کروڑوں سال سے خول والے جاندار مرنے کے بعد زمین کا حصہ بنتے گئے، ان کی تہیں زمین کی کرسٹ کی حرکت سے حرارت اور پریشر کے زیرِ اثر کمپریس ہو گئیں۔ پتھر کی صورت میں آ گئیں۔ یہ چونے کے پتھر میں پایا جانے والا کیلشئیم کاربونیٹ ہے۔ اس کے علاوہ زمین کی کرسٹ میں سب سے زیادہ پایا جانے والا ایک اور پتھر سلیکیٹ ہے جو سلیکون اور آکسیجن کے ملاپ سے بنا ہے۔ یہ دونوں پتھر مل کر بستیوں کی تعمیر کے میٹیرئل بنیادی جزو ہیں۔
اگر ان پتھروں کو پیس کر پانی کے ساتھ مکس کر دیں گے تو فائدہ نہیں۔ ہمیں سب سے پہلے ان کو اپنے کیمیائی بانڈ سے آزاد کرنا ہے۔ یہ کام آسان نہیں کیونکہ یہ بہت مستحکم ہیں۔ یہ پتھر آسانی سے گھلتے نہیں اور ری ایکٹ نہیں کرتے، ہر قسم کے موسم میں کروڑوں سال قائم رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کی سطح پر پائے جاتے ہیں۔ ان کا یہ بانڈ توڑنے کیلئے ہمارے پاس ایک حربہ ہے۔ 1450 ڈگری کا درجہ حرارت۔ کوئلے یا لکڑی سے لگائی گئی آگ کا درجہ حرات چھ سو سے آٹھ سو ڈگری سے زیادہ تک نہیں پہنچتا۔ اس وجہ سے اس کے شعلے سرخ یا پھر زرد نظر آتے ہیں۔ یہاں پر اس سے زیادہ درجہ حرارت چاہیے۔ 1450 ڈگری کی آگ بالکل سفید ہوتی ہے۔ شعلوں میں سرخی یا زردی کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ کہیں پر نیلے رنگ کی ایک جھلک۔ اتنی روشن کہ اس کو دیکھنا تکلیف دہ لگتا ہے۔
اس درجہ حