کے ممتاز لکھاریوں شامی صاحب، الطاف قریشی صاحب، محمد صلاح الدین، عبدالقادر حسن ،ہارون الرشید وغیرہ کی تحریروں سے آئی۔یہ آئی جے آئی اور پوسٹ آئی جے آئی کا زمانہ تھا۔میاں نواز شریف اینٹی پیپلزپارٹی ووٹ بینک کے قائد بن چکے تھے۔ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں ہم جیسوں کی تمام تر ہمدردی،نیک خواہشات اور تمنائیں میاں صاحب اور ان کی پارٹی کے پلڑے میں شامل تھیں۔ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے، جن کی جماعت اسلامی سے ہمدردی تھی، مگر پیپلزپارٹی، اینٹی پیپلزپارٹی کشمکش کی وجہ سے وہ جماعت چھوڑ کر مسلم لیگ کے ووٹر بنے اور پھر واپس نہیں لوٹے۔ کئی برسوں تک ایسا ہی معاملہ رہا۔ حتیٰ کہ شریف خاندان کے تضادات، جھوٹ اور بے عملیاں کھل کر سامنے آتی گئیں۔ سپریم کورٹ پر حملے نے ہمیں دھچکا پہنچایا، اگرچہ کسی حد تک اس کی تاویل کی گئی اور جسٹس سجاد علی شاہ کو ولن بنا کر کمزور جواز پیش کیا گیا، مگر بات بنی نہیں۔مشرف دور میں راتوں رات اچانک جلاوطنی نے بھی ہیروشپ کے روایتی نظریے پر ضرب لگائی۔ میں ان دنوں ایک اخبار کی نائٹ شفٹ میں تھا۔ رات کو حیرت سے میاں صاحب کے طیارہ روانہ ہونے کی تصاویر دیکھیں ، اس وقت وجہ بیماری بتائی گئی۔ اگلے روز شاہ کے ساتھ سرخ تمتماتے چہرہ والے نواز شریف کو دیکھ کر شرمندگی ہوئی۔مشرف ہمیںزہر لگتا تھا، مگر میاں صاحب کے اچانک یوں چلے جانے نے بھی شدید مایوس کیا۔برسوں بعد میں اس وقت باقاعدہ صدمہ پہنچا جب عربی شہزادے مقرن نے نواز شریف کا سعودی حکومت سے کیا گیا معاہدہ اسلام آباد میں اخبارنویسوں کے سامنے پیش کیا۔ اس سے پہلے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح نواز شریف کے اس بیان پر یقین کر چکے تھے کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور مشرف نے انہیں زبردستی جلاوطن کر دیا۔ رہی سہی کسر اس وقت ختم ہوگئی جب شہزادہ مقرن کے اس بیان کو مسلم لیگ نے جھٹلایا نہیں بلکہ ایک کمزور دلیل دی کہ معاہدہ تو ہوا تھا، مگر صرف پانچ سال کے لئے۔ یہ بات بھی بعد میں جھوٹ نکلی، جب میاں نواز شریف پاکستان آنے کے باوجود الیکشن لڑنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔دس سال پورے ہوجانے کے بعد ہی وہ عملی سیاست میں متحرک ہوئے۔
کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ شریف خاندا ن کے نعرے، وعدے اورکہہ مکرنیاں بہت پہلے آشکار ہوچکی ہیں۔ اس لئے اب ان کے نعروں ، وعدوں اورخطابت میں کسی قسم کی کشش محسوس نہیں ہوتی۔صاف پتہ چل جاتا ہے کہ پھر سے عوام کو بے وقوف بنانے کی تیاری کی جارہی ہے۔اخبارنویس کے طور پر بہت سے ایسے واقعات جانتے ہیں، جنہیں بیان کرنا مناسب نہیں۔