فرائیڈ نے انیسویں صدی کے آخر میں انسانی ذہن کی گتھی کھولنے کی کوشش شروع کی اور ہر قسم کے طبقے کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ فرائیڈ کے بہت سے خیالات درست نہیں تھے لیکن دو بڑے اہم خیالات فرائیڈ کی طرف سے آئے ہیں۔ ایک یہ کہ ہمارا بڑا حصہ غیرشعوری ہے اور دوسرا منقسم شخصیت کا۔ فرائیڈ کے لاشعور کے مقابلے میں غیرشعوری حصے کو ذرا مختلف کام ہوتے ہیں۔ گاڑی چلاتے وقت گئیر کب اور کیسے تبدیل کرنا ہے۔ پیانو بجاتے وقت انگلی کو حرکت کیسے دینی ہے۔ دہرائی جانے والی چیزیں ان آٹومیٹک سرکٹس کے پاس چلی جاتی ہیں جو ان کو بہتر طریقے سے سرانجام دے کر مہنگے اور سوچنے والے حصے کو فارغ کر دیتے ہیں۔ یہ آٹومیٹک حصہ انتہائی اہم کام سرانجام دیتا ہے۔ سانس لیتے رہو، کوئی چیز سامنے سے اچانک آ جائے تو جھک کر بچ جاوٗ جیسی ہدایات جو پھر جینز میں کوڈ ہو جاتی ہیں اور ہم دوسری اہم چیزیں سیکھ سکتے ہیں، جیسا کہ تسمے باندھنا، فون پر پیغام لکھنا یا کرکٹ کا بلا گھمانا۔ یہ پروسچرل میموری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروسیجرل میموری میں کئی بار گہرے جذبات بھی منسلک ہوتے ہیں۔ اگر کسی جگہ ناخوشگوار واقعہ ہوا ہے تو وہاں سے گزرتے وقت دوبارہ خوف طاری ہو جانا، کسی کی آنکھ میں بداعتمادی کی چمک محسوس کر لینا، یہ جانے بغیر کہ اس کے پیچھے ایک مائیکرومسکولر حرکت تھی جس نے یہ اطلاع بہم پہنچائی۔ ہمارے گہرے ترین تعصبات بھی یہاں چھپے ہیں۔ کسی نسل کے افراد پر بھروسہ نہ کرنا۔ عمر، جنس، رنگ، لباس، زبان، شکل کی بنیاد پر کسی کے بارے میں رائے قائم کر لینا، کسی سے خوفزدہ ہو جانا، یہ سب دماغ کے اس حصے کا کام ہے۔ دماغ میں امگڈالا ہمیں ضرر سے بچانے کے لئے یادداشت کو مبہم اور جرنلائز کر کے محفوظ کرتا ہے۔ یہ فلیش بلب میموری ہے جو آپ کی اپنی یادداشت سے زیادہ بہتر ہے۔ انجانے خوف بھی کسی ایسے واقعات کا شاخسانہ ہوتے ہیں جن کو ہم خود بھول گئے ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک نارمل شخص بھی اپنے دماغ میں اس قدر آوازیں رکھتا ہے کہ یہی حیران کن ہے کہ ہم کچھ بھی کیسے کر پاتے ہیں۔ ہر آواز ہمارے توجہ لینا چاہ رہی ہوتی ہے۔ تو پھر ان آوازوں کا کیا ہوتا ہے جن کو ہم نہیں سنتے اور نظر انداز کر دیتے ہیں؟ فرائیڈ نے اس کو سٹیم انجن کی مثال سے بیان کیا تھا لیکن وہ ماڈل غلط تھا۔ یہاں پر اس سے بہتر مثال کے لئے جیمز واٹ کے سٹیم انجن کے بجائے ڈارون کے ایکوسسٹم کو دیکھنا ہو گا۔ یہ ایک زبردست نیوروسائنٹسٹ جیرالڈ ایڈل مین کی پیش کردہ مثال ہے جن کو نوبل انعام امیون سسٹم پر ملا تھا اور انہوں نے دماغ کو سمجھنے میں بہت وقت صرف کیا ہے۔ ایڈل مین کے مطابق دماغ کا بھی اور امیون سسٹم کا بھی اندرونی میکانزم نیچرل سلیکشن کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ اپنے دماغ کی مختلف آوازوں یا مختلف ماڈیولز کو اگر انواع کے طور پر دیکھیں جو قیمتی ریسورس کے لئے لڑ رہے ہیں۔ یہ قیمتی ریسورس آپ کی توجہ ہے۔ یہاں جدوجہد اپنی جینز آگے پہنچانے کی نہیں بلکہ اپنا پیغام نیورونز کے دوسرے گروپس کو پہنچانے کی ہے، جن میں وہ گروپ بھی شامل ہیں جو شعور کو شکل دیتے ہیں۔
آپ ایک بازار میں چہل قدمی کر رہے ہیں۔ لوگ پاس سے گزر رہے ہیں۔ آپ کا ایک حصہ چہروں پر نظر ڈال رہا ہے، ان کو پہچان رہا ہے۔ کہیں کوئی میچ تو نہیں ہوتا۔ کوئی پرانا دوست؟ کوئی مشہور شخصیت؟ کوئی شناسا چہرہ؟ آپ کا اولفیکٹری مرکز ایک ہوٹل میں لگے تکے کباب سے اٹھنے والی خوشبو سونگھ رہا ہے، جس سے بھوک کے مرکز میں ہلچل ہوئی ہے۔ ایک گاڑی نے قریب اونچا ہارن بجایا جو سیدھا امگڈلا کے پاس گیاجس نے الارم بجایا کہ کہیں کچھ گڑبڑ تو نہیں۔ یہ سب کچھ اور درجنوں دوسری آوازیں توجہ کی طالب ہیں۔ ان میں سے کچھ کا انتخاب ہو جائے گا، زیادہ تر کی شنوائی نہیں ہو گی۔ کہیں کسی جانے پہچانے چہرے کی جھلک کا شائبہ ہو گا، مگر یہ بھی گزر جائے گا۔ ہارن سے چونکے تو تھے لیکن اس کو بس آدھے سیکند کی توجہ ملی تھی۔ تکے کباب کی خوشبو کو اور پیٹ سے آتی آواز کو نظرانداز کر دیا تھا، ذہن میں کوئی اور سوچ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ کے اس نارمل ایکوسسٹم میں، اصل دنیا کے ایکوسسٹمز کی طرح، ناکامیاں بھری پڑی ہیں۔ اور یہ اچھی خبر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر حصہ اپنی پوری محنت کرتا رہے اور ایگزیکٹو برانچ پر غالب آنے کی کوشش کرتا رہے، یعنی کہ توجہ حاصل کرنے کی تگ و دو کرے۔ بلڈ شوگر مانیٹر ہوتی رہے، یادداشت ٹھیک سے کام کرتی رہے لیکن ساتھ ساتھ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ زیادہ تر کوششیں ناکامی کا شکار ہوں تا کہ ہم اہم معاملات کی طرف اپنی توجہ رکھیں جو اپنا کیس سب سے زیادہ بہتر طریقے سے پیش کریں۔ فرائیڈ کے سٹیم انجن والے ماڈل میں دبی سوچیں نقصان پہنچاتی ہیں جبکہ ڈاروینین ماڈل میں ناکامیاں کامیابی کا نشان ہیں،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یادیں اکیلے سٹور نہیں ہوتیں۔ ایسوسی ایشن رکھتی ہیں۔ کبھی گانا سننے سے عمرِ رفتہ کی کوئی یاد لوٹ آنا۔ کسی آبجیکٹ کو دیکھ کر اس سے ملتی جلتی کوئی چیز ذہن میں آ جانا، کسی بادل کو دیکھ کر اس پر صورتیں مل جانا، یہ سب اسی کا نتیجہ ہے کیونکہ جو نیورون اکٹھے فائر ہوتے ہیں، وہ اکٹھے جڑ جاتے ہیں۔ یادوں کی اس گونج کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک نیورل گروپ فائر ہوتا ہے تو کئی اس سُر میں اپنے سُر ملاتے ہیں۔
تو پھر جذبات اور یادداشت کا کیوں اس قدر ساتھ ہے؟ کیونکہ ہماری یادداشت اور ہمارے جذبات آپس میں گہری طرح بغل گیر ہیں۔ ایسے لمحات جن میں ہمارے گہرے جذبات بیدار ہوئے ہوں، ہماری یادوں پر بھی گہرا نشان چھوڑتے ہیں۔ جذبات نہ صرف اس پر اثر ڈالتے ہیں کہ ہم محسوس کیا کرتے ہیں بلکہ اس پر بھی کہ ہم یاد کیا رکھتے ہیں۔ آزاد ایسوسی ایشن کے اس کھیل میں جذباتی لمحات کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔ ہمارے خواب میں بھی اور جاگتی حالت میں بھی۔ طاقتور سوچیں، خواہ لذت کی ہوں یا فرسٹریشن کی۔ خوف کی ہو یا دوستی کی۔ والدین کی محبت کی یا بچوں کے لئے فکرمندی کی۔ اس حالات میں بنی یادیں گہرے نقش چھوڑتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اگلا سوال یہ آتا ہے کہ ہمیں کرنا کیا چاہیے۔ جب ہم اپنی یادوں کو بار بار دہراتے ہیں، خواہ کسی دوسرے کے استفسار پر ہوں یا پھر خود سے، کیا اس سے ہمیں ناخوشگوار یادوں کو مٹانے میں فائدہ ہوتا ہے یا کہ نقصان؟ اس کے جواب کا انحصار ان بنی یادوں کے وقت ہماری جذباتی کیفیت پر ہے۔ اگر کسی پرانی چیز کییاد کو دہرانے سے دہشت کی یا اداسی کی لہر ہم پر غلبہ کر لیتی ہے تو بار بار دہرانا فائدہ نہیں دیتا، اس کو مزید مضبوط کر دیتا ہے۔ کئی ٹراما کے واقعات کا بہترین حل ان کو بھلا دینا ہے کیونکہ یادوں کا سب سے بڑا دشمن وقت نہیں، نئی یادیں ہیں۔
