جب سے انسان نے اس زمین پر آنکھ کھولی، اپنی تنہائی کے ساتھی ڈھونڈتا آیا ہے۔ قدیم تہذیبوں سے الف لیلہ تک، چاند کے شہروں سے مریخی مخلوق تک اور اب دور خلاوٗں میں کہیں کسی بھی طرح کی مخلوق، کوہِ قاف سے اڑن طشتریوں تک۔ ہمارے تخیل، تجسس، فکشن اور لٹریچر کا دلچسپ موضوع رہا ہے۔ کیا ہم اکیلے ہیں؟ جب وقت ہم زمین کو بھی پورا نہیں جانتے تھے یا پھر آج، جب ہماری نظر اربوں نوری سال کائنات کی وسعتوں میں جھانک رہی ہے، ہمیں اس کے جواب کا علم نہیں۔ زندگی ڈھونڈنے کے کئی طریقے ہیں۔ ذہین زندگی کو ڈھونڈنے کا طریقہ ٹیکنوسگنیچر (ٹیکنالوجی سے کئے گئے دستخط) ہے۔
ستمبر 2018 میں ناسا کے زیرِ اہتمام ہیوسٹن میں ٹیکنوسگنیچر ورک شاپ ہوئی جس میں سپیس سائنس اور آسٹرونومی میں ٹیکنوسگنیچر کے پچاس ماہرین نے شرکت کی۔ تین دنوں میں ہر قسم کے امکان پر پریزنٹیشنز ہوئیں۔ (یہ تمام آن لائن دستیاب ہیں) اس کے نتیجے میں ناسا نے 28 نومبر کو ایک رپورٹ جاری کی جو ہر کوئی پڑھ سکتا ہے۔ یہ رپورٹ صرف 65 صفحات کی ہے اور یہ کیا کہتی ہے؟ ہم کیسے اس بڑے سوال کا جواب حاصل کر سکتے ہیں؟
ٹیکنوسگنیچر کی اصطلاح جِل ٹارٹر نے متعارف کروائی تھی۔ کوئی بھی مشاہدہ جہاں پر ہمیں پتہ لگے کہ مصنوعی طور پر ٹیکنالوجی کے استعمال سے ماحول بدلا گیا ہے، ٹیکنوسگنیچر ہے۔ زمین پر اگر دیکھا جائے تو عمارات، سڑکیں، مشینری اس زمین پر بسنے والی ذہین مخلوق کے دستخط ہیں۔ مٹی، فضا، سمندر میں آلودگی ہمارے ہونے کا ثبوت ہیں۔ رات کو زمین کو دیکھیں تو جگمگاتے شہر اور ہمارے مواصلاتی رابطوں کی وجہ سے مسلسل گنگناتا ریڈیو سپیکٹرم ذہانت کی نشانی ہے۔ دوسری دنیاوٗں میں اس طرح کی آلودگی یا اس طرح کے سٹرکچر یا پھر ایسی ٹٰیکنالوجی جس سے ہم واقف نہیں لیکن ماحول میں دستخط پائے جاتے ہوں، ذہانت کے ہونے کا ثبوت ہو گا۔ طاقتور لیزر جو ستاروں میں رابطے کر رہی ہوں یا پروپلشن سسٹم کا کام کر رہی ہوں۔ ڈائی سن سفئیر جیسے بڑے سٹرکچر سے خارج ہونے والی حرارت یا پھر اس سے بھی بڑی ٹیکنالوجی جو ہماری سمجھ سے باہر ہوں۔ اب ان دستخطوں کی کچھ مثالیں۔
ریڈیو سگنل۔ الیکٹرومیگنیٹک سپیکٹرم کے اس حصے پر بھیجے گئے پیغامات۔ یہ آئیڈیل ہیں کیونکہ ان بینڈ پر بھیجے گئے پیغام صرف مصنوعی طور پر پیدا ہوں گے۔ سورج تو پوری سپیکٹرم میں فوٹون خارج کر رہا ہے لیکن اگر ایک تنگ بینڈ میں سگنل ڈیٹکٹ ہو تو وہ ذہین مخلوق کا فوری بتا دے گا۔ ستاروں کو ایک فریکوئنسی پر سکین کر کے اور اس فریکونسی کے نہ ہونے کی تسلی کر کے اگلی فریکونسی اور پھر اسی طرح اس سے اگلی فریکونسی تک بڑھا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود بہت زیادہ ریڈیو فریکونسی جنریٹ کرتے ہیں اور اس شور میں ہمیں احتیاط سے اس کو چھاننا ہوتا ہے۔ فریکونسی، اس کی پاور، اس کی سمت، اس کی ماڈولیشن۔ ہمیں اس کا علم نہیں، اس لئے یہ وقت طلب کام ہے۔ اس حوالے سے سیٹی پروگرام ایک بہت چھوٹا حصہ دیکھ پایا ہے۔ لیکن یاد رہے، زندگی کی تلاش کیلئے ہر جگہ دیکھنا ضروری نہیں۔ اگر ہم اس سوال کا جواب لینے جائیں کہ کیا سمندر میں مچھلیاں ہوتی ہیں تو تمام سمندر نہیں چھاننا پڑے گا۔ اگر ذہین زندگی عام ہوئی تو مچھلی پکڑی جائے گی۔ اس پر حساس براڈبینڈ سروے جیسا کہ ایلن ایرے پہلے سے ہی کام کر رہے ہیں اور مستقبل میں ان میں اضافہ ہو جائے گا۔
لیزر۔ الیکٹرومیگنیکٹک سگنل میں انفراریڈ لیزر یا آپٹیکل لیزر بھی اس کا پتا دے سکتے ہیں۔ سیاروں اور ستاروں کے درمیان لیزر سے ہونی والی کمیونیکیشن پکڑی جا سکتی ہے۔ دہرائے جانی والی لیزر پلس ذہین زندگی کی ایک واضح علامت ہو گی۔ کئی سروے اس پر بہت تفصیل سے آسمان کو چھان چکے ہیں۔ ایک لاکھ کے قریب ستاروں میں لیزر پلس دیکھ چکے ہیں، لیکن ابھی ایسا نہیں ْملا۔ ابھی ہم نے سطح ہی دیکھی ہے لیکن اس پر بھی سروے جاری ہیں۔
توانائی۔ اگر کوئی اپنی زندگی میں مگن ہے تو توانائی کا استعمال لازم ہے۔ اس کا کچھ حصہ حرارت کے طور پر خارج ہو گا۔ جتنی تہذیب ترقی یافتہ ہو گی، اتنی زیادہ حرارت خارج کرے گی۔ ڈائی سن سفئیر میگاسٹرکچر، جہاں پر ایسی تہذیب اپنے ستارے سے ٓانے والی تمام توانائی کو اکٹھا کر سکے، بہت حرارت خارج کرے گا۔ اس سے بننے والے انفراریڈ دستخط ہمیں ذہین مخلوق کا بتا دے گا۔ ایسے آبجیکٹ جہاں پر ایک سو سے تین سو کیلون درجہ حرارت ہو، وہ اس کا ثبوت ہوں گے۔ یہ انفرادی بھی ہو سکتے ہیں اور کہکشاوٗں پر بھی۔ یعنی کہ خرداشیف سکیل کے مطابق ٹائپ تھری سویلائزیشن۔ اس کو ڈھونڈنا قدرے آسان ہے۔ اور ہمیں بہت بڑا میگا سٹرکچر ہی نہیں چاہیے۔ ایسا سٹرکچر جو توانائی کا ایک حصہ ہی حاصل کر سکتا ہو، ذہین زندگی کا ثبوت ہو گا۔ اس سٹرکچر کی وجہ سے روشنی کا اتار چڑھاوٗ ہم معلوم کر سکتے ہیں۔ ناسا کی کیپلر ٹیلی سکوپ اس بارے میں پرفیکٹ پوزیشن میں رہی ہے۔ (اس کا اصل کام سیارے تلاش کرنا ہے جس میں یہ امید سے بھی زیادہ کامیاب رہی)۔ کیپلر ٹیلی سکوپ نے جن دو لاکھ ستاروں کا تجزیہ کیا، ان میں سے ایسا کسی ستارے کے گرد نہیں ہے۔
اپنے نظامِ شمسی میں تلاش۔ امواموا نامی پتھر کی دریافت یہ بتاتی ہے کہ چٹانیں اس نظامِ شمسی کے باہر سے بھی یہاں پہنچ سکتی ہیں۔ تو پھر ذہین خلائی مخلوق بھی خلائی مشن بھیج سکتی ہے۔ ہم اپنے نظامِ شمسی کی زیادہ تر دنیاوٗں کی ایک کلومیٹر کی ریزولیوشن کے ساتھ نقشہ بندی کر چکے ہیں۔ ہمیں ایسا کچھ نہیں ملا لیکن یورپا، ٹائٹن یا عطارد کی سطح پر چھوٹے آبنجیکٹ ہو سکتے ہیں جو نظروں سے اوجھل رہے ہوں۔ ستاروں کے بیچ کی خلا بہت وسیع ہے۔ ان میں چھپا کوئی بھی اور کسی بھی طرح کا مصنوعی آبجیکٹ ٹیکنالوجی کا واضح دستخط ہو گا۔
