آسانی سے توانائی مہیا کرنے والا آلہ جسے ساتھ رکھا جا سکے، یہ ہماری اپنے سیلز کا مائیٹوکونڈریا بھی ہے اور جس آلے پر آپ یہ پوسٹ پڑھ رہے ہیں، اس کے اندر کے سیلز بھی۔ دو ارب سال پہلے، جب سادہ پروکارئیٹ نے پہلی بار مائیٹروکونڈریا حاصل کیا تو ایفیشنٹ انرجی کے اس طریقے نے زندگی کی ڈیزائن سپیس میں حیرت انگیز ممکنات کے راستے کھول دئے۔ خلیوں کا مل کر کثیر خلوی جسم بنانا۔ کچھ میٹازوا نے پیچیدہ نروس سسٹم بنائے جس سے ہمارے سیارے کو پہلی بار آنکھیں اور کان ملے اور اس نے زندگی کے افق کو کہیں زیادہ وسیع کر دیا۔
اسی طرح ہماری بنائی گئی سادہ سی بیٹری اور اس کے جانشین فیول سیلز نے قسم قسم کے آلات بنانا ممکن بنایا۔ ایسے آلات جو توانائی مانگتے ہوں مگر ایک جگہ پر بجلی کے تار کے محتاج نہ ہوں۔ اس ایجاد سے بھی ایجادات کا انقلابی سلسلہ چل نکلا ہے۔ سیاست میں بھی دیکھا جائے تو مکمل آمریت کے خلاف طاقتور ترین ہتھیار ٹرانسسٹر ریڈیو اور موبائل فون ہیں جو انفارمیشن کے مرکزی کنٹرول کو ختم کرتے ہیں۔ ہر فرد اپنی حسیات کو بیٹری سے چلنے والے برقی آلات سے بڑھا سکتا ہے۔ (مثال کے طور پر، کیمرہ یا ویڈیو ریکارڈر ڈیٹا اکٹھا کرنے کے طریقوں میں انقلاب لے آئے ہیں)۔ ان آلات سے انسانوں کے علم حاصل کرنے کا آرکیٹیکچر بھی بالکل بدل گیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس تیز رفتار ترقی سے اگر کبھی ہم خلائی کالونیاں بسانے کے قابل ہوئے یا اپنے سیارے کو کبھی مہلک تصادم سے بچانے کے قابل ہوئے تو اس کا انحصار ہماری برقی توانائی کو آسانی سے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت پر ہو گا۔ (سورج سے آنے والی توانائی کو ذخیرہ کر کے دنیا کی توانائی کے مسائل کا حل بھی اسی ٹیکنالوجی پر منحصر ہے)۔
ہماری بنائی گئی بیٹری اس وقت خلیے میں لگے مائیٹروکونڈرئیل اے ٹی پی سسٹم کے مقابلہ نہیں کر سکتیں (ایک صحتمند شخص پہاڑوں پر کئی روز تک اپنا بستہ اٹھائے بغیر نئے ایندھن کے چڑھ سکتا ہے، ایک روبوٹ اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا)، لیکن توانائی کو پورٹیبل طریقے سے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت طرح طرح کی اہلیتوں کے دروازے کھول رہی ہے۔ بہتر سے بہتر بیٹری کی تلاش اس وقت تحقیق کا اہم ترین شعبہ ہے۔