لیکن کچھ ایسے واقعات ہیں جن کو ذہن سے نکالا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ وہ بار بار خود لوٹ آتی ہیں یا پھر ایسی عام چیزوں کے بارے میں ہوتی ہیں جن سے ہمارا واسطہ روزمرہ میں پڑ سکتا ہے۔ یہاں پر نیورل وائرنگ بدلی جا سکتی ہے۔
اگر کسی ایسے عمل جس سے خوف ہو، اس کو بار بار دہرایا جائے اور اس سے ہونے والا برا اثر دوبارہ نہ ہو تو ذہن اس ایسوسی ایشن کو توڑ دیتا ہے۔ فرائیڈ کی تھراپی ان کیسز میں کام آتی ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ اس لاشعور میں چھپے خوف کو “سمجھ” گئے ہیں بلکہ اس لئے کہ اس کو دوبارہ دہرانے پر منفی کنکنشن ختم ہو رہے ہیں۔ یہاں پر ایکو سسٹم کی ایک اور اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے جو کہ معدومیت کی ہے۔ بدلتی نیورل وائرنگ میں حال ماضی میں بنی ایسوسی ایشن کو معدوم کر رہا ہے۔ یہاں پر اس چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر صرف کسی ٹراما کو بار بار یاد کیا جائے گا تو گہرے گڑھے میں گرتے جائیں گے کیونکہ جذباتی ریسپانس بھی ساتھ ہی آئے گا۔ اس پراسس کے ساتھ نئی ایسوسی ایشن بنانے کی شعوری کوشش ساتھ ساتھ ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی عمل ایک اور طریقے سے بھی کام کرتا ہے۔ مثبت جذباتی یادوں کے لئے بھی۔ اپنے کیرئیر میں کوئی کامیابی، کسی سے سوشل بانڈنگ یا کوئی بھی مثبت یاد۔ ہم چاہیں گے کہ مثبت یادیں ہماری زندگی میں منفی یادوں کی نسبت بڑا کردار ادا کریں اور یہ کام ہم خود کر سکتے ہیں۔
اگر کچھ منفی ہوا ہے، مثلا کوئی حادثہ، تو اگلے کچھ ہفتے اس کی یاد کم کرنے کے لئے جو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے، کریں۔ اس کے لئے بیٹا بلاکر بھی لئے جا سکتے ہیں۔
اگر کچھ مثبت ہوا ہے، کسی پرانے دوست سے ہونے والی زبردست گفتگو، کوئی انعام جو کہ جیتا ہے، امتحان میں یا کیرئیر میں کوئی کامیابی ہوئی ہے۔ تو وقت مختص کریں اگلے کچھ ہفتے یاد کرنے کا، کہ اس سے آپ نے کیسا محسوس کیا تھا۔ ایسا کرنے سے دماغ میں ایک فیڈبیک لوپ بن جائے گا۔ اس کا جذباتی وزن گہرا ہو جائے گا اور اس کا سوچ اور عمل پر آگے جا کر زیادہ اثر ہو گا۔
زیادہ تر کامیاب لوگ وہ ہیں جو اپنی کامیابی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور پھر اسے بار بار دہرانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انہیں یاد رہتا ہے کہ پچھلی کامیابی سے انہوں نے کیسا محسوس کیا تھا۔ ایسا کرنا ہمیں کامیابی کے لئے کوشش میں عزم دیتا ہے۔ اگر آپ کی شخصیت ایسی ہے کہ آپ کسی سنگِ میل کو حاصل کرنے پر زیادہ خوش نہیں ہوتے اور اس لمحے میں زیادہ نہیں رہتے تو اس عادت کو ترک کر دیجئے۔ ہر چھوٹی کامیابی اور ہر اچھی خبر سے لطف اندوز ہونا سیکھئے۔
زندگی کے تلخ و شیریں ہونے والے تجربوں پر ہمارا اختیار زیادہ نہیں، لیکن زندگی کی باگ شیریں حصے کے حوالے کرنے کے لئے ہم اپنی کوشش کر سکتے ہیں۔