جرمنی میں نینڈر کی وادی دریائے ڈوسل کے ساتھ ہے۔ چونے کے پتھر کی پہاڑیوں کے غار سے 1856 میں ملنے والی ہڈیوں نے اسی شہرت دی اور دنیا کو ایک نئی نوع کا پتا دیا جو اس وادی کے توسط سے نینڈرتھال کہلائی۔ وادی نینڈر کی دریافت کے بعد سے نینڈرتھال کی ہڈیاں یورپ بھر اور مشرقِ وسطیٰ میں مل چکی ہیں۔ ویلز سے لے کر قفقاز تک نینڈرتھال اور ان کے زیرِ استعمال اوزار بڑی تعداد میں مل چکے ہیں۔ یورپ میں یہ ایک لاکھ سال رہتے رہے تھے۔ پھر یہ غائب ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوانٹے پابو، جو میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ میں ارتقائی جینیات کے سربراہ ہیں، اور پیلیوجینیٹکس کے شعبے کے بانی سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے 2006 میں ایک نیا پراجیکٹ کرنے کا اعلان کیا۔ نینڈرتھال کا ڈی این اے پڑھنے کا۔ اس وقت تک انسانی ڈی این اے کا مکمل ورژن شائع ہو چکا تھا۔ کچھ جانوروں کا بھی پڑھا جا چکا تھا۔ لیکن یہ سب زندہ جانور تھے۔ مرنے والے کا ڈی این اے پڑھنا ایک نیا قدم تھا۔ پہلے سے خاصا مشکل کیونکہ ڈی این اے ٹوٹ جاتا ہے۔ پابو کے مطابق، “نینڈرتھال ہمارے قریب ترین رشتہ دار رہے ہیں مگر انسان نہیں تھے، میں جاننا چاہتا ہوں کہ ہمارے ڈی این اے میں ایسی کیا چیز ہے جو ہمیں الگ کرتی ہے۔ کہیں پر وہ اہم میوٹیشن، جس نے ہمیں وہ بنا دیا ہے جو ہم دنیا میں پھیل کر بڑی تہذیبیں بناتے ہیں۔ دوسری مخلوقات کو ختم کرتے ہیں اور پھر ان کو کھود کر ان کا ڈی این اے جوڑ کر اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ کہیں نہ کہیں تو اس کوڈ میں لکھا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وادی نینڈر کی ہڈیوں کی دریافت کھدائی کرنے والوں نے کی تھی۔ ان کے نگران نے یہ ہڈیاں ایک سکول ٹیچر فوہلروٹ کو دے دی تھیں جو فوسل جمع کرنے کا کام بھی کرتے تھے۔ فوہلروٹ کا خیال تھا کہ یہ انسان اور ریچھ کے درمیان کی کوئی شے ہے۔ کسی کا کہنا تھا کہ انسان ہی ہے۔ اس پر فیصلہ نہ ہو سکا۔ اگلی دہائیوں میں انسانی ہڈیوں سے موٹی اور بڑی کھوپڑی والی یہ ہڈیوں یورپ بھر سے ملنا شروع ہو گئیں۔ اب اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ 1908 میں ایک مکمل ڈھانچہ فرانس سے مل گیا۔ اس کو ایک وحشی کے طور پر دیکھا جاتا رہا۔ یہ تصور 1950 کی دہائی میں بدلا۔ 1960 کی دہائی میں عراق سے شنیدر اول سے شنیدر چہارم تک چار الگ ڈھانچے سولیکی نے ڈھونڈے جو ان کی سب سے جنوب میں ہونے والی دریافت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نینڈرتھال پراجیکٹ کے لئے پابو نے کروشیا سے ملنے والی اکیس ہڈیوں کا انتخاب کیا۔ اس کو پڑھنے کے لئے ان کو چیر کر ایک محلول میں ڈالنا پڑتا تھا۔ ان میں سے صرف تین سے ڈی این اے برآمد ہوا اور وہ بھی اس حالت میں جسے پڑھنا آسان نہیں تھا۔ پابو کے مطابق، “یہ صبر کا کڑا امتحان تھا۔ کئی بار مایوسی ہونے لگتی تھی۔ پھر کہیں کامیابی نظر آتی۔ یہ پراجیکٹ جذبات کی ایک رولر کوسٹر رہا”۔
