بائیولوجی کا سب سے پراجیکٹ ہیومن جینوم پراجیکٹ 2003 میں تیرہ سال کی مدت کے بعد مکمل ہوا جس سے ہمیں اپنی زندگی کے بلیوپرنٹ کا پتہ لگا۔ ہمارا ڈی این اے تین ارب حروف پر مشتمل ہے۔ ہمارے جسم میں تین سو بہتر کھرب خلیات ہیں اور یہ تین ارب حروف ان میں سے ہر خلیے میں ہیں۔
جس طرح ہم اپنے ڈی این اے سے پروگرام ہوئے ہیں، ہر طرح کی زندگی کا پروگرام بھی اسی طرز پر ہےِ، خواہ وہ جراثیم ہوں یا پودے۔ ڈی این اے کی لمبائی کے حساب سے انسانوں کا ڈی این اے سب سے پیچیدہ نہیں۔ کئی جاندار ایسے ہیں جن کا ڈی این اے ہم سے کہیں زیادہ لمبا ہے۔۔ کنول کے پودے اور سالامینڈر کا ڈی این اے ہم سے دس گنا لمبا ہے۔ سب سے بڑا ڈی این اے جاپان کے جزیرے پر ایک پہاڑی پھول دار پودے کا ہے جو ہم سے پچاس گنا زیادہ لمبا ہے۔
اگر ڈی این اے کو سیدھا رکھا جائے تو ایک انسانی خلیے میں اس کی لمبائی دو میٹر ہے۔ اگر جاپانی پودے کو دیکھیں تو یہ سو میٹر لمبا ہے۔ یہ ایک خلیے میں فِٹ کیسے آتا ہے؟ اس کا طریقہ سپرکوائلنگ ہے جس کے لئے پہلی تصویر دیکھ لیں۔
ڈی این اے کی اصل گتھی یہ نہیں، لیکن اس کی کہانی کو ابھی روک کر ریاضی کی طرف چلتے ہیں۔
ریاضی میں ٹوپولوجی ایک شعبہ ہے اور اس میں ایک تھیوری، گرہ کی تھیوری ہے۔ جوتے کا تسمہ باندھنا یا رسی کو جوڑنا عام زندگی کی گرہیں ہیں لیکن ریاضی میں گرہ کا باندھنا اور کھولنا ایک پوری سائنس ہے جس میں اپنی تھیوریز، پرابلم، نوٹیشن اور کوڈ ہیں۔ گرہوں کا کراس نمبر اور گرہوں کی کلاسیفیکیشن نکالنا اس کا حصہ ہے۔ گرہوں کی پیچیدگی کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ ایسی گرہوں کی قسمیں جن کا کراس نمبر سولہ سے کم ہو، صرف ان کی تعداد چودہ لاکھ کے قریب ہے۔ اس وقت کلاسیفیکیشن ٹیبل دیکھیں تو چھ ارب گرہیں ملیں گی۔
اب واپس ڈی این اے پر۔ ڈی این اے کی تقسیم زندگی کے پیچیدہ ترین پراسسز میں سے ہے اور اس کی پیچیدگی گرہوں میں ہے۔ ڈی این اے کو اپنے سپرکوائیل سے کھلنا ہے، ٹوٹنا ہے، ڈی این اے کے دوسرے سیگمنٹ سے جڑنا ہے اور پھر اس کو بند ہونا ہے۔ انسانی ڈی این اے میں اس کی رفتار پچاس نیوکلوٹائیڈ فی سیکنڈ ہے اور ایک وقت میں پر یہ تقسیم سیکنڑوں جگہ پر اکٹھی شروع ہوتی ہے۔ ایک خلیہ میں ڈی این اے ریپلیکیشن مکمل ہونے میں اوسطا ایک گھنٹہ لگتا ہے۔
ای کولی بیکٹیریا میں اس تقسیم کی رفتار انسانی خلیے سے بیس گنا زیادہ ہے اور اس کا ڈی این اے بھی انسانی خلیے سے بڑا ہے اور تقسیم کا طریقہ بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس میں ڈی این اے کو کاٹنے والے دونوں اطراف میں حرکت کرتے ہیں۔
اس سارے عمل میں جو چیز باقی سب سے زیادہ بڑا سوال ہے، وہ یہ کہ آخر اس سارے عمل میں اس کوائل کا کھلنا اور بند ایسے کس طریقے سے ہے کہ نہ ہی یہ الجھے اور نہ ہی اس میں گرہ پڑے۔ جو گرہیں ہم ابھی کھولنا نہیں جانتے، ان کے لئے جو انزائم ہے، وہ ٹوپیوسومیراسس ہے۔ اسکے بغیر یہ عمل ناممکن تھا۔ انسانوں میں یہ انزائم کم از کم دو طرح کی ہے لیکن ای کولی میں اس کی ایک قسم اور بھی ہے۔
خلیات میں اس عمل کو سمجھنے کے لئے بائیولوجسٹس کے پاس جو ٹول ہے وہ ریاضی کی گرہ کی تھیوری ہے اور اس عمل میں خلل ڈال کر کینسر کے خلیات کا خاتمہ اور جراثیم سے ہونے والی انفیکشن کو روکنے والی ادویات بنی ہیں۔
گرہوں کی اس تھیوری کا اطلاق نہ صرف بائیولوجی میں بلکہ کئی اور جگہوں پر ہے۔ سٹرنگ تھیوری اس کے بغیر کچھ معنی نہیں رکھتی اور کوانٹم فیلڈ تھیوری میں بھی اس کا کئی جگہ پر استعمال ہے۔
خلیاتی تقسیم کی دلچسپ ویڈیو یہاں سے دیکھیں
ناٹ تھیوری اور مالیکیولر بائیولوجی کا آپس میں رشتہ دیکھے کے لئے
ڈی این اے کو کھولنے اور بند کرنے کے عمل میں رکاوٹ ڈال کر بننے والی ادویات