ٹیکنالوجی اس حوالے سے بہتر ہو رہی ہے اور نئے مشاہدے اور تکنیک کا آغاز ہو رہا ہے۔ نئے ٹیلی سکوپ، نئے مشن اور ان سے آنے والے ڈیٹا سے معنی اخذ کرنے والے طاقتور ہوتے کمپیوٹر کچھ نئے راستے کھول رہے ہیں۔ ہماری طرف رخ کرنے والی ٹرانسمشن کے بجائے کیا ہم لیک ہونے والی انفارمیشن پکڑ سکتے ہیں؟ یعنی ان کے اپنے استعنال کے ٹی وی اور ریڈیو سگنل۔ سکوائر کلومیٹر ایرے یہ کام کر سکتی ہے۔ یہ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں زیرِ تعمیر ایک بہت بڑی ریڈیو ٹیلی سکوپ ہے جو 2030 میں مکمل ہو جائے گی۔
تہذیب کے ماحول کا مشاہدہ۔ زمین پر پائے جانی والی صنعتی آلودگی جیسا کہ فضا میں موجود کلوروفلور کاربن اس کا ثبوت ہوں گے۔ جب بھی جیمز ویب ٹیلی سکوپ نے اپنے کام کا آغاز کیا، یہ دوسرے ستاروں کے گرد سیاروں کی فضا میں دو دن کے مشاہدے کے بعد یہ دستخط ڈھونڈنے کے قابل ہو گی۔ ہمیں جن سیاروں پر شک ہو گا، یہ ان کا مزید اور بہتر مشاہدہ کر سکے گی۔
زمین پر آبادی شہروں میں اکٹھی ہوتی ہے۔ اس سے نکلنے والی حرارت انفراریڈ سپیکٹرم میں نکلتی ہے۔ اس کو ہیٹ آئی لینڈ کہتے ہیں اور اس کو کسی انفراریڈ ٹٰلی سکوپ سے پکڑا جا سکتا ہے۔ جنگل کی آگ یا آتش فشاں بھی ایسی حرارت کا اخراج کر سکتے ہیں لیکن شہروں کی ویسٹ توانائی کی ویولینتھ کو بہت آسانی سے الگ کیا جا سکتا ہے۔
روشنی کی آلودگی کو بھی ڈیٹیکٹ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ستارے کی مخالف سمت میں خارج ہونے والی توانائی ہو گی۔ (آسان زبان میں، بتیاں رات کو روشن ہوں گی)۔
کسی ماحولیاتی بحران، کسی نیوکلئیائی تباہی کو بھی یا پھر اپنے سیارے کو بدلنے والا جیوانجنئرنگ کا بڑا پراجیکٹ۔ یہ بھی سیارے کی زندگی کا بتا دے گا۔
اس ورکشاپ میں شرکاء نے زمین اور خلا سے کئے جانے والے نئے سروے تجویز کئے۔ موجودہ آلات کو اپنی حد تک کھینچ کر اور ایکسٹریملی لارج ٹیلی سکوپ، جینز ویب یا سکوائر کلومیٹر ایرے ہمارے جال کو وسیع کریں گی۔ حساس انفراریڈ اور آپٹیکل فوٹومیٹری، بہتر ریڈیو سروے کی صلاحیت اور دور تک مشاہدہ ممکن کر کے۔ ایک مجوزہ ٹیلی سکوپ ایکسولائف فائنڈر ٹیلی سکوپ ہے۔ جس میں نو سے پچیس بڑے ٹیلی سکوپ ایک دائرے کی مدد سے لگے ہوں گے۔ جو کئی نوری سال دور سیاروں کے سمندر اور برِاعظم تک دیکھ لے گی۔
ہم اس سوال کا جواب لینے کیلئے اپنا جال بھی بڑا کر رہے ہیں اور کانٹا لگا کر ڈوری کے ہلنا کا انتظار بھی کر رہے ہیں۔ کیا اس کائناتی سمندر میں کوئی مچھلی ہے بھی یا نہیں؟ ہاں یا نہیں۔ آرتھر کلارک کے مطابق یہ دونوں جواب خوفناک ہیں۔
اس کانفرنس میں پیش ہونے والا تمام میٹیریل