جس جس طرح اس کو پڑھا جانے لگا، کچھ عجیب پیٹرن نظر آنے لگا۔ یہ ڈی این اے انسانوں سے تو مشابہہ تھا اور یہی متوقع تھا لیکن کچھ انسانوں سے یہ زیادہ مشابہہ تھا۔ یورپی اور ایشیائی ڈی این اے سے یہ مشابہت زیادہ تھی۔ اس کو بار بار ٹیسٹ کیا گیا لیکن یہ اسی طرح رہا۔ اس سے پہلے تک تصور یہ تھا کہ جس جس طرح انسان پھیلتے گئے، وہاں پر پہلے پائے جانے والے قدیم انسانوں کو ختم کرتے گئے۔ یہ ری پلیسمنٹ کا ماڈل تھا۔
چار برس کی محنت کے بعد مئی 2010 میں اس کے نتائج شائع ہو کئے گئے۔ یہ سال کا بہترین پیپر قرار پایا اور اس میں پیش کردہ لیکی ری پلیسمنٹ ہائیپوتھیسز تھا۔ نینڈرتھال اور انسانوں نے آپس میں تعلق بنایا تھا، ان کے آپس میں بچے ہوئے تھے اور یہ بچے پڑے ہوئے تھے جن کی آگے نسل ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ کہ ان بچوں کی پرورش کی گئی تھی۔ یہ تعلق قتل و غارت اور نسل کشی کا ہی نہیں تھا۔ آج تیس ہزار سال بعد افریقہ کے لوگوں کے علاوہ فرانس سے نیوگنی اور چین تک رہنے والے ایک سے چار فیصد ڈی این اے نینڈرتھال کا رکھتے ہیں۔
پابو کے مطابق انہیں یہ نتیجہ پسند آیا تھا۔ “ہم نے انہیں مکمل طور پر معدوم نہیں کیا۔ ان کے ڈی این اے کا کچھ حصہ تو میں اس وقت خود اپنے اندر اٹھائے ہوئے ہوں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر اس پراجیکٹ میں انسانی اور نینڈرتھال جینز میں کیا اہم فرق نظر آئے؟ پابو کے مطابق سب سے نمایاں فرق کروموزوم 5 پر وہ فرق تھے جن کا تعلق دماغی عوارض سے ہے۔ یعنی کہ ہم نینڈرتھال سے زیادہ پاگل ہیں۔ پابو کے مطابق یہ شروع میں حیرت کا باعث تھا لیکن غور کیا تو ٹھیک لگنے لگا۔ انسان کی ترقی کا راز اس کے پاگل پن میں ہے۔ ہوموایریکٹس ہوں یا نینڈرتھال، یہ کبھی ضرورت سے زیادہ دشوار جگہوں پر داخل نہیں ہوئے۔ جہاں قدرتی رکاوٹ آئی، ٹھہر گئے۔ آسٹریلیا یا مڈغاسکر کا رخ نہیں کیا۔ جبکہ انسان؟ اس نے کوئی جگہ چھوڑی ہی نہیں۔ آسٹریلیا میں پہنچنے کے لئے آٹھ آبی گزرگاہیں عبور کیں۔ اور ان مہم جووٗں کا تصور کریں جو بحرالکاہل کے درمیان الگ تھلگ جزیرے ایسٹر آئی لینڈ پہنچے۔ آخر وہ سوچ کیا رہے تھے؟ کتنوں نے اپنی جان گنوائی ہو گی؟ اور ہم اب مریخ پر جانے کا سوچ رہے ہیں؟ کیا یہ پاگل پن نہیں؟ بس جو جی میں آئے، کر گزرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔ سب سے اونچے پہاڑ پر چڑھنے والوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ سمندر کے اتھاہ گہرائی میں غوطے صرف شوقیہ لگاتے ہیں۔ جہاں پر کامیابی کا امکان بھی نظر نہ آ رہا ہو، وہاں پر بھی ہمت نہیں ہارتے۔ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کوئی نیا کاروبار کھولنا ہو تو منطق کہتی ہے کہ ناکامی کا امکان زیادہ ہے۔ لیکن پھر بھی لوگ اپنا سرمایہ اور وقت اس پر کھپا دیتے ہیں۔ ناکامیوں کے باوجود پیچھے نہیں ہٹتے۔ لیکن اگر یہ جنون نہ ہوتا تو پھر ہم کہاں ہوتے؟
تو پھر نینڈرتھال کے ڈی این اے کے موازنے سے ہم نے یہ جانا کہ آج نینڈرتھال دنیا میں نہیں رہے، جبکہ ان کہ ہڈیوں کھود کر ان ڈی این اے کا مطالعہ کر رہے ہیں ۔۔۔ کیونکہ ہم سب کچھ کچھ پاگل ہیں۔
اسی جنون نے اس دنیا کو فتح کیا ہے۔
نوٹ: ساتھ لگی تصویر نینڈرتھال کی، جو جرمنی کے میوزیم سے لی گئی ہے۔ اگر انہوں نے کلین شیو کی ہوتی اور سوٹ پہنا ہوتا تو کیسے لگتے۔