کیشوری کا گھر صدر بازار کے بائیں پہلو میں ایک بڑی گلی میں تھا۔ گھر پرانی طرز کا اور ہندوؤں کے روائیتی رہن سہن کا عکاس تھا۔ گھر میں ہر وقت ایک سیلن زدہ ماحول چھایا رہتا۔ صحن میں لگی اونچی نیچی اینٹیں ہر وقت نمدار رہتیں۔ وجہ شاید یہ تھی کہ اس گھر میں دھوپ برائے نام ہی آیا کرتی۔ گھر کے دو طرف بلند چوبارے ایستادہ تھے جبکہ ایک کونے میں پیپل کا بزرگ درخت ہر وقت ماضی کے سوچوں میں گم سم سر نیوڑھائے اونگھتا رہتا۔ نصف سے زائد صحن میں اس کی چھاؤں ددپہر کے وقت بھی شام کا سماں پیدا کیے رکھتی۔ جنوب مشرقی کونے میں ایک شہتوت کا درخت رہی سہی کثر پوری کر دیتا تھا۔ شہتوت کا یہ درخت دکھنے میں ٹھگنا ضرور تھا لیکن اپنے ننھے سے تنے کے اوپر سبز کچور پتوں کا پورا جنگل تانے رکھتا۔ اسی درخت کے نیچے بوسیدہ اور ٹوٹی پھوٹی سیڑھیاں چھت کی طرف جاتی دکھائی دیتیں۔ سیڑھیوں کے نیچے رسوئی تھی۔رسوئی کو سستی اور گیلی لکڑیوں کے دھنویں نے کالا کر رکھا تھا۔رسوئی کے اندر ایک کونے میں ایک پرانا بلب لٹکتا رہتا جس کی چمکدار وشنی دھنویں اور گردشِ زمانہ نے مٹیالی ٹمٹماہٹ میں تبدیل کر دی تھی۔ جنوب کی طرف دو بڑے بڑے کمرے تھے جن کو ایک مرکزی محرابی دروازے نے ملا رکھا تھا۔ کمروں کے ہر گوشے میں طاق بنے ہوئے تھے جن میں بجلی کی آمد سے پہلے دیے جلائے جاتے ہوں گے۔ پرانی لکڑی کے مظبوط دروازوں سے باہر قدم رکھتے تو ایک لمبا چوڑا برامدہ آپ کا استقبال کرتا۔ بلند ستون اور اونچے محراب برآمدے کی وسعت اور کشادگی میں اضافہ کر تے دکھائی دیتے۔ گھر کی تمام دیواریں رنگ سے بے نیاز تھیں۔لگتا تھا کہ کسی زمانے میں سفید چونے سے مزین کی گئی ہوں گی لیکن بعد میں شاید کبھی بھی اس کی ضرورت نہ پڑی۔
اس مکان نما گھر میں کیشوری کے ہمراہ اس کی بوڑھی والدہ اور ادھیڑ عمر تایا رہا کرتا تھا۔ کیشی کا زیادہ تر وقت چھت پر گزرتا ۔ بچپن میں بنایا گیا گڑیا گھر آج تک موجود تھا جو اس نے صحن کے جنگلے کی آڑمیں بنایا تھا۔ گڑیا گھر کی گڑیا کو جوان ہوئے بھی اب چند سال بیت چکے تھے لیکن وہ گھر ابھی تک موجود تھا ۔جب وہ میٹرک کی طالبہ تھی تو اسی چوبارے کے گلی کی طرف والے چھجے پر گرمیوں کی دوپہروں کو سلیم سے محبتوں کا آغاز ہوا۔ سلیم اس کے سامنے والے گھر کا مکیں تھا۔ لیکن اس کا بالائی کمرہ تھوڑا ایک طرف تھا۔ لیکن یہ فاصلہ ان کی محبتوں میں حائل نہ ہو سکا۔ کاسنی رنگ کا خوبصورت سوٹ سلیم نے کیشوری کو اسی ہوائی راستے سے ہی پھینکا تھا۔ رات کی رانی کا عطر بھی کیشی نے سلیم کی طرف اسی طرح ہی ارسال کیا تھا۔ نامہ بری کے لیئے کبوتروں کی ضرورت نہ پڑی کیونکہ محبت نامے کنکرمیں لپیٹ کر با آسانی ادھر سے اُدھر پھینکے جا سکتے تھے اور کنکریوں کی کمی نہ اِدھر تھی نہ اُدھر۔ کیشوری کو یاد تھا کہ سلیم نے جو پہلا رقعہ پھینکا تھاوہ ایک بڑی سی سرخ رنگ کی کیل میں لپیٹا ہوا تھا۔ کیشی نے کتنا ہی عرصہ وہ سرخ کیل اپنے پاس سنبھال کے رکھ چھوڑی تھی۔ بعد میں اس نے امی اور تایا کی غیر موجودگی میں سیڑھیوں کا پاس دیوار میں لگا دی تھی۔ معمولی سی کیل ہونے کے ناطے کسی اس کی موجودگی کو محسوس ہی نہ کیا۔ لیکن اس کی موجودگی کیشی کے لیئے بہت خوشی اور طمانیت کا باعث بنی رہی تھی۔
