وہیل کا شکار قدیم زمانے سے کیا جا رہا ہے لیکن انیسویں صدی تک عالمی معیشت میں اس کی اہمیت بہت بڑھ چکی تھی۔ اس کے ہر حصے سے کچھ فائدہ اٹھایا جاتا تھا۔ رنگ اور وارنش کی تیاری میں، کپڑے اور چمڑے کے صنعت میں، صابن اور موم بتی بنانے میں اور کھانے میں بھی۔ اس کی زبان خاص طور پر پسند کی جاتی تھی۔ خواتین کی ملبوسات، شکم بند، کالر، پیراسول، پرفیوم اور بالوں کے برش اس سے بنا کرتے۔ یہاں تک کہ اس کے فضلے سے سرخ رنگ کی ڈائی بنتی۔ اور سب سے اہم وہیل کا تیل۔ یہ ہر قسم کی مشینری کی لبریکیشن کے لئے استعمال ہوتا اور لیمپ جلانے کے لئے ایندھن کے طور پر بھی۔
دنیا میں 900 جہاز تھے جو وہیل کا شکار دنیا کے ہر سمندر میں کیا کرتے۔ 1835 سے 1872 کے درمیان تین لاکھ سے زیادہ وہیل شکار ہوئیں یعنی ہر سال پونے آٹھ ہزار کے قریب۔ اچھے سال میں وہیل سے نکلے تیل بزنس آج کی کرنسی کے اعتبار سے بیس کروڑ ڈالر سالانہ تھا۔ یہ خطرناک کام تھا لیکن ستر ہزار لوگوں کا روزگار وہیل پکڑنے سے تھا۔ امریکہ میں یہ پانچویں سب سے بڑی صنعت تھی۔
پھر وہ ہوا جو محدود ذخائر والی صنعت کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہیل کی تعداد کم ہونا شروع ہو گئی۔ بحری جہازوں کی تعداد بڑھ گئی تھی اور وہیل کی تعداد کم ہو رہی تھی۔ ایک جہاز جو اپنا چکر ایک سال میں مکمل کرتا تھا،اس کو اب چار سال لگنا شروع ہو گئے۔ تیل کی قیمت بڑھنا شروع ہو گئی جس سے پوری معیشت ہل گئی۔ مستقل توانائی کے مسئلے کے بحران کی وجہ سے تاریک نظر آ رہا تھا۔
پھر ریلوے سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ شخص ایڈورڈ ڈریک نے سٹیم انجن کی ڈرل استعمال کرتے ہوئے امریکہ کی ریاست پینسلوینیا میں ٹٹسول کے مقال سے زمین میں ستر فٹ کی گہرائی پر تیل نکال لیا۔ توانائی کا مستقبل ابل کر سطح پر آ گیا تھا۔ سمندروں میں جان خطرے میں ڈال کر توانائی کی تلاش کے لئے وہیل کے شکار کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ یہ تہہ خانے میں ہی موجود تھی۔
یہ تیل نہ صرف سستا تھا بلکہ وہیل کے تیل کی طرح ہر جگہ استعمال ہو سکتا تھا۔ روشنی کے لئے لیمپ میں، مشینری کے لبریکنٹ کے طور پر، گاڑیوں کے ایندھن کے لئے اور گھر گرم کرنے کے لئے۔ اس سے پلاسٹک بھی بن جاتا تھا اور نائلون کی جرابیں بھی۔ تیل کی نئی صنعت نے نہ صرف دنیا کو معاشی تباہی سے بچایا اور ترقی کے راستے کھولے بلکہ وہیل کو یقینی معدومیت سے بچا لیا۔ پٹرول کی قیمت وہیل آئل کا دسواں حصہ تھی۔
اگر تیل کی دریافت نہ ہوتی اور کیروسین لیمپ نہ ایجاد ہوتا تو آج دنیا میں وہیل کی کوئی نوع نہ بچتی۔ اس پر کیلیفورنیا فائرسائیڈ جرنل نے یہ لکھا۔
Had it not been for the discovery of Oil, the race of whales would soon have become extinct. It is estimated that ten years would have used up the whole family.
وہیل کے شکار پر عالمی پابندی 1986 میں لگی ہے اور اس کی کچھ انواع کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی ہے لیکن شمالی ایٹلانٹک کی وہیل کو معدومیت کا خطرہ ہے۔
ایک صدی سے زیادہ دنیا کی ترقی کا انجن زمین کے نیچے کروڑوں سال سے دفن زندگی کی باقیات رہی ہیں۔ وہیل کی طرح ان کے ذخائر بھی لامحدود نہیں۔ کیا اسی طرز کے ٹیکنالوجی کے کسی بریک تھرو کی مدد سے ہم ان پر انحصار ختم کر پائیں گے یا پھر ختم ہوتے ذخائر دنیا کو معاشی بدحالی کی طرف دھکیل دیں گے؟ یہ اب توانائی کی ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
وہیل کی صنعت کی مختصر تاریخ
https://www.thoughtco.com/a-brief-history-of-whaling-1774068
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