پہلی بار میں نے خچر کی سواری ایک پہاڑی علاقے میں کی تھی۔ اس دشوار گزار علاقے میں سفر کا یہی واحد طریقہ تھا۔ آٹھ لوگوں کا گروپ جس میں ایک طرف پہاڑ، دوسری طرف کھائی۔ خچر اور کھائی کا فاصلہ تین فٹ سے زیادہ نہیں تھا۔ ایک خطرناک موڑ آیا جس میں اس کو تیزی سے بائیں طرف مڑنا تھا۔ کیسے؟ ایک سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ اس کی لگام کھینچی تو یہ کہیں دوسرے خچر سے نہ جا ٹکرائے جو ساتھ چل رہا تھا اور نہ کھینچی تو پھر کھائی میں۔ اس خوف نے ذہن ماوٗف کر دیا۔
چند سیکنڈ کی اس کیفیت کے بعد اپنے مضحکہ خیز خوف پر ہنسی چھوٹ گئی۔ خچر کو پتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ وہ اس راستے سے پہلے بھی بہت بار گزر چکا تھا اور اس کو کھائی سے نیچے لڑھک کر گرنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ مجھے اس کو بتانے کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ اور راستے میں کہیں اگر اس کو بتانے کی کوشش بھی کی تو اس نے میری ہدایات کی زیادہ پرواہ نہیں کی۔ میں اس بارے میں اس قدر غلط اس لئے تھا کہ مجھے کئی برس سے گاڑی ڈرائیو کرنے کی عادت تھی۔ ایسی سواری جس کو اگر بالکل ٹھیک ٹھیک نہ بتایا جائے تو وہ لڑھک کر نیچے گر جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی سوچ استعاروں پر گہرا انحصار کرتی ہے۔ جس چیز کا ہمیں پہلے پتا ہے، ہم نئی چیز کا اس کے ساتھ تعلق بنا کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر زندگی کے بارے میں عمومی بات کرنا مشکل ہے۔ لیکن اس کو اگر اس پیرائے میں کہا جائے کہ “زندگی ایک سفر ہے” تو پھر اس سے کئی چیزیں اخذ کی جا سکتی ہیں۔ “سمت کا انتخاب کر لو”، “راستہ دیکھ کر چنو”، “ہو سکتا ہے راستہ ابھی دشوار ہو لیکن اونچ نیچ آتی رہتی ہے”، “اچھے ہمسفر ڈھونڈو تا کہ سفر اچھا کٹے”، “منظر کا لطف اٹھاوٗ”، اچھے استعارے ہماری سوچ کی راہنمائی کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معلوم تاریخ میں لوگ جانوروں کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ یہ جانور قدیم استعاروں کا اور قدیم دانائی کا حصہ ہیں۔ بدھا ذہن کو مست ہاتھی سے تشبیہہ دیتے ہیں،
“گزرے وقتوں میں میرا ذہن بھٹک جاتا تھا جب لالچ، خودغرضی، طمع، خواہشات اس کی راہنمائی کرتی تھیں۔ آج یہ بھٹکتا نہیں اور بڑے پیار کے ساتھ قابو میں رہتا ہے۔ یہ خود میں بدمست ہاتھی ہے جس کو اچھا مہاوت سدھا سکتا ہے”۔
افلاطون اسی طرح ذہن کو رتھ کی مثال سے بتاتے ہیں،
“اس میں دو گھوڑے جُتے ہیں۔ دائیں ہاتھ والا گھوڑا شریف ہے۔ اپنی جگہ پر قائم۔ اونچی گردن اور شاہی ناک۔ عزت، وقار کے ساتھ ضبط رکھنے والا۔ فتوحات کا ساتھی۔ اس کو چابک کی ضرورت نہیں۔ کہہ دینے پر تعمیل کرتا ہے۔ بائیں ہاتھ والا گھوڑا جنگلی ہے۔ شریر، ٹیڑھے کانوں والا اور بہرا۔ چابک اور مہمیز سے بھی بمشکل قابو آتا ہے”۔
افلاطون کی نظر میں یہ اچھے اور برے جذبات ہیں۔ تعلیم کا مقصد ان دونوں گھوڑوں پر قابو پانا ہے۔
ان سے 2300 سال بعد جب سگمنڈ فرائیڈ اپنا ماڈل بتاتے ہیں تو وہ ایسا ہی ہے۔ اس کے تین حصے ہو جاتے ہیں، منہ زور گھوڑا۔ گھڑ سوار اور گھڑسوار کی راہنمائی کرنے والا۔
فرائیڈ، افلاطون اور بدھا جانوروں کے دور میں رہے تھے۔ ان کو سدھانے اور قابو کرنے کی کشمکش کو اچھی طرح جانتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی میں گاڑیوں نے جانوروں کی جگہ لینا شروع کر دی۔ ٹیکنالوجی نے دنیا پر زیادہ کنٹرول دینا شروع کر دیا۔ استعارے بدل گئے۔ گاڑی کا ڈرائیور، کمپیوٹر کا پروگرام آ گئے۔ سوشل سائیکولوجی میں انفارمیشن پراسسنگ کی تھیوری سے تعصب سے لے کر دوستی کو بیان کیا جانے لگا۔ اکانومسٹ “منطقی انتخاب” کے ماڈل لے آئے۔ سوشل سائنسز میں ایک اتفاق ہو بن گیا کہ انسان ایک منطقی ایجنٹ ہے جو اپنے لئے گول طے کرتا ہے اور دستیاب انفارمیشن اور وسائل سے ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ تصور اور یہ تھیوریاں کسی منطقی ایجنٹ کو ماڈل کر لیتی ہیں، انسان کو نہیں۔ لوگ احمقانہ طرزِ عمل کیوں اپناتے ہیں؟ اپنے آپ کو کنٹرول کیوں نہیں کر پاتےَ؟ جب جانتے ہیں کہ جو کر رہے ہیں، وہ ان کے لئے بُرا ہے، پھر بھی اس کو چھوڑ کیوں نہیں پاتے؟ وہ بھی جو دوسروں کو لیکچر دیتے ہیں، اپنی ذاتی زندگی میں ایسے ہی ہیں؟
مجھے علم ہے کہ یہ کام ختم کرنے کی تاریخ آ رہی ہے۔ مجھے وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ میں اپنے کسی دوست کو بھی یہی کہوں گا۔ خود ایسا کرنا مشکل ہے۔
قصور، لالچ، خوف کے جذبات ہمیشہ منطق پر حاوی رہتے ہیں۔ رومی شاعر اووڈ کا کردار، میڈیا، جو اپنی محبت اور والد سے وعدے کے درمیان منقسم ہے۔
“مجھے عجیب نئی قوت کھینچ رہی ہے۔ خواہش اور منطق الگ الگ طرف زور لگا رہے ہیں۔ مجھے ٹھیک راستہ نظر آ رہا ہے۔ مجھے اس راستے کے ٹھیک ہونے پر کوئی شک نہیں لیکن میں پھر بھی غلط راستے پر چل رہی ہوں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب اور انفارمیشن پراسسنگ کی جدید تھیوریاں قوتِ ارادی کی کمزوری کی ٹھیک وضاحت نہیں کر پاتیں۔ یہاں پر قدیم دانائی سے آنے والے جانوروں کے استعارے نہایت خوبصورت کام کرتے ہیں۔ ہاتھی کو قابو رکھنے والا مہاوت، جس کے ہاتھ میں لگام ہے۔ ہاتھی کو ایک طرف مڑنے کا کہہ رہا ہے، رکنے یا چلنے کا اشارہ کر رہا ہے۔ یہ ہدایات اپنی جگہ لیکن اس ہاتھی کی بھی اپنی ہی مرضی ہے۔ اور اگر یہ ہاتھی کچھ کرنے پر تُل گیا ہے تو مہاوت اور اس کا کیا مقابلہ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب روز بڑے اچھے اقوال پڑھتے ہیں۔ دانائی کی باتیں سنتے ہیں اور سر ہلاتے ہیں۔ سیلف ہیلپ کے سیمینار ہوتے ہیں۔ نصیحتیں سنتے ہیں۔ اور پھر یہ گزر جاتا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ یہ سب باتیں مہاوت سے کی جا رہی ہوتی ہیں، ہاتھی سے نہیں۔ ہاتھی کو سدھانا طویل عمل ہے۔ اس کے لئے صرف پڑھنا، سننا کافی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی گرما گرم بحثیں سنی ہیں جس میں مخالفین منہ سے جھاگ تو اڑا رہے ہوں گے لیکن کبھی بھی ایسی باتوں نے کسی کا بھی ذہن نہیں بدلا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں، متواتر کیوں کرتے ہیں جب کہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ اس سے نہ ان کو فائدہ ہے اور نہ کسی اور کو؟ یہ وہ وقت ہے جب بدمست ہاتھی کنٹرول میں ہے اور مہاوت تو صرف اس کی مستیوں کی وضاحت کر رہا ہے۔