زمانہ گزرتا گیا۔ ہر طرف تبدیلیوں کی ہوا چل رہی تھی ۔ بازار کی رونقیں بڑھ چکی تھیں۔ دوکانوں کے نرخ اور کرائے بڑھے تو ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ بازار میں جو اکا دکا مکان زمانے کی خرد برد سے اب تک بچے ہوئے تھے گرا دیئے گئے اور ان کی جگہ دوکانیں اور مارکیٹیں بنا دی گئیں۔ دوکانوں کی منزلوں میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ بازار نہ صرف آگے پیچھے بڑھ رہا تھا بلکہ دائیں بائیں کی گلیاں بھی اب چھوٹی بڑی مارکیٹوں میں تبدیل ہوتی چلی جا رہی تھیں۔ کیشوری کی گلی کے نکر کے دو مکان گر ا کر ایک بڑی مارکیٹ کی شکل دھار چکے تھے۔ اس گلی کے غریب مکینوں کو اپنے دن پھرنے کی امید دکھائی دینے لگی ۔ جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والے دلالوں کے چکر لگنا شروع ہو گئے۔ پانچ سالوں میں آدھے سے زیادہ مکان گر کر لش پَش کرتی دوکانوں کی شکل دھار چکے تھے۔ اونچ نیچ پر مشتمل گلی پختہ ہو چکی تھی۔ رات کے وقت بھی سٹریٹ لائٹس گلی کو منور رکھتیں۔ دس سال گزرے تو تمام گلی ایک مارکیٹ بن چکی تھی۔ گلی کے وسط میں صرف ایک مکان اپنی شانِ دیرینہ کے ہمراہ بڑھاپے کی بُکل اوڑھے آخری سانس لے رہا تھا۔
سلیم کا مکان ایک پرائیویٹ بنک میں تبدیل ہو گیا تھا۔ سلیم بی اے کرنے کے بعد اپنی گلی، شہر اور غیر فطری محبت کو ہمیشہ کے لیئے الوداع کہہ کر ملک کے ایک بہت بڑے کر چشمِ تصورمیں سلیم کو اپنے سامنے دیکھنا شروع کر دیتی۔ وہ سلیم کا تحفہ میں دیا گیا ہلکے کاسنی رنگ کا سوٹ پہن کر اپنے کو سلیم کی دلہن تصور کرتے ہوئے شرمانے لگتی اور گلی میں دور دور نگاہیں دوڑاتی ہوئی اپنے محبوب کے سراپا کا نظارہ کرنے کی بیکار کوشش کرتی رہتی۔جب اس کی نظر سامنے بنک کی آراستہ پیراستہ عمارت پر پڑتی تو اس کو احساسِ تنہائی کاٹنے لگ جاتا۔ کیا اس پر شور گلی اور بھری دنیا میں اس کا اپنا کوئی بھی نہیں۔ کیا میں اس وجہ سے کبھی نہیں بیاہی جاؤں گی کہ میں ہندو ہوں اور اس شہر میں اور کوئی ہندو نہیں؟ کیا مجھے ہاتھ پیلے کرانے کے لیئے اپنے اس مکان، گلی ، شہر اور ملک کی قربانی دیتا پڑے گی؟ نہیں یہ گھاٹے کا سودا ہے۔ ایک چیز کے حصول کے لیئے اتنی چیزوں کی قربانی دل تو کیا دماغ بھی دینا گوارہ نہیں کرتا۔
تایا نے نئی آبادی ماڈل ٹاؤن میں دس مرلوں کامکان لے لیا۔ اب ان کا اسرار بڑھتے بڑھتے جھگڑوں کی سرحدوں کو چھونے لگا۔ چن دن تو ماں بیٹی نے مقابلہ کیا لیکن آخر کب تک۔ بازار میں رہائش اب ویسے بھی مشکل ہو چلی تھی۔ نہ کوئی ہمسایہ رہا تھا نہ سنگی ساتھی۔ رات کے وقت سوائے چوکیدار کی سیٹیوں کے کسی انسان کی آواز تک سنائی نہ دیتی تھی۔ پھر وہ دن آ گیا جب اس مختصر سے خاندان نے اپنا مختصر سا سامان لپیٹا اور نئے علاقے کے مکیں بن گئے۔ نیا مکان بہت آرام دہ تھا اور نفاست سے بنایا گیا تھا۔ اندھیرے اور سایوں کے برعکس یہاں پر روشنی کا راج تھا۔ اونچے نیچے فرش کی بجائے سنگِ مر مر کا انتہائی چکنا اور چمکدار فرش پہلے پہل ان کو بڑا عجیب لگا۔ کمروں میں ٹیوب لائٹس نصب تھیں۔ نئے مکان میں سبزے کا نام نشان تک نہ تھا۔ بھلا سنگِ مرمر اور پودوں کا کیا میل؟
