ہم نہ صرف اس زمین کی مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے بلکہ بُھلا دئے جائیں گے۔ کل آںے والے آرکیولوجسٹ ہمارے متعلق اندازے لگا سکیں گے۔ ہمارے متعلق کہانیاں بنا لیں گے۔ شاید بہتر آلات سے لیس ہوں اور بہتر طریقے سے معلوم کر پائیں مگر ہمیں کبھی بھی اس طرح نہیں جان سکیں گے جسطرح ہم اپنے آپ کو جانتے ہیں۔ ہم آج جتنا بھی نام بنا لیں، جس بھی طرح اپنا ریکارڈ محفوظ کر لیں اور مستقبل کے آلات بھی جتنے مرضی اچھے ہو جائیں، ایک دھند ہے جو کبھی نہیں چھٹے گی۔ غیردلچسپی کی دھند۔
ایک پروگرام میں کسی نے سوال کیا کہ کیا آپ میں سے کوئی پندرہویں صدی میں رہنے والے دس لوگوں کے نام لے سکتا ہے؟ کوئی بھی نہ لے سکا۔ کیا آپ لے سکتے ہیں؟ اس وقت کے بڑے نامیوں سے بھی واقف ہیں؟ دلاور خان سے، جنہوں نے برِصغیر میں مالوا سلطنت کی بنیاد رکھی، خضر خان سے جنہوں نے ملتان میں اقتدار حاصل کیا، شاہ مراد سے جنہوں نے پولینڈ اور ہنگری کی فوجوں کو شکست دی، بہلول خان سے جنہوں نے دلی کا تخت سنبھالا، سلطان محمد ثانی سے جنہوں نے بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کیا؟ سُنی علی بیر سے جنہوں نے مغربی افریقہ میں سنگھائی دور کی بنیاد رکھی یا میر چاکر خان رند جو بلوچوں کے ہیرو اور بادشاہ تھے؟ یا دنیا بھر کے آرٹسٹ، مہم جوؤوں، سائنسدانوں یا ادیبوں سے؟ اگر نہیں تو پھر یہ بس ہماری غیردلچسپی کا شکار ہو چکے۔ کیا آپ اپنے پڑدادا کے پڑدادا کے آگے اس دور میں رہنے والے خود اپنے آباء سے واقف ہیں؟ ان کی زندگی سے، ان کے دکھ سے، ان کی خوشیوں سے، کامیابیوں اور ناکامیوں سے؟ ان کے پیشے سے؟ ان کے اخلاق سے؟ ان کی سوچ سے یا ان کے خوابوں سے؟ یا پھر ان کے نام سے؟ کیا آپ یہ سب جاننے میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں؟
تو پھر اگر کوئی ہمارے آج کے بارے میں نہیں جانتا تو پھر کیا ہم جو ماضی کے بارے میں جانتے ہیں، وہ ویسے تھا بھی کہ نہیں؟ کیونکہ ہم گریویٹی، روشنی یا پروٹونز کی طرح ماضی کو لیبارٹری میں تو نہیں لا سکتے یا اس پر تجربے تو نہیں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم جو ماضی کے آثار دیکھتے ہوں، موہنجو داڑو ہو یا بابل، جانداروں کے خول اور ہڈیاں ہوں یا چٹانوں اور برف اور درختوں میں ہوئے دستخط یا پھر فلک سے آنے والی قدیم روشنیاں، کیا ان سے ماضی کا پتہ ٹھیک لگتا ہے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ کائنات پچھلی جمعرات کو بنی ہو؟ کیا ماضی کو 'ثابت' کیا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب لینے کے لئے ہمیں اُستروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے جو کئی طرح کے ہیں اور ان میں سے ایک مشہور استرا اوکم کا ہے۔
اوکم کا استرا یہ کہتا ہے کہ اگر کسی چیز کی کئی وضاحتییں ہوں تو جو وضاحت سادہ ہو اور کم مفروضے رکھے وہ درست ہو گی۔ اس کی تین مثالیں
آپ نے کمرے میں داخل ہونے کے بعد بلب روشن کرنے کے لئے سوئچ دبایا، بلب نہیں جلا، نہ دوسرا بلب روشن ہوا، نہ پنکھا اور کسی کمرے میں کوئی روشنی نہیں۔
پہلی توجیہہ: تمام بلب فیوز ہو گئے ہیں اور پنکھا خراب ہو گیا ہے۔
دوسری توجیہہ: بجلی چلی گئی ہے۔
آپ دوسری منزل سے لفٹ میں سوار ہوئے، اوپر جانے کا بٹن دبایا، کچھ حرکت محسوس ہوئی، دروازہ کھلا۔ ہال میں تیسری منزل کا بورڈ نظر آ رہا ہے۔
پہلی توجیہہ: لفٹ خراب تھی، جب آپ نے بٹن دبایا تو کچھ لوگوں نے اس کو ہلایا جس سے آپ کو محسوس ہوا کہ یہ حرکت کر رہی ہے، اس دوران کسی اور نے ہال کا بورڈ بدل دیا۔ اصل میں آپ دوسری منزل پر ہی ہیں۔
دوسری توجیہہ: آپ تیسری منزل پر آ گئے ہیں۔
باہر سے سُموں کی آواز آ رہی ہے۔
پہلی توجیہہ: زیبرا گاڑی گزر رہی ہے۔
دوسری توجیہہ: گھوڑا گاڑی گزر رہی ہے۔
ان میں اگرچہ پہلی توجیہہ بھی ممکن تھی لیکن ہم اوکم کے اُسترے سے اس کو کاٹ دیتے ہیں کیونکہ سادہ وضاحت کے درست ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ یہ استرا سائنس میں بہت جگہ پر فائدہ دیتا ہے لیکن خاص طور پر ماضی کو جاننے کے لئے اہم ہے۔
تو پھر ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ مستقبل میں بھی کوئی ہو گا جو ماضی میں دلچسپی رکھتا ہو گا۔ وہ ہماری کچھ چیزیں بھی ڈھونڈ نکالے گا۔ بہتر آلات سے اور اوکم کے استرے سے۔
انفرادی طور پر مستقبل کے لئے اس دنیا میں صرف چھوٹی سی لہریں چھوڑ سکتے ہیں اور ساتھ ایک امید کہ وہ کبھی کل دوسری لہروں سے ملکر اس کو ہماری چاہی گئی سمت کی طرف دھکیل سکیں۔ ہمارا نام، شکل و صورت اور ہماری زندگی، جلد ہی بھلا دی جائے گی۔