اگر آپ وکیل ہیں تو معذرت لیکن وکیل اکثر لطیفوں میں نظر آتے ہیں۔ وکیلوں کی پسندیدگی زیادہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وکیل سچ کا متلاشی نہیں ہوتا۔ یہ اس کے پیشے کا مقصد نہیں ہے۔ وکیل کا کام اپنے موکل کے لئے لڑنا ہوتا ہے۔ ایک اچھا وکیل براہِ راست جھوٹ نہ بھی بولے تو کچھ تکلیف دہ سچ چھپا جائے گا تا کہ جج اور جیوری کے لئے اپنے کیس کے حق میں اچھی کہانی بُن سکے۔ ایسا وکیل ہمارے اندر بھی ہے۔ ایسے ہی کام کرتا ہے اور ہم اس کی باتوں پر واقعی یقین کر لیتے ہیں۔ اس کے طریقے پکڑنے کے لئے ہمیں اسے اس وقت پکڑنا ہے جب یہ کام کر رہا ہو۔ اس کا مختلف صورتحال میں مشاہدہ کرنا ہوتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہماری زندگی کا کنٹرول جہاں پر ہے، اس پر ہمارا اپنا کنٹرول اتنا زیادہ نہیں۔ ہم خود ایک بدمست ہاتھی پر سوار ہیں۔ (تفصیل نیچے دی گئی پوسٹ سے)۔ روزمرہ دلائل میں کی جانے والی سٹڈی یہ بتاتی ہے کہ ہمارے اندر کا یہ ہاتھی اچھا جج نہیں ہے۔ جب کوئی مشکل سوال درپیش ہو، جس کے ایک سے زیادہ جواب ممکن ہوں تو ہم ذہن میں پہلا اچھا خیال ابھرنے پر متبادل خیال کی تلاش روک دیتے ہیں۔ اور پھر اس پر پکے ہو جاتے ہیں۔ کوگنیٹو سائیکولوجسٹ ڈیانا کوہن کے مطابق، زیادہ تر لوگوں کو نظریات کے بارے میں اپنی موجودہ پوزیشن کی وجہ کا بھی علم نہیں ہوتا اور وہ اپنی پوزیشن پر کوئی دلیل بھی نہیں دے پاتے اور نہ ہی ان کو علم ہوتا ہے کہ مخالف دلیل کیا ہے۔ ایک مرتبہ طے کر لیا کہ کیا ٹھیک ہے۔ اس کے حق میں شواہد اور دلائل بعد میں وقت پڑنے پر ڈھونڈ لئے جاتے ہیں۔
لیکن یہ والی صورتحال کم پریشر والی ہے اور اس صورت میں ذہن بدلا جا سکتا ہے۔ زیادہ پریشر والی صورتحال میں معاملہ خراب ہو جاتا ہے۔ یہ اندرونی وکیل کی وہ والی پوزیشن ہے جب اس نے ہر حال میں کیس جیتنا ہے۔ وکیل شواہد کا جائزہ ہی پہلے سے طے شدہ نتیجے پر پہنچنے کے لئے لے گا۔ شواہد میں خامیاں ڈھونڈے گا۔ استدلال میں کمزروی تلاش کرنے کی کوشش کرے گا۔ صرف ایک طرف کے شواہد کو وزن دے گا۔ دوسری طرف کو نظرانداز کر دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجربہ کرنے کے لئے سوشل ذہانت کا ٹیسٹ دیا گیا۔ کچھ کو بتایا گیا کہ ان کا اس ٹیسٹ میں اچھا سکور آیا ہے اور کچھ کو بتایا گیا کہ ان کا ٹیسٹ میں برا سکور آیا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ (یہ رینڈم تھا یعنی اس کا تعلق اس سے نہیں تھا کہ انہوں نے جوابات کیا دئے)۔ اس کے بعد ان کو ٹیسٹ کے طریقہ کار میں کمزوریاں ڈھونڈنے کو کہا گیا۔ جن کو بتایا گیا تھا کہ ان کا برا سکور آیا تھا، انہوں نے اس طریقہ کار میں کمزوریاں ڈھونڈنے میں کافی زیادہ محنت کی اور انہیں اس ٹیسٹ کے طریقہ کار میں زیادہ غلطیاں نظر آئیں۔ پہلے کہے جانے والے صرف ایک فقرے نے، جس کا حقیقت سے بھی تعلق نہیں تھا، ان کی اس بارے میں نظر بدل دی تھی۔
اگر کسی کو کسی عادت پر کی جانے والی سٹڈی پڑھائی جائے اور اس پیپر پر تنقید کے لئے کہا جائے تو وہ اس میں سے کتنی غلطیاں نکالیں گے؟ اس کا انحصار اس پر ہے کہ وہ خود ان کی کتنی پکی عادت ہے۔ کافی کے نقصانات کی سٹڈی میں کمزوریاں نکالنے کے لئے محنت کرنے والے وہ ہوں گے جو کافی کے عادی ہوں۔
بار بار کی جانے والی سٹڈیز یہ بتاتی ہیں کہ جو لوگ اپنے پسندیدہ یقین یا ایکشن کی حمایت کے لئے کوگنیٹو مشن پر ہوں، ان کو اپنے مشن کے حق میں دلائل ڈھونڈنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اسے معروضیت کا سراب کہا جاتا ہے۔ ہم واقعی یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہماری پوزیشن کا منطقی اور معروضی جواز موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنجمن فرینکلن نے اپنے اندرونی وکیل کو یہ حرکت کرتے پکڑا تھا۔ فرینکلن سبزی خور تھے اور گوشت نہیں کھاتے تھے۔ سمندر میں سفر کرتے وقت مچھلی فرائی کی جا رہی تھی اور ان کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ لکھتے ہیں، “میں نے مچھلی کھولتے دیکھا تو اس مچھلی کے پیٹ میں چھوٹی مچھلیاں تھیں۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ ایک دوسرے کو کھا جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر میں نہ کھاوں تو کوئی اور مچھلی اسے کھا جائے گی۔ تو چلو یہ کام میں ہی کر لیتا ہوں۔ اصول اور خواہش کے درمیان توازن بدلنے کا جواز مل گیا اور میں نے پیٹ بھر کر مچھلی کھائی اب میں کبھی کبھار اپنے اصول میں لچک پیدا کر لیتا ہوں”۔
فرینکلن نتیجہ نکالتے ہیں، “معقول ہونا آسان ہے۔ ایک بار ذہن بنا لیا جائے تو عقل اس کے لئے جواز تلاش کر لیتی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر کیا کبھی آپ نے اپنے اندرونی وکیل کو ایسی حرکتیں کرتے کبھی پکڑا ہے؟ نہیں، نہیں، نہیں۔ یہ سوال دوسروں کے بارے میں نہیں۔ وہ تو خیر ہیں ہی ایسے۔ یہ والا سوال آپ کے اپنے وکیل کے بارے میں ہے۔