چن ماہ بعد کیشوری اپنے تایا کے ساتھ اپنی نئی مارکیٹ دیکھنے گئی۔ جب پرانی گلی میں داخل ہوئی تو اس کو سمجھ ہی نہ آئی کہ ان کا مکان کہاں پر تھا۔ بنک کی عمارت سے اندازہ لگا کر سامنے دیکھا تو اس چھوٹی سی گلی میں انتہائی ماڈرن سٹائل میں بنائی گئی مارکیٹ کو دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ تایا کیشوری کو مارکیٹ کی سیر کرا رہا تھا۔ ہر ایک دوکان میں جا کر وہ اپنی بھتیجی کا تعارف دوکاندار سے کراتا۔ لیکن کیشوری سوچوں اور قیاس کی مدد سے ہر دوکان کی جگہ پرانی عمارت کو ڈھونڈنے کی کوشش میں تھی۔ پرانے کمروں کی جگہ پر ایک بہت بڑا ہال نما سپر سٹور ضروریاتِ زندگی سے لدا ہو ا گاہکوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔پیپل والی جگہ خالی تھی ۔ جہاں پیپل کا تنا ہوا کرتا تھا وہاں ایک بڑے سے سٹول پر ایک موٹا سے سیاہ نوکدار مونچھوں والا چوکیدار اپنی بندوق کے ہمراہ اونگھ رہا تھا۔ مارکیٹ کے کونے میں ایک چھوٹی سی زیورات کی دوکان تھی۔ انتہائی مختصر سی دوکان میں کوئی پچاس بلب روشن تھے۔ یہ دوکان رسوئی کی جگہ پر بنائی گئی تھی جہاں ایک مٹیالا سے بلب صدیوں سے اندھیرے اور روشنی میں تفریق کرنے کی سعی ءِ رائیگاں کرتا زیورات کے دوکان کے ساتھ پچھلی طرف جہاں کبھی اندھیری اور خاموش سیڑھیاں موجود تھیں پر واش روم بنا دیئے گئے تھے۔ چینی کے واش بیسن کے نیچے دیوار میں سرخ رنگ کا کیل واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ تایا تمام دوکانوں سے کرایہ وصول کر رہا تھا۔ جب وہ واپس ہوئے تو نوٹوں کی کثرت سے تایا کی جیب کا منہ بھر چکا تھا۔ کسی ناخوشگوار صورتِ حال سے بچنے کے لیئے تایا کیشوری کے ساتھ سامنے والے بنک میں چلا گیا تاکہ اپنی رقم کو اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرا سکے۔ بنک کی عمارت دن کے وقت بھی رات کی رانی کی خوشبو سے معطر تھی۔
رہا تھا۔ زیورات کے دوکان کے ساتھ پچھلی طرف جہاں کبھی اندھیری اور خاموش سیڑھیاں موجود تھیں پر واش روم بنا دیئے گئے تھے۔ چینی کے واش بیسن کے نیچے دیوار میں سرخ رنگ کا کیل واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ تایا تمام دوکانوں سے کرایہ وصول کر رہا تھا۔ جب وہ واپس ہوئے تو نوٹوں کی کثرت سے تایا کی جیب کا منہ بھر چکا تھا۔ کسی ناخوشگوار صورتِ حال سے بچنے کے لیئے تایا کیشوری کے ساتھ سامنے والے بنک میں چلا گیا تاکہ اپنی رقم کو اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرا سکے۔ بنک کی عمارت دن کے وقت بھی رات کی رانی کی خوشبو سے معطر تھی۔