کبھی سنگ دِل محبوب سے نرم دِلی کی توقع رکھنے والے زخمی دِل شاعر کی دِل کو چھو لینے والی شاعری پڑھنے کا دِل کرتا ہو گا۔ زبان اور گفتگو میں پوری دنیا میں دِل کو جذبات کا مرکز سمجھا جاتا رہا ہے۔ دماغ تو کھوپڑی کے بیچ سخت خول میں بند کسی قسم کا باہری پیغام نہیں دیتا مگر سینے میں لگا دِل دھڑکن سے اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ کبھی کسی کے سامنا ہونے پر بے ترتیب ہو جانے والی دھڑکنیں، کبھی مدہم ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ زندگی کا گُل ہوتا چراغ۔ ان مشاہدوں کی وجہ سے ایسا ہماری روزمرہ گفتگو کا حصہ بن گیا۔
کسی کو دیکھ کر تیز ہو جانے والی دھڑکنوں یا الفاظ کا ساتھ چھوڑ جانے کی وجہ کو بدذوق لوگ ایڈرنلین رَش قرار دیتے ہیں لیکن ابھی بات اس کے ایک اور پہلو کی۔ اگر آپ نے کبھی یہ (❤️) نشان دیکھا ہے تو ذہن میں کیا آیا؟ اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ محبت کا نشان ہے یا دِل کا نشان ہے تو ایسا کیوں؟ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ دِل کی شکل ایسی نہیں۔ انسان کو دل کی شکل قدیم زمانے سے معلوم ہے۔ (تمام ممالیہ کے دِل کی شکل ایک ہی جیسی ہے تو دِل کی شکل کا مشاہدہ تو زراعت سے پہلے بھی معمول کی بات تھی)۔ لیکن اس نشان کو دنیا بھر میں دیکھنے والے سمجھ لیتے ہیں۔ اس قسم کی علامات آئیڈیوگرام کہلاتی ہیں۔
موجودہ لیبیا کے ساحلی علاقے پر القیروانی آباد تھا۔ یہاں پر قدیم یونانی سلطنت کی حکومت تھی۔ یہاں پر ایک پودا سیلفیوم اُگا کرتا تھا جس کی اپنی خاصیتوں کی وجہ سے بڑی اہمیت تھی۔ ان میں سے ایک خاصیت اس کا مانع حمل ہونا بھی تھا جس کی وجہ سے اس کو استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کا بیج اس شکل کا تھا جو آج دِل کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ اس پودے کی اہمیت اس قدر تھی کہ القیروانی میں چلنے والے چاندی کے سکوں پر اس پودے اور اس کے بیجوں کی تصاویر بنائیں گئیں۔
اس شکل کا تعلق محبت سے، قربت سے اور پھر دِل سے بنا۔ صدیاں گزریں، اپنے زیادہ استعمال اور قحط پڑنے کی وجہ سے نہ ہی یہ پودا رہا، نہ ہی یونانی سلطنت بچی۔ نشان اور اس کے ساتھ جُڑا مطلب رہ گیا۔ لیبیا سے شروع ہوئے اس نشان نے عرب کا رُخ کیا اور پھر اس سے آگے یورپ کا۔ یہ ہمیں بصرہ کے الحریری کی کتاب گیارہویں صدی میں لکھی کتاب میں نظر آتا ہے جب بنائی گئی تصویر میں جُدا ہوتے لوگوں کے پس منظر میں کا اسی طرح کا نشان بنا ہے۔ 1250 میں لکھی فرانسیسی کہانی میں محبوب کو اسی شکل کا دِل پیش کرتے دکھایا گیا ہے۔
کتابیں عام ہوتے جانے کے بعد یہ نشان پھر کئی دوسری جگہ پر اس علامت کے طور پر نظر آنا شروع ہو گیا۔
نہ یہ نشان خود دِل کی شکل کا ہے، نہ دِل کا تعلق محبت سے ہے لیکن کسی وقت میں لیبیا کے ساحل پر اُگنے والے پودے کے بیج کا شکل آج محبت کا عالمی نشان بن چکا ہے۔ کسی موقع پر اپنے شریکِ حیات کو اس شکل کا تحفہ دینا والا ہو یا فیس بُک پر کسی چیز کو دیکھ کر پسندیدگی کا اظہار کرنے کے لئے اس علامت پر کلِک کرنے والا، اس کا مطلب صرف محبت ہے، اس کے پیچھے تاریخ کچھ بھی ہو۔
خیالات کو شکلوں کی صورت میں بنانا اور دوسروں تک پہنچانا وہ اہم قدم تھا جس سے تاریخی طور پر لکھائی کی ابتدا ہوئی۔ ابتدائی لکھائی لوگوگرافک تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ لفظ یا جملے کو کسی شکل کی مدد سے بیان کیا جاتا تھا۔
دوسری تصویر قدیم یونانی دور میں القیروانی میں چلنے والے چاندی کے سکے کی
تیسری وکٹورین عہد کے ایک کارڈ کی