ہم غلط فیصلہ افورڈ نہیں کر سکتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض لمحے تاریخ ساز ہوتے ہیں، وہ تاریخ بنا بھی دیتے ہیں اور مسخ کرنے کی قوت بھی ان میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ ان لمحات کو اگر ضائع کر دیا جائے، غلط فیصلہ سرزد ہوجائے تو پھر فیصلہ کرنے کی قوت بھی ہاتھ میں نہیں رہتی۔ قوموںکی زندگی ، مضبوطی، استحکام ، سکون، سکھ ،چین سب کچھ ان فیصلوں پر منحصر ہوتا ہے۔ درست سمت میں قدم اٹھا لیا گیا تو ملک بچ جاتا ہے۔ اگر غلط سمت میں چل پڑے تو پھر تباہی، خانہ جنگی، ہر طرف بہتا لہو مقدر بن جاتا ہے۔
پچھلے سات برسوں میں سب سے دل خوش کن نعرہ اورپرجوش ترین لمحات عرب سپرنگ کے تھے۔فروری 2011ءکے دوران مڈل ایسٹ میںآمریت اور مقامی حکمران آمروںکے خلاف شدید ترین مظاہرے ہوئے ۔ لاکھوں لوگوں نے سڑکوں پر آ کر ایسا پرزور، پرجوش احتجاج کیا کہ تیس ،چالیس برسوں سے وہاں حکومت کرتے آئے حکمران ایک ایک کر کے گرتے گئے ۔ تیونس کا زین العابدین علی مستعفی ہوگیا۔ مصر کے طاقتور ترین آمر حسنی مبارک کوتحریر اسکوائر میں عوامی مظاہروں کے بعد استعفا دینا پڑا۔ لبیا میں حالات زیادہ خراب ہوئے۔ عوامی احتجاج کے ساتھ مسلح بغاوت بھی ہوئی، قذافی کی حامی فوج شکست کھا گئی۔اکتوبر 2011 میں قذافی پکڑا گیا اور اسے ذلیل کر کے مارا گیا۔ادھر یمن کا علی عبداللہ الصالح اپنی طویل ترین حکمرانی چھوڑ نے پر مجبور ہوگیا۔ عراق میں عرب سپرنگ کا نتیجہ سول خانہ جنگی کی صورت میں نکلا اور داعش کا فتنہ سامنے آیا۔
ان مظاہروں کو مغربی میڈیا نے غیر معمولی کوریج دی اور مظاہرین کو ہیرو بنا کر پیش کیا۔ اس وقت بعض مسلم دانشوروں اور مفکرین نے غیر فطری تیزی سے پھیلتے اس عوامی احتجاج کو پراسرار قرار دیا۔ انہیں اس کے پیچھے کوئی گہری ، بڑی سازش اور عالمی قوتوں (خاص کر امریکہ، برطانیہ، فرانس)کا گرینڈ ڈیزائن کارفرما نظر آ رہا تھا۔عرب سپرنگ کو تنقیدی نظروں سے دیکھنے والوں کا خیال تھا کہ اتنی بڑی تبدیلی ایسے اچانک کس طرح آ سکتی ہے اور اتنے طاقتور حکمران دیمک کھائی لکڑی کی طرح گرتے جا رہے ہیں، مغرب اس کا خیرمقدم کر رہا ہے، یہ سب اور بلاسبب نہیں۔ یہ سوال اٹھانے والوں کو کانسپریسی تھیورسٹ (سازشی نظریہ پر یقین رکھنے والے)کہا گیااور انکے خدشات رد کر دئیے گئے ۔ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ مڈل ایسٹ کے ڈکٹیٹر طویل عرصے سے اپنے ممالک پر مسلط تھے۔ لوگ تبدیلی کی شدید خواہش رکھتے تھے۔جب موقعہ ملا تو بلا سوچے سمجھے حکومتیں بدل ڈالیں۔
عرب سپرنگ کے دوران پوری مسلم دنیا میں عمومی طور پر خوشی کا منظر تھا۔ پاکستان میں بھی لوگ خوش تھے کہ فیض کی” تخت الٹائے جائیں گے، تاج اچھالے جائیں گے “والی نظم کہیں تو سچ ثابت ہوئی۔ لبرلز خوش تھے کہ امریکی خوش ہیں، رائیٹ ونگ ا سلئے خوش تھا کہ اخوان المسلمون پر ظلم کرنے والا حسنی مبارک رخصت ہوگیا ۔کچھ عرصے کے بعد انتخابات کے ذریعے اخوان حکومت میں آگئے، ڈاکٹر مرسی منتخب صدر بن گئے۔ تیونس میں النحضہ کے راشد الغنوشی چھا گئے تھے۔ ادھر شام کی بشار حکومت کے خاتمے کا امکان نظر آیا تھا، جس نے اخوان پر مظالم ڈھائے تھے۔
