پہلے کچھ بات ارتقا پر۔ کچھ سوال دیکھ لیں۔
وہ جزیرے جو دنیا سے الگ ہیں، وہاں پر ایسے پودے، کیڑے اور دوسرے جاندار پائے جاتے ہیں جو وہیں سے خاص ہیں اور یہ باقی دنیا میں نہیں۔ ایسا کیوں؟
اینٹی بائیوٹکس ادویات کیوں غیر موثر ہو جاتی ہیں؟
سائنسدانوں کے چوہوں پر کئے گئے تجربات کے نتائج سے ہمیں انسانوں کی زندگی کے رازوں کا کیسے علم ہو جاتا ہے؟
زندگی اس قدر دلچسپ و عجیب، خوبصورت، رنگوں اور خوشبوؤں سے بھری کیسے ہے؟
یہ اور اس طرح کے بہت سے اور سوالات کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے ارتقا۔ یہ وہ تصور ہے جو بائیولوجی کے علم کی بنیاد ہے اور اس کے بغیر ہماری اب تک کی بائیولوجی کی سائنس کی کوئی تک نہیں بنتی۔ اس کے بغیر مائیکروبائیولوجست، اینٹامولوجسٹ، بوٹنسٹ شاید اپنا کچھ کام کر لیں لیکن بائیولوجی کی سائنس کو جوڑنے والی زنجیر نہیں بچتی۔
ارتقا خود ہمارے علم کا ایک بڑا شعبہ ہے اور ارتقائی بائیولوجی کی اپنی بہت سی ذیلی شاخیں ہیں جن پر ساری دنیا میں کام ہو رہا ہے۔ ان میں ارتقائی ایکولوجی، ارتقائی نفسیات، ارتقائی نیوروسائس، مقابلیاتی اناٹومی، ارتقائی کمپیوٹیشن، پاپولیشن جینیٹکس، سیلیکٹو بریڈنگ جیسے سائنس کے شعبے آ جاتے ہیں۔
ایک نظر ارتقائی جینیات پر ہونے والے کام کی۔ یہ خلاصہ ہے پروفیسر ایفا مکلیسگٹ کی تحقیق کا ان کے کاپی نمبر ویری ایشن کے بارے میں دئے گئے لیکچر سے۔ انہوں نے اپنی تحقیق کا آغاز پندرہ سال قبل انسانی جینوم کے پراجیکٹ سے ملنے والے نتائج کے تجزیے سے کیا۔
سمندر کی تہوں کے آتش فشاں میں بسنے والے بیکٹیریا ہوں، کالونی میں کام کرنے والے چیونٹیاں، چیونٹیوں کو قابو کر لینے والی فنگس یا پھر ان سب کے اسرار جانتا انسان، زندگی کی کنجی جینیات میں ہے اور زندگی کے مختلف روپ جوڑنے والی زنجیر کے کام کرنے کا طریقہ ایک ہی ہے۔ ہر جاندار کے پاس ڈی این اے ہے جو ایک ہی طرح کا ہے اور اس کے کام کرنے کا میکنزم بھی ایک ہی ہے۔ جیسے ہم فزکس میں ایٹمز دیکھ کر ہزاروں مختلف مظاہر کو سمجھ لیتے ہیں، ویسے زندگی کو دیکھنے کا طریقہ جینیات ہیں اور یہیں پر ہے زندگی کی چابی اور ارتقا کا میکنزم۔
جین خود کیا ہے؟ اس کو دیکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ یہ ڈی این اے کا ایک ٹکڑا ہے جو پروٹین بناتا ہے۔ پروٹین ہمارے پورے جسم میں ہیں۔ جیسے ہمارے بالوں یا ناخنوں میں کیراٹن ہے۔ اس پروٹین کو بنانے والی اپنی جین ہے۔ اسی طرح خون میں ہیموگلوبن ہے جسے بنانے کے لئے دو جینز ہیں۔ انسولین کو بنانے کے لئے اک اور جین ہے۔ پروٹینز ہمارے جسم کو چلاتی ہیں جبکہ ان کو بنانے والا سکرپٹ جینز میں لکھا ہے۔ اب جینز کے اندر چلتے ہیں۔ زندگی کی کتاب خود چار حروفِ تہجی سے لکھی ہے۔ جین کی پیچیدگی ایک طرف رکھ کر اگر سادہ سی تصویر بنانی ہو تو کچھ اس قسم کی ہو گی جو کہ ساتھ لگی ہے۔ یہ ان چار حروفِ تہجی کا ایک خاص ترتیب میں ملاپ ہے، ساتھ ہی اس میں کچھ وقفے ہیں۔ شروع اور ختم ہونے کے سگنل اور پھر کچھ اضافی معلومات۔ یہ بنائی جانے والی پروٹین کا سکرپٹ ہے۔ ہمارے جسم کے ہر خلیے میں یہ سکرپٹ بالکل ایک ہی طرح کا ہے اور وہ ہے اس پہلے خلیے کی طرح جو زندگی کا بیج تھا۔ ہماری زندگی کی مختلف سٹیجز میں، بدلتے ماحول میں اور جسم کے مختلف اعضاء میں یہ سوئچ حالتیں بدل کر اس نظام کو قائم رکھے ہیں۔ جینز خاصی پیچیدہ ہیں لیکن بنیادی بلاک چار حروفِ تہجی ہیں۔ یعنی ڈی این اے کوڈ بہت لمبا تو ہے مگر سادہ بھی اور اس کی کیمسٹری کی سادگی زندگی کا سٹرکچر ہے۔ اس کے اپنے میسج کی پیچیدگی کے باوجود جینز کی اپنی کاپی کی تیاری آسان ہے۔ انسانی جینوم کے پراجیکٹ کے نتیجے میں ہم نے اس سٹرکچر کے اصولوں کو سمجھ لیا تھا۔ اس کا ڈبل ہیلکس سٹرکچر اپنے اندر کاپی تیار کرنے کا طریقہ بھی رکھتا ہے جس کی وجہ اس کی سمٹری میں ہے۔ سیڑھی میں اے ہمیشہ ٹی کے ساتھ اور سی ہمیشہ جی کے ساتھ ہے۔ جب اس کو دو حصوں میں توڑا جائے تو صرف آدھی سیڑھی سے اس کا دوسرا حصہ بنایا جا سکتا ہے خواہ وہ کتنا ہی لمبا یا پیچیدہ کیوں نہ ہو۔ اور یہ سٹرکچر ہے زندگی کا راز جو ممکن کرتا ہے خلیاتی تقسیم کو بلکہ زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھی۔
یہ تببدیلیاں ہوتی کیسے ہیں؟ تقسیم ہوتے وقت اربوں حروف نے کاپی ہونا ہے۔ یہ عمل مسلسل جاری ہے مگر آئیڈیل نہیں۔ بعض اوقات جینز کی اضافی کاپیاں بھی بن جاتی ہیں جس کا مشاہدہ عام ہے۔ دو کاپیاں بننے کا یہ طریقہ زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کا خام مال ہے۔ جب ہم انسانی جینوم دیکھتے ہیں تو ہمیں اس طرح کی ڈپلیکیشن بہت نظر آتی ہے اور یہ بڑی اہم ہے۔ مثلا، سونگھنے کے لئے نو سو جینز ہیں۔ ان کا اپنا سٹرکچر یہ بتاتا ہے کہ یہ ایک جین کی ہونے والی اضافی کاپیاں ہیں جن میں انتہائی معمولی فرق ہیں۔ ان سے ہمیں قسم قسم کی خوشبو کا پتا لگتا ہے۔ ان میں سے چار سو اب فنکشنل نہیں۔ جب ہم دوسرے میملز کو دیکھتے ہیں تو ان کے قوتِ شامہ کی جینز بھی اسی طرح ہیں جن کا ان کی حس پر کنٹرول اس طرز پر ہے اور ان میں بہت سے جینز بالکل ایک ہی ہیں۔ جین کی یوں بننے والی اضافی کاپیاں ہیں اور ان میں ہونے والی تبدیلیوں کے طریقے کا نام کاپی نمبر ویری ایشن ہے۔ جب ہم بصارت کو دیکھیں یا خون کا نظام، وہاں بھی جینیات ہمیں اس کاپی نمبر ویری ایشن کا ہی اشارہ کرتی ہیں۔
