اپریل کا مہینہ ہے۔ سردی کا اختتام۔ شمالی روس میں کچھ لوگوں کے سالانہ سفر کا آغاز ہے۔ یہ سائبیریا کے سرد بیابان میں کچھ ڈھونڈنے نکلے ہیں۔ ان جگہوں پر جہاں سورج مہینوں تک نہیں ڈوبے گا۔ جان کو خطرے میں ڈال کر کیا جانے والا یہ سفر صرف مہم جوئی کے لئے نہیں، یہ ان کا پیشہ ہے۔ ان کی گزربسر کا انحصار اس سفر کی کامیابی پر ہے۔ اس میں کامیابی کئی لوگوں کو مالامال کر چکی ہے۔ لیکن ان کو تلاش کس کی ہے؟ اس کے لئے پہلے کچھ تاریخ ہاتھی کی۔
اس وقت خشکی پر رہنے والے ممالیہ میں افریقی ہاتھی سب سے بڑا ہے جس کا وزن دس ٹن تک ہوتا ہے لیکن زمین کی تاریخ میں گزرے خشکی والے ممالیہ جانوروں میں سب سے بڑا اس افریقی ہاتھی کا قریبی رشتہ دار پالیلوکسوڈون ناماڈیکس تھا جس کا وزن بائیس ٹن تک ہوا کرتا تھا۔ اس کی معدومیت چوبیس ہزار سال قبل ہوئی۔
ہاتھی کی ارتقائی شاخ پروبوشیڈیا ہے۔ مصر کے الفیوم نخلستان سے اس کے آثار سب سے پہلے 1901 میں ملے۔ ساڑھے تین کروڑ سال پہلے زمین پر رہنے والا یہ پیلیو ماسٹاڈون تھا۔ (تصویر ساتھ منسلک)۔ اس سے آگے درجنوں انواع نکلیں۔ ان میں سے سب ناپید ہو گئیں۔ صرف افریقی اور ایشیائی ہاتھی باقی بچے ہیں۔ پروبوشیڈیا کی خاص بات ان کے دو لمبے دانت ہیں۔ ان میں سے اون والے میمتھ اور امریکی مستادون وہ دو انواع ہیں جن کو ناپید ہوئے زیادہ عرصے نہیں ہوا۔ ماستادون صرف دس ہزار سال قبل اور اون والے میمتھ پانچ ہزار سال قبل تک زمین پر موجود تھے۔
ان کی آخری معدومیت قطبِ شمالی کے قریب ہوئی۔ ان کی معدومیت بالکل نئی ہے اور سرد علاقے میں ہے۔ انسانی آبادیوں سے بہت دور ہونے کے سبب ان کی باقیات انتہائی اچھی حالت میں محفوظ ہیں اور ایک اندازے کے مطابق سائبیریا ایک کروڑ میمتھ کا قبرستان ہے۔
پہلے پیراگراف میں بتائے گئے لوگ وہ ہیں جن کو ان میمتھ کے دانتوں کی تلاش ہے۔ ان کے لئے دوسری قیمتی چیز گینڈے کی طرح کے معدوم جانور کا لمبا سینگ ہے۔ (دونوں کی تصاویر ساتھ لگی ہیں)۔ ایک اچھا دانت تیس سے پچاس ہزار ڈالر میں جبکہ سینگ دس ہزار ڈالر کے قریب میں بکتا ہے۔ چین ان کی بڑی منڈی ہے۔ ہاتھی دانت کی تجارت کے غیرقانونی قرار دئے جانے کے بعد میمتھ کے دانت کی تجارت نے زیادہ زور پکڑا ہے۔
گرمی کے موسم کے آخر میں یہ لوگ واپس آئیں گے۔ کچھ اس سفر کے دوران زندہ نہیں بچیں گے۔ جو واپس لوٹیں گے، ان کا وزن بیس سے تیس کلوگرام تک کم ہو چکا ہو گا۔ ان میں سے دو تہائی خالی ہاتھ واپس لوٹیں گے۔ ہر سال ساٹھ سے ستر ٹن میمتھ کے دانت نکالے جاتے ہیں۔ اور ان کی تلاش کے لئے جو کچھ کیا جاتا ہے، اس سے سائبیریا کے ماحول کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ایک بات ہاتھی دانت کی۔ ہاتھی دانت کے لئے ہاتھیوں کا شکار کیا جاتا رہا ہے۔ اس سلسے میں آخری اور بڑا افسوس ناک واقعہ 2006 کا چڈ کا ہے جب سو ہاتھیوں کو ان کے دانتوں کی خاطر مارا گیا۔ اس تجارت پر پابندی کے بعد ہاتھیوں کی تعداد اب مستحکم ہے۔ لیکن اس وقت کے چالیس فیصد ہاتھی وہ ہیں جن کے دانت پیدائشی طور پر ہیں ہی نہیں۔ ایسا اس لئے کہ اگرچہ یہ دانت ہاتھی کے لئے بہت کارآمد ہیں لیکن دانت نہ ہونا ہاتھی کو شکاری کے لئے ناپسندیدہ بنا دیتا تھا اور یہ 'معذوری' ان کی زندگی کے ضمانت بنی اور ایسے ہاتھی کی نسل کا آگے بڑھنا ممکن رہا۔
جو دانت جانوروں کی اس شاخ کے تین کروڑ برسوں تک نشانی رہے، اب ان میں سے آدھی آبادی سے غائب ہیں۔ انسانی شکار نے یہ تین سو سال سے بھی کم عرصے میں بدل دیا ہے۔ ہاتھی کے ان دانتوں کا غائب ہونا، سائبیریا کے ماحول کو نقصان، اس خطرناک پیشے سے منسلک لوگوں کی ہر سال جانوں کا ضیاع ہونے کے وجہ کچھ لوگوں کے ڈراینگ روم میں پڑی آرائشی چیزیں ہیں۔ ان کا استعمال خنجر، زیورات، فرنیچر، برتنوں کے ہینڈل، بٹن یا مجسمے بنانے میں ہوتا رہا ہے۔
ساتھ لگی پہلی تصویر میمتھ کے دانت سے بنی مختلف اشیاء کی۔
دوسری تصویر تین کروڑ سال پہلے پیلیوماسٹاڈون کی
تیسری تصویر ان جانوروں کی تاریخ کی
چوتھی تصویر میمتھ کے دانتوں کو نکالنے کے مختلف پر
پانچویں میں ایک سینگ اور ایک سر
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