کتنے بجے ہیں؟ یہ سوال کوئٹہ میں کسی سے پوچھیں یا سکھر میں یا ہنزہ میں۔ ایک ہی جواب ملے گا۔ ورلڈ کپ کا میچ کب شروع ہو گا اور اس وقت برطانیہ میں مقامی وقت کیا ہو گا؟ ہر کوئی بتا سکتا ہے۔ ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔
وقت مقامی ہوا کرتا تھا۔ معیاری وقت بنانے میں سب سے مشکل امریکہ میں درپیش آئی۔ اور اس کی کہانی ٹرین اور ٹیلی گراف کی ہے۔
ڈینیسن کی ایجاد نے وقت کا حساب سینکڈ تک ایکوریٹ بنا دیا تھا، گھڑی کو گھر گھرپہنچا دیا تھا، لیکن ہر شہر اور قصبے کا اپنا ہی وقت تھا۔ ہر شہر اور قصبہ اس کو اپنے علاقے میں سورج کے حساب سے طے کرتا تھا۔ ایک قصبے میں چھ بجے ہیں، تین قصبے چھوڑ کر چھ بج کر پانچ منٹ ہو رہے ہیں۔ اگر آج سے ڈیڑھ سو سال قبل یہ سوال کیا جاتا کہ “کتنے بجے ہیں؟” تو انڈیانا کی ریاست سے 23 الگ جواب، مشین گن سے 27 اور وسکونسن سے 38 جواب ملتے۔
اس میں سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ کوئی اس کو نوٹس ہی نہیں کرتا تھا۔ کیونکہ انفارمیشن کی رفتار سست تھی۔ تین قصبے دور کوئی کسی سے رابطہ نہیں کر سکتا تھا۔ ہر شہر کے چند منٹوں کا فرق محسوس ہی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن پھر لوگوں نے اور انفارمیشن نے تیز سفر شروع کر دیا اور یہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔ ٹرین اور ٹیلی گراف نے اس کو مسئلہ بنا دیا، ویسا ہی جیسے کتابوں کی آمد نے قریبی نظر کی کمزوری کو مسئلہ بنا دیا تھا۔
مشرق یا مغرب کی طرف جاتی ٹرینوں میں ہر گھنٹے کے سفر میں چار منٹ کا وقت ایڈجسٹ کرنا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ ہر ریل روڈ کا اپنا کلاک ہوا کرتا۔ انیسویں صدی میں ٹرین کا ٹائم ٹیبل سمجھنا دماغ کو چکرا دیتا تھا۔ نیویارک سے آتھ بجے نکلنا ہے تو کولمبیا ریل روڈ ٹائم کے مطابق آٹھ بج کر پانچ منٹ کی ٹرین پکڑنی ہے۔ یہ تین گھنٹے بعد بالٹی مور پہنچے گی، جہاں پر بالٹی مور کے وقت کے مطابق دس بج کر چون منٹ ہوں گے، جو کولمبیا ریل روڈ ٹائم کے مطابق گیارہ بج کر پانچ منٹ ہیں۔ یہاں پر دس منٹ انتظار کر کے گیارہ بج کر ایک منٹ پر بی اینڈ او ٹرین پکڑنی ہے تا کہ وہیلنگ جا سکیں۔ وہیلنگ میں اس وقت دس بج کر انچاس منٹ ہیں۔ اگر آپ کی گھڑی ابھی تک نیویارک کے ٹائم پر ہے تو اس میں گیارہ بج کر دس منٹ ہوئے ہیں۔ اور مزے کی چیز ۔۔۔ یہ سب وقت ٹھیک تھے۔
برطانیہ نے 1840 کی دہائی میں اس مسئلے کو حل کر لیا تھا جب گرین وچ مین ٹائم کو معیار بنایا گیا اور ٹیلی گراف کے ذریعے ریل روڈ کے کلاک اس کے مطابق سیٹ کئے گئے (آج بھی دنیا میں ائر ٹریفک کنٹرول سنٹر اور جہازوں کے کاک پٹ میں صرف اور صرف یہی وقت استعمال ہوتا ہے۔ گرین وچ مین ٹائم آسمان کا واحد ٹائم زون ہے)۔ لیکن امریکہ بڑا تھا اور ایک ٹائم زون رکھنا ممکن نہیں تھا۔ 1869 میں ٹرانس کانٹیننٹل ٹرین کی ایک لاکھ میل کی پٹڑی آٹھ ہزار شہروں سے گزرتی تھی جس میں سب کا اپنا اپنا وقت تھا۔ کئی دہائیوں تک اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے تجاویز آتی رہیں لیکن کچھ پیشرفت نہ ہو سکی۔ اس پر بحث عام لوگوں کے جذبات بھڑکا دیتی تھی، جیسے وقت کو سٹینڈرڈائز کرنا قدرت کے خلاف فیصلہ ہے۔ سنسناٹی کے اخبار نے اداریے میں لکھا،