جین کا دہرائے جانے کے عمل سے ہمارے جینوم میں اہم جینز کا اضافہ بھی کرتا ہے۔ تقسیم کے دوران رونما ہونے والی کچھ تبدیلیاں ایسی ہیں کہ نیا خلیہ زندہ نہیں رہ سکتا لیکن اگر یہ تبدیلی ایسی جگہ پر ہو جہاں زندگی برقرار رہے تو پھر یہ اگلی کاپی میں آ جائیں گی۔ مثال کے طور پر جب ہم ہیموگلوبن کو مختلف جانداروں میں دیکھیں تو آکسیجن لے جانے والا حصہ بالکل ایک ہے کیونکہ اس کے بغیر زندگی نہیں اور یہ کروڑوں سال میں بھی نہیں بدلا لیکن کئی اور علاقے ہیں جن میں فرق نظر آتے ہیں۔ یعنی جین کا وہ حصہ جو ہیموگلون کے آکسیجن لے جانے والے حصے کا پیٹرن بناتا ہے، ہر قسم کے جانور میں بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ ساتھ منسلک ہیموگلوبن کی ڈایاگرام کے بیچ والے حصے میں۔ لیکن اس کے علاوہ ویری ایشنز ملیں گی۔ یعنی اہم حصے میں ہونے والی تبدیلی برقرار نہیں رہے گی جبکہ اس کے علاوہ تبدیلیاں مسلسل ممکن ہیں جن کا زندگی کی مختلف قسمیں میں اظہار مختلف طریقے سے نظر آئے گا۔
ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں کی اپنی تاریخ پچاس کروڑ سال پرانی ہے اور یہ خود بہت فرق طرح کے ہیں۔ اس قدر فرق کا خام مال کہاں سے آتا ہے۔ اس پر ایک خیال سسومو اوہنو نے پیش کیا کہ اس کے پیچھے جین کی ایک ایک کر کے ڈپلیکیشن نہیں بلکہ یہ پورے کے پورے جینیٹک کوڈ کی کاپی کی وجہ سے ہے۔ ایسا آسانی سے ہو سکتا ہے۔ یعنی مادہ اور نر سیل سے آنے والا مادہ تقسیم ہوئے بغیر آ جائے۔ اس طریقے سے یکایک خام مال بہت سا مل جائے گا اور یہ جین کی ایک ایک کر کے ہونے والی ڈپلیکشن کی نسبت تبدیلی کا طاقتور طریقہ ہے۔ انسانی جینوم پراجیکٹ پر ہونے والے تجزئے نے اوہنو کے پیش کردہ خیالات کو سپورٹ کیا ہے۔
لیکن یہ سب ماضی ہے۔ ارتقائی جینیات سے حاصل ہونے والے علم کو لے کر اب آج کی دنیا میں دیکھتے ہیں۔ دنیا میں ہر شخص مختلف ہے اور یہ فرق جینز میں ملتا ہے اور نہ صرف حروفِ تہجی مختلف ہونے کا ہے بلکہ جینز کی کاپیوں کی تعداد کا بھی۔ تقسیم ہوتے ہوئے خلیوں میں یہ تبدیلیاں آ جاتی ہیں اور جینیاتی تنوع کی سب سے عام قسم ہی یہ اضافی کاپیاں ہیں۔ ایک ہی جین کی کاپیوں کی تعداد ہر شخص میں مختلف ہو سکتی ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی میوٹنٹ ہے۔ ہمارے نظام میں اتنی برداشت ہے کہ عام طور پر اس سے فرق نہیں پڑتا۔ صحت مند لوگوں میں بھی یہ تنوع بہت ہے لیکن یہ تقسیم میں ہونے والی یہ تبدیلی بعض اوقات خطرناک نتائج کا باعث بنتی ہے۔ ڈاؤن سندروم، پارکنسن، آٹزم، الژائمر یا کینسر جیسے بیماریوں کے پیچھے جینز میں اسی طرح کے فرق ہوتے ہیں۔ کروموزوم اکیس کی دو کاپیوں سے ڈاؤن سنڈروم ہوتا ہے۔ ایک جین ہے جس کی کاپیاں دو سے زائد ہو جائیں تو پارکنسن جلد ہونے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔ ارتقائی جینیات پر ہونے والی تحقیق کو سمجھ کر ہم ان بیماریوں اور وجوہات کو آہستہ آہستہ اب بہتر سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔
اس موضوع پر پروفیسر ایفا مکلیسگٹ کا لیکچر، انہی کی زبانی دیکھنے اور اس بارے میں زیادہ تفصیل سے جاننے کے لئے۔
(منسلک ڈایاگرامز بھی انہی کے لیکچر سے لی گئی ہیں)۔