فزکس کا لیکچر سنتے ہوئے بوریت ہو رہی ہے تو کاغذ لے کر اس کا جہاز بنائیں اور ٹیچر کی طرف پھینکیں۔ اگر ٹیچر ناراض ہونے لگیں تو انہیں بتائیں کہ یہ سائنس کا تجربہ تھا اور ایروڈائنمکس سمجھنے کے لئے تھا اور ان سے اس پر ڈسکشن شروع کر لیں۔ تھوڑی ہی دیر میں پتہ لگے گا کہ اس کی فزکس آسان نہیں تھی اور کافی امکان ہے کہ فزکس کے ٹیچر خود بھی پوری تفصیل نہ جانتے ہوں کیونکہ ہمیں خود اس کے اصولوں کا مکمل علم سپرسونک جہازوں سے پہلے نہیں تھا۔
کلاسیکل مکینکس کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک مظہر کے پیچھے کئی عوامل کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کس کو نظرانداز کیا جائے اور کونسا اہم ہے، یہ ٹھیک سے جاننا ضروری ہے اور یہ سمجھ درست نہ ہونا اس میں کنفیوژن کا باعث بنتا ہے۔ کسی ایک مظہر کے پیچھے کونسا پیٹرن ہے اور کس کی ایپروکسیمیشن لی جائے، یہ اس کلاسیکل مکینکس کا بڑا چیلنج ہے۔
اگر آپ زمین پر کھڑے ہیں تو گریویٹی ایک قوت ہے، چلتی ہوا ایک اور، اسی طرح کئی قوتیں اثر انداز ہو رہی ہیں لیکن اس سکیل پر گریویٹی غالب ہے۔ سائز چھوٹا کرتے جائیں، گریویٹی کا اثر کم ہوتا جائے گا اور دوسرے فیکٹر زیادہ اہم ہوتے جائیں گے۔
خلائی شٹل کا راستہ ڈیزائن کرنا ہو یا اس چیز کا جواب جاننا کہ اگر کسی اور سیارے پر زندگی ہوئی تو کس طرح اور کی ممکن ہے، ان سب کے لئے بھی اس ہائیرارکی کو جاننا ضروری ہے۔
اب واپس کاغذ کے جہاز کی طرف۔ اس کے سفر کا انحصار اس کے وزن، ہوا، شکل جیسی چیزوں پر ہے اور تین قوتیں جو یہ طے کریں گی کہ اس کا راستہ کونسا ہو گا، وہ ڈریگ، لفٹ اور گریویٹی ہیں۔ تفصیل نیچے دئے گئے لنک سے جو ناسا کی ویب سائٹ کا ہے اور کاغذ کے جہاز کی فزکس کا بتاتا ہے۔
نوٹ: شروع میں دیا گیا تجربہ کرنے سے پہلے ٹیچر کا مزاج اور موڈ جاننا ضروری ہے، نتائج کی ذمہ داری پوسٹ لکھنے والے کی نہیں۔