“غلطی کرنے سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ کچھ بھی نہ کیا جائے”
ساتھ لگی تصویر کو غور سے دیکھیں۔ کیا آپ کو اس میں بائیں طرف والی مستطیل کے نقطے اندر کی طرف دھنسے نظر آ رہے ہیں اور دائیں طرف والی مستطیل کے نقطے باہر کو؟ اگر ہاں تو اس کو الٹا کر دیکھ لیں۔ ان دونوں مستطیلوں میں کوئی بھی فرق نہیں، سوائے اس کے کہ اس کو ۱۸۰ ڈگری کے زاویہ پر گھمایا گیا ہے۔ یہ نقطے نہ اندر ہیں اور نہ باہر۔ یہ نقطے تھری ڈی تو ہے ہی نہیں۔ یہ راماچندرن کا ڈیزئن کردہ بصری دھوکہ ہے۔
اس طرح کے دھوکے دیکھنا بھلا لگتا ہے، حیران کرتا ہے۔ جب پتہ بھی لگ جائے تو ان سے باہر نہیں نکل سکتے۔ لیکن یہ ہیں کیوں؟ کیا یہ دماغی مسئلہ ہیں۔ ان کی خوبصورت وضاحت ہرمن وان ہمہولٹز ہمارے ادراک کی فطرت سے کرتے ہیں۔ یہ ہماری ہوشیار شرطیں (smart bets) ہیں، دماغی شارٹ کٹ یا غیرشعوری نتائج۔
ان کا سب سے زیادہ فائدہ مارکٹںگ کرنے والے اٹھاتے ہیں۔ کسی چیز کو پیک کیسے کیا جاتا ہے؟ بیچنے کے لئے رکھا کہاں جاتا ہے؟ ذہین مشینوں کو انسانی شکل کیوں دی جاتی ہے؟ گھڑی کے اشتہار میں وقت ہمیشہ دس بج کر دس منٹ ہی کیوں دکھایا جاتا ہے؟ یہ اور اس طرح کے درجنوں حربے ہمارے ان دھوکوں کی وجہ سے ہیں۔
اس تصویر کے پیچھے کیا شارٹ کٹ ہے؟
پہلا: نقطے کے اوپر والے حصے پر سائے کا مطلب یہ کہ گولائی اندر کی طرف کو ہے.
دوسرا: اس تصویر میں سایہ اوپر کی طرف ہے.
نتیجہ: نقطہ اندر کی طرف کو مڑا ہوا ہے۔
ہمارا دماغ دنیا کو تھری ڈی تصور کرتا ہے۔ یہ اس تصویر کے سٹرکچر سے تھری ڈی نکانلے کی کوشش کرتے ہوئے دو چیزیں فرق کر لیتا ہے کہ
۱۔ روشنی اوپر سے آ رہی ہے
۲۔ روشنی کی ایک ہی سورس ہے
انسانی اور ممالیہ کی کروڑوں برس کی تاریخ میں یہ دو باتیں ہمیشہ سچ رہی تھیں۔ سورج اور چاند روشنی کے ذرائع ہوتے تھے۔ روشنی ہمیشہ اوپر سے آتی تھی۔ مصنعوعی روشنی بھی اوپر سے آتی ہے۔ اس کا minor premise ارتقائی نفسیات سے ملتا ہے۔ اور major premise، جو کہ ہم خود زندگی میں سیکھتے ہیں، بھی اس کی تائید کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اس روشنی کا سایہ دیکھ کر دماغٰ شارٹ کٹ سے نتیجہ نکال لیتے ہیں۔ یہ ہمارے دماغ کی ہوشیار شرط ہے۔ خاص حالات میں اس کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔
غیرشعوری نتائج ہمارے لئے کئی اور چیزوں کی وضاحت بھی کر دیتے ہیں۔ ہمارے شارٹ کٹ کے غلط ہو جانے کی ایک مثال وہ ہے جب کسی شخص کی ٹانگ کاٹ دی جائے تو بھی وہ کئی بار اپنے پاوٗں کی انگلیوں میں تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اس میں دماغ کا ایک بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ کچھ اعصابی سرکٹ میں سگنل کا مطلب پاوٗں کی انگلیوں کی تکلیف ہے۔ ایسے مریض شعوری طور پر اس علم کا ہوتے ہوئے بھی کہ اب پاوٗں ہی موجود نہیں تو تکلیف کیسی، اس دھوکے سے نہیں نکل پاتے۔ علم ہوتے ہوئے بھی غیرشعوری نتائج میں گرفتار رہنا ہمارے ان سرکٹس کا نتیجہ ہے۔
ہمہولٹز نے ہمیں کوگنیشن کے بارے میں اس نئے رخ سے آگاہ کیا جس سے تین نتائج نکلتے ہیں۔
۱۔ کوگنیشن پچھلے نتائج کو دیکھ کر اندازہ لگاتی ہے۔ (اس کی پرابیبلٹی شماریاتی اور ہیورسٹک طریقوں سے بیز اور ہربرٹ سائمنز کے کام کی بنیاد پر ماڈل کی جاتی ہے)۔
۲۔ منطقی نتیجے کو نکالنا صرف شعور کا کام نہیں۔ جسے ہم چھٹی حس کہہ لیں یا وجدان (intuition) ۔ اس کا بھی منطقی نتائج تک پہنچنے کا اسی طریقے کا سرکٹ ہے جو شعوری ذہانت کا۔
۳۔ دھوکے ذہانت کا لازمی نتیجہ ہیں،
کوگنیشن کا کام دی گئی انفارمیشن سے آگے جانا ہے۔ شرائط لگانا اور ایسا کرنے میں غلطی کا امکان ہوتا ہے۔ کیا یہ دھوکے کمزوری ہیں یا طاقت؟ ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو سمجھنے کے لئے ہر وقت مسلسل ایسے اندازے لگا رہے ہیں۔ یہ بھاری تعداد میں ٹھیک نکلتے ہیں۔ اس قسم کے خاص کیسز میں ان کے غلط ہو جانے سے ہم ٹھٹک جاتے ہیں۔ لیکن یہ ہمیں ہمارے اپنے ادراک کے طریقے سے آگاہ کر دیتے ہیں۔ لیکن غلطی کا امکان لئے مسلسل یہ اندازے لگانا ہمارے دماغ کی ایک بڑی طاقت ہے، کیونکہ “غلطی کرنے سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ کچھ بھی نہ کیا جائے”۔ ایک سسٹم کوئی غلطی نہ کرے، ذہین نہیں ہے۔