“ایسا سوچنا مضحکہ خیز ہے، غیرفطری ہے اور احمقانہ ہے۔ سنسناٹی کے لوگ سچ کے ساتھ رہے ہیں اور رہیں گے۔ وہ سچ جو سورج، چاند اور ستارے لکھتے ہیں”
امریکہ میں 1883 میں ایک ریل روڈ انجینیر ولیم ایلن نے اس کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ایلن ٹرینوں کے ٹائم ٹیبل بنانے کے ایڈیٹر تھے اور ان کو ذاتی فرسٹ ہینڈ تجربہ تھا کہ معیاری وقت کے بغیر کس قدر مشکلات ہیں۔ انہوں نے ایک نقشہ بنا کر ٹرینوں کے ایک کنونشن میں اس کی نمائش کی جس میں چار ٹائم زون تجویز کئے گئے تھے۔ (یہی چار ٹائم زون آج بھی ہیں)۔ ہر ٹائم زون صرف سیدھی لکیروں سے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ اس میں اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ بڑی ریل روڈ لائنیں کہاں پر ملتی ہیں اور وہاں پر اس کو زگ زیگ کر دیا گیا تھا۔
ایلن کے پلان سے اتفاق کرتے ہوئے ان کو نو مہینے دئے گئے کہ اپنے خیال کو عملی جامہ پہنائیں۔ ایلن نے ایک بڑی تحریک چلائی جس میں رصدگاہوں سے لے کر سٹی کونسل تک خط لکھنے اور بازو مروڑنے کا کام شروع کیا۔ یہ غیرمعولی اور بہت چیلنج والی تحریک تھی لیکن ایلن اس میں کامیاب رہے۔ 18 نومبر 1883 امریکہ کی تاریخ کا ایک عجیب دن تھا جسے دو دوپہروں والا دن کہا جاتا ہے۔ نیویارک معیاری وقت سے چار منٹ آگے تھا۔ مین ہٹن کی چرچ بیل نے دوپہر کے بارہ بجائے۔ اس کے چار منٹ کے بعد دوسری دوپہر کا اعلان دوبارہ گھنٹیاں بجا کر کیا گیا۔ ساتھ ہی ٹیلی گراف کے ذریعے ملک بھر میں اس کا اعلان کر دیا گیا تا کہ تمام شہروں کے گھنٹا گھر اور تمام ریل روڈ لائنز اپنا اپنا وقت سیٹ کر لیں۔
امریکہ میں معیاری وقت کی بحث طے ہو جانے کے ایک سال کے بعد یکم نومبر 1884 میں گرین وچ مین ٹائم عالمی کلاک کا معیاری وقت بن گیا اور تمام گلوب کو ٹائم زونز میں تقسیم کر دیا گیا۔ 1930 کی دہائی تک تمام دنیا معیاری وقت کا طریقہ اپنا چکی تھی۔ دنیا نے نظامِ شمسی کے وقت کے آفاقی ردھم کو چھوڑ دیا۔ سورج سے وقت معلوم کرنا اب ایکوریٹ طریقہ نہیں رہا تھا۔ ٹیلی گراف کے تاروں میں سفر کرتی برقی رو کی نبض دور دراز کے شہروں کی گھڑیاں ٹھیک رکھتی تھی۔
وقت کی ایکوریٹ پیمائش، سورج سے یہ کام چھین لینے اور دنیا بھر کا اس پر اتفاق ۔۔۔ گلوبلائزیشن کا ایک اہم سنگِ میل عبور کر لیا گیا تھا۔
ساتھ لگی دھاتی سٹرپ کی تصویر گرین وچ کا وہ مقام ہے جہاں کا وقت عالمی معیار کا تعین کرتا ہے۔