اس پس منظر میں میاں نواز شریف جب یہ کہیں کہ ہمیں ملک کو ترقی دینے کی سزا دی گئی یا مریم نواز شریف جلسے میں یہ فرمائیں کہ جھوٹ بولنے والے پر خدا کی لعنت ، تو ایسی باتوں پر ہنسی آ جاتی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس ملک میں کرپشن کو باقاعدہ فن کی حد تک کس نے پہنچایا؟ملک کاسسٹم کس نے ہائی جیک کیا؟ اخبارنویسوں میں باقاعدہ لفافے کس نے بانٹنے شروع کئے اور کون ہے جس نے فلاں فلاں سینئر صحافی یا کالم نگار کو کتنے پلاٹ دئیے ؟وہ کون ہے جس نے ججوں کی باقاعدہ بولیاں لگائیں؟ بے نظیر بھٹو کو سزا دلوانے کے لئے ججوں کوکئے گئے فون کی ریکارڈنگ توہر ایک سن چکا ہے۔پوری تفصیل علم میں ہے کہ کس ہائی پروفائل کیس میں مائی لارڈ کو بریف کیس پہنچایا گیا اور وہ موصوف رات بھر نوٹ گنتے رہے ، صبح شکوہ کیا کہ اتنے نوٹ کم ہیں۔ہر کوئی جانتا ہے کہ کس نے سپریم کورٹ پر باقاعدہ حملہ کرایا؟ کس نے صحافیوں کی فہرست مالک کو پکڑائی کہ انہیں نکال باہر کیا جائے، نہ ماننے پر ایسا گھیرا تنگ کیا کہ سولہ صفحہ کا اخبار چار صفحے تک آ گیا۔ ن لیگ کے ایک انتہائی قریبی اخبارنویس کا سنایا گیا یہ قصہ نہیں بھولتا کہ فلاں فلاں صاحب سکیل گیارہ میں اسسٹنٹ فوڈ انسپکٹر بننے آئے تھے، مگر شہباز شریف نے میرٹ پر پورا اترنے پر ملازمت نہ دی ،نواز شریف صاحب کو اطلاع ملی تو اپنے ”خاندان“ کے بچے ہونے کے ناتے انہیں ایم پی اے بنا دیا۔فیصلہ نہ کر پایا کہ چھوٹے بھائی کی میرٹ پالیسی پر خوش ہوا جائے یا بڑے بھائی کی دریادلی پر رویا جائے۔ سوال یہی ذہن میں آتا ہے کہ اپنے ادارے کے لئے کلرک رکھنا ہو تو سو چیزیں چیک کی جاتی ہیں،ایم پی اے بنانے کے لئے کچھ سوچا بھی نہیں۔ جانتے ہیں کہ کارکن بھیڑ بکریاں ہیں اور وہ لیڈر کو دیوتا سمجھتے ہیں، کبھی سوال ہی نہیں اٹھایں گے۔
سینئر صحافیوں کی ایک محفل میں کسی نے یہ اعتراف کیا کہ ہم نے لاہور کو بدلتے دیکھا ہے ۔ ایک زمانے میں یہ پیپلزپارٹی کا گڑھ تھا۔لاہور نواز شریف نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ تبدیل کیا۔ ہزاروں لوگوں میں ملازمتیں بانٹی گئیں۔ ایک خاص برادری کو بھرپورانداز میں نوازا گیا۔ گوالمنڈی جیسے علاقے شریف خاندان کا گڑھ اس لئے کہلائے کہ وہاں ہر دوسرے گھر کو ملازمتیں دی گئیں۔میڈیا پر دل کھول کر نوازشات کی گئیں۔ صحافیوں کی ایک پوری فصل کاشت ہوئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ اخبارنویسوں کی دلی ہمدردی اور تعلق اپنے ادارے کے بجائے جاتی عمرہ سے استوار ہوئی۔ شریف خاندان کا مقدمہ لڑنے کےلئے وہ اپنے اداروں میں بیٹھے رہے اور جلاوطنی میں بھی حق نمک ادا ہوا۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف نے سسٹم ہائی جیک کر لیا تو مراد یہی ہوتی ہے کہ عدلیہ، انتظامیہ، میڈیا، وکلا، سیاسی جماعتوں میں کس طرح توڑ پھوڑ کر کے ، اپنے بندے شامل کرا کرنیٹ ورک بنایا گیا۔