ایک نے ایک بلاَّ اور ایک گیند خریدے۔ کل قیمت 110 روپے تھی۔ بلّے کی قیمت گیند سے 100 روپے زیادہ ہے۔ گیند کی قیمت کتنی ہے؟
جواب سے پہلے ایک کہانی۔ جرمنی کے شہر کولن میں ہونے والے مشہور پیانو بجانے والے موسیقار کیتھ جیرٹ نے پرفارم کرنا تھا۔ جیرٹ اپنے تھکا دینے والے ٹور کے آخر میں تھے اور لمبا سفر کر کے ہال میں داخل ہوئے۔ پیانو کو دیکھا تو پریشان ہو گئے۔ اصل کے بجائے ایک پریکٹس کرنے والا پیانو رکھا تھا۔ کئی کیز خراب تھیں۔ آواز اونچی نہیں تھیں۔ پیڈل پھنستے تھے۔ رات گئے اور بارش میں نیا پیانو لانا ممکن نہیں تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا تھا۔ جیرٹ نے باہر کا راستہ لیا۔ آرگنائزر بڑی منت سماجت سے انہیں گاڑی کے دروازے سے واپس لے کر آئے۔
رات ساڑھے گیارہ شو کا آغاز ہوا۔ پہلے چند سیکنڈ کے بعد سامعین کی طرف سے ہنسی بلند ہوئی۔ بجائی جانے والی دھن وہ نہیں تھی جو وہ جیرٹ سے سنتے آئے تھے کیونکہ پیانو ہی مختلف تھا۔ پھر ہال میں یہ موڈ بدلنا شروع ہو گیا۔ کیتھ جیرٹ کی یہ ایک گھنٹے سے زیادہ جاری رہنے والی پرفارمنس اس قدر حیرت انگیز تھی کہ کولن کنسرٹ آج تک دنیا میں سب سے زیادہ بِکنے والا پیانو کا البم ہے جس کی پینتیس لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
ایسا کیوں ہوا؟ کیتھ جیرٹ زبردست موسیقار تھے لیکن ان کی اس منفرد پرفارمنس کی وجہ ان کو درپیش مشکل چلینج تھا۔ کچھ کیز وہ استعمال نہیں سکتے تھے تو امپرووائز کرنا تھا۔ آواز کم تھی تو زور زیادہ لگانا تھا۔ اس زور سے ان کی جسم کی موومنٹ بدل گئی جو توانائی سے بھرپور تھی۔ پورا عمل ایک پہلے سے مسلسل کی جانے والی پریکٹس کو دہرانے سے بدل کر تخلیقی ہو گیا اور شائقین کو وہ سننے کو ملا جو انہوں نے کبھی پہلے نہیں سنا تھا۔ جیرٹ کی اس وقت کی یہ کمزوری ہی ان کی طاقت بن گئی۔
ہمارے دماغ کا گہری سوچ والا اور تخلیقی حصہ مشکل وقت میں ایکشن میں آتا ہے ورنہ اسے سوئے رہنا زیادہ پسند ہے۔ جب تک ہم کسی ایسی حالت میں نہیں جاتے جس میں ہمیں مشکل کا سامنا ہو تو ہماری اصل صلاحیت اجاگر نہیں ہوتی۔ جو طلباء ہیں ان کے لئے اس میں یہ کہ کوئی نئی چیز اس وقت تک صحیح طرح سمجھ نہیں آتی جب تک دماغ پر زور نہ ڈالا جائے۔ اسی وجہ سے اب دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں لیکچر دے کر پڑھانے کا طریقہ پسِ منظر میں جا رہا ہے کیونکہ اس میں طلباء کے لئے توجہ کھو دینا آسان ہے۔ اس کے مقابلے میں ورکشاپس اور مشکل چیلنج دے کر سکھانے کا طریقہ زور پکڑ رہا ہے جو طلباء کو شاید پسند نہ آتا ہو لیکن سیکھنے کا یہ بہتر طریقہ ہے۔
اگر کوئی بھی کام مشکل لگے یا کوئی بھی چیز سیکھنا تو یاد رکھیں کہ آگے بڑھنے اور کچھ حاصل کر لینے کے لئے سب سے زیادہ مواقع اسی صورتحال میں ہیں، ورنہ مسلسل آسانیاں بالآخر زندگی کو دشوار بنا دیتی ہیں۔
اب پہلے دیے گئے سوال پر۔ یہ سوال طلباء کے ایک گروپ کو دیا گیا جس میں زیادہ تر نے اس کا غلط جواب دیا۔ دوسرے گروپ کو یہی سوال خراب لکھائی میں دیا گیا۔ اس کو پڑھنا مشکل تھا اور پڑھنے میں توجہ اور زور لگتا تھا۔ دوسرے گروپ میں اس کا ٹھیک جواب دینے والوں کا تناسب بہت زیادہ تھا کیونکہ دماغ کا توجہ دینے والا حصہ کام کرنا شروع ہو گیا تھا۔ اب ذرا توجہ اس سوال کو پڑھ کر اس کا جواب دوبارہ دیں۔ ہو سکتا ہے کہ پہلی بار جلدی میں آپ نے اسے غلط کر دیا ہو۔