عرب سپرنگ میں جہاں جہاں تبدیلی آئی، وہاںکچھ ہی عرصہ میں سخت گڑبڑ بھی شروع ہوگئی۔ لبیا میں قذافی کے مرنے کے بعد خانہ جنگی شروع ہوگئی اور ملک عملی طور پر کئی حصوں میں تقسیم ہوگیا، جہاں وارلارڈ مسلط ہوگئے، مقامی آبادی کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ مصر میںصرف سال ڈیڑھ بعد ہی ڈاکٹر مرسی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور حسنی مبارک کے زمانے کی طاقتور فوج نے ان کا تختہ الٹ دیا۔ نئے فوجی آمرالسیسی نے اخوان المسلمون کے خلاف بدترین کریک ڈاﺅن کیا، سینکڑوں اخوانی فوج کی گولیوں سے شہید ہوگئے، ہزاروں اس وقت جیلوں میں پڑے ہیں۔ آج کا مصرشدید ترین سیاسی تقسیم کا شکار ہے جبکہ معیشت برباد ہوگئی۔ عراق میں داعش نے طاقت پکڑی اور ملک عملی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہوگیا، کرد تقریباً آزاد ہوچکے جبکہ سنی عرب علاقہ داعش کے قبضے میں چلا گیا، جہاں خوفناک مظالم کئے گئے۔ یمن میں علی الصالح کی حکومت کے خاتمے کے بعد معاملات بگڑ گئے،ایران کے حامی حوثی باغی بہت طاقتور ہوگئے اورملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔
ان سب سے خوفناک منظر شام کا تھا۔ حافظ الاسد نے شام میں اقلیتی مسلک کی سفاک آمریت کی بنیاد ڈالی تھی۔ اسکے مرنے کے بعد اس کا بیٹا بشارالاسد شام کا صدر بن گیا تھا۔ شامی اپوزیشن نے عرب سپرنگ کی لہر کو شام میں بھی آزمانا چاہا۔ ملک بھر میں عوامی احتجاج اور مظاہرے شروع ہوئے۔حکومت نے سختی سے دبانا چاہا۔ مظاہرین پر گولی چلی ، لاشیں گریں اور پھر ہنگاموں میں شدت آ گئی۔ نوبت مسلح عوامی بغاوت تک چلی گئی۔ فری سیرین آرمی بن گئی، بشار آرمی کے خلاف جدوجہد شروع ہوگئی۔ سعودی عرب، ترکی وغیرہ نے اس کی حمایت کی، جوابی طور پر ایران، لبنانی حزب اللہ نے بشار الاسد کا ہاتھ تھام لیا۔ ہنگاموں سے سلسلہ باقاعدہ جھڑپوں اور پھر جنگ تک جا پہنچا۔امریکہ اور مغربی ممالک نے شامی باغیوں کا ساتھ دیا، جبکہ روس نے بشار حکومت کے ساتھ کاندھا جوڑ لیا، ادھر داعش نے شامی باغیوں کے ایک گروہ کے ساتھ اتحاد بنا لیا۔ ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور ایک ایک کر کے تمام شامی شہر کھنڈر بنتے گئے ۔ اس وقت یہ پوزیشن ہے کہ ایک ملین سے زیادہ شامی ہلاک ہوچکے ہیں، ایک کروڑ کے قریب جلاوطن یا بے گھر بتائے جا رہے ہیں، پورا شامی معاشرہ تہس نہس ہوچکا ہے۔ مستقبل کے کئی برسوںتک صورتحال میں بہتری ممکن نہیں لگتی۔ شام امریکہ اور روس کے مابین چھڑنے والی تیسری کولڈ وار کا مرکز بھی بن چکا ہے۔ گزشتہ روز امریکہ، برطانیہ نے میزائلوں سے شام پر حملہ کیا ہے۔ ان ممالک کا الزام ہے کہ بشار حکومت نے شہر دوما میں مخالفین پر کیمیاوی ہتھیار استعمال کئے،جن سے درجنوں لوگ ہلاک ہوئے۔ اس کا ”بدلہ“ لینے کے لئے انہوں نے حملہ کیا جبکہ روس کہہ چکا ہے کہ وہ ایسے ہر حملے کا جواب دے گا۔ اس کے ردعمل سے مزید خون بہے گا۔