مخالفین کوکس طرح ذلیل کرایا گیا۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں وزیراعظم کے دو فقرے مشہور ہوئے تھے، ایدھے نال گل کرو(اس کے ساتھ بات کرو یعنی معاملہ طے کرو) اوراینھوں کسو(اسے ٹھیک کرویعنی کھنچائی کرو)۔ان کے وزیراطلاعات بھی اپنے فقرے کڑاکے کڈ دیاں گے (سب کس بل نکال دیں گے)سے مشہور ہوئے تھے۔ اب تو وہ خیر سے دوبارہ اپنی پارٹی کی طرف لوٹ چکے ہیں۔ میاں نواز شریف کی تیسری مدت میں عمران خان نے ان کا ناطقہ بند کئے رکھا، ورنہ ممکن ہے پرسکون حالات میں وہ اپنے مخالفوں کو ٹف ٹائم دینے کا سوچتے۔
جلاوطنی کے بعد شریف خاندان کی سیاست کا ایک نیا فیز شروع ہوا تھا۔ میاں شہباز شریف اس بار بری طرح ایکسپوز ہوئے ۔ وہ 2008ءسے 2013ءتک پانچ سال وزیراعلیٰ رہے تو ان کے بہت سے حامی بھی بری طرح مایوس ہوئے۔عذر یہ پیش کیا گیاکہ مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، اس لئے صوبائی حکومت اچھے طریقے سے چل نہیں رہی۔ مئی تیرہ کے بعد مرکز میں بھی ن لیگ آ گئی، تب اندازہ ہوا کہ بات مرکزیا صوبے کی نہیں بلکہ پرانی کہانی اب دوبارہ بیچنا ممکن نہیں۔ میڈیا اس قدر تیز اور فعال ہوگیا، سوشل میڈیا پر کچھ چھپانا ممکن ہی نہیں رہا، ایسے میں شخصیت پر چڑھائے مصنوعی رنگ اڑ جاتے ہیں۔اب جو اٹھارہ بیس وزارتیں اپنے ہاتھ میں رکھ کر خود کو سپرمین بنانے کی کوشش کرے، وہ ایکسپوز ہوجائے گا۔ لانگ بوٹ پہن کر بارش کے پانی میں اترنے، سر پر ماﺅ ٹوپی پہننے یا پرانی عامیانہ ویسٹرن فلموں کی طرح ہیٹ سر پر رکھ کر الٹے سیدھے پراجیکٹ کی بریف لینے سے آدمی لیڈر نہیں بن جاتا۔ لیڈر کے لئے ویژن درکار ہوتا ہے، مگر اس سے بھی زیادہ دیانت داری کی ضرورت ہے۔
پیگی نونن ایک مشہور امریکی مصنفہ اور صحافی ہے۔ اس نے صدر ریگن پر کتاب لکھی تو اس میں ایک دلچسپ تھیسس پیش کیاکہ لیڈر کے لئے چالاک یا ہوشیار ہونا ضروری نہیں، دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک چالاک موجود ہے، آپ اسے کسی عہدے پر فائز کرسکتے ہیں۔ لیڈر کے لئے تکنیکی ماہر یا کسی پروفیشنل صلاحیت کا حامل ہونا بھی لازمی نہیں، ہر ملک میں طرح طرح کے بہترین تکنیکی ماہر اور اعلیٰ ترین پروفیشنل موجود ہیں، ان میں سے کسی کو بوقت ضرورت لیا جا سکتا ہے۔ لیڈر کے لئے دیانت داری البتہ لازمی چیز ہے۔ دیانت ، سچائی اور اپنے عوام کی تقدیر بدلنے کا جذبہ…. یہ وہ چیزیں ہیں جو ایوان اقتدار میں نہیں ملتیں۔ یہ بازار سے خریدی بھی نہیں جا سکتیں۔ یہ لیڈر اپنے ساتھ ایوان اقتدار میں لاتا ہے اور انہی کی بنیاد پر کرشمہ کر دکھاتا ہے۔
افسوس کہ شریف برادران میں چالاکی، ہوشیاری، جوڑ توڑ، زمانہ سازی سب کچھ موجود ہے، نہیں تو دیانت، سچائی اور عوام کی تقدیر بدلنے کا بے لوث جذبہ۔ افسوس کہ یہ چیزیں خریدی نہیں جا سکتیں۔ افسوس کہ جنہیں ہم مسیحا سمجھتے رہے، وہ جعلی نعروں والے جعلی لیڈرنکلے۔ وہ رہنما نہیں بوجھ ثابت ہوئے، جس سے نجات پائے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