اس وقت شام میں امن قائم ہونابظاہر جلد ممکن نظر نہیں آتا۔ چند سال پہلے شامی باغیوں نے جس خواب کی خاطر احتجاج شروع کیا تھا، وہ بری طرح بکھر چکا۔ جو سکھ وہ پانا چاہ رہے تھے، اس سے ہزار گنا زیادہ دکھ اور تباہی کا شکار ہوئے۔امکان ہے کہ آج انہیں وہ سب احتجاج حماقت لگ رہا ہو۔ اگر وقت کی فلم کوریوائنڈ کرنے کی صلاحیت شامی اپوزیشن کو دی جائے تو ممکن ہے وہ اس ختم نہ ہونے والی جنگ سے گریز
کریں۔ شائد یہی فیصلہ مصر میں اخوان المسلمون کا ہو۔ عرب سپرنگ، خاص کر لبیا اور شام جیسے ممالک میں جو خونی کھیل کھیلا گیا، اس سے ایک سبق ملتا ہے کہ کبھی سوچے سمجھے بغیر احتجاج کو پھیلانا نہیں چاہیے کہ ایک بار آگ سلگا لینے کے بعد اسے بجھانا پھر اپنے بس میں نہیں رہتا۔ عالمی فیکٹرز جب داخل ہوجائیں تو پھر سٹیج پر ان کی مرضی اور پسند کا کھیل ہی کھیلا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی کچھ عرصے سے اسی نوعیت کا احتجاج کرانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ جذباتی نعروں پر لوگوں کو اکٹھا کیا جا رہا ہے، قبائلی عوام میں آگ بھڑ کا کر انہیں مشتعل کیا گیا اور پھر پختون قوم کے نام پر احتجاجی تحریک چلانے کی تیاری ہے۔ اس کالم نگار کا شمار سازشی نظریات گھڑنے یا ان پر یقین کرنے والوں میں نہیں ہوتا۔ امکان موجود ہے کہ یہ تحریک مقامی ہو ، اس کے پیچھے کوئی غیر ملکی فیکٹر کارفرما نہ ہو۔ اس کے باوجود تین بنیادی نوعیت کی باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
یہ یاد رکھا جائے کہ نسل پرستی، لسانی یا قومیت کے نام پرجو تحریک چلائی جائے، وہ آخرکار ملک میں نفرت، کشیدگی اور تقسیم پیدا کرنے کا باعث بنے گی۔
جہاں کہیں پر آپریشن سے کچھ مسائل پیدا ہوئے، شکایت نے جنم لیا، وہاں پورا فوکس اپنے مطالبات اور مسائل کے حل پر کیا جائے۔مطالبات بھی قابل عمل اور حقیقی ہونے چاہئیں۔مقصد فورسز کو تنگ یا بدنام کرنا نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں مقامی آبادی کو ریلیف اور سکھ پہنچانا ہو۔
تحریک کی لیڈرشپ کو نہایت محتاط رہنا چاہیے۔ غیر ضروری ، متنازع بیانات نہ دئیے جائیں۔ جو کارکن یا رہنما دکھی، تلخ یا متاثرہ ہیں، ان کے لب ولہجے میں نفرت اور غصہ غالب ہے، انہیںفرنٹ پر نہ لایا جائے تاکہ وہ آگ نہ بھڑکاپائیں۔ پشاور جلسے میں یہ غلطی ہوئی۔یاد رکھیں قیادت کا کام آگ بجھانا ہے ، لگانا نہیں۔
سب سے اہم یہ کہ غیر ملکی حامیوں، نام نہاد ہمدردوں اور پراسرار ایجنڈا رکھنے والوں کو ہر قیمت پر دور رکھا جائے ۔ چاہے زبان یا قبیلہ ایک ہو، یہ سمجھ لیا جائے کہ پاکستان کے اپنے مفادات اور سٹیک ہیں، ہم نے انہیں سامنے رکھنا ہے، غیروں نے نہیں۔ یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ جوش اور جلدبازی میں نفرتیں پھیلانے سے تقسیم بڑھتی ہے اور خدانخواستہ اگر آپس میں لڑائی شروع ہوجائے ، تب اسے روکنا ممکن نہیں رہتا۔عراق، لبیا، یمن، شام تباہ ہوچکے، پاکستان اس خطے کا سب سے اہم اور مضبوط ملک ہے جہاں دہشت گردی پھیلانے کی سازشیں ناکام ہوچکیں۔ اب دشمن نئے زاویوں سے حملہ آور ہوگا۔ پاکستانیوں کو، خاص طور پر پختون ، بلوچ بھائیوں کو ہوشیار رہنا ہوگا۔ ہم کوئی غلط فیصلہ افورڈ نہیں کر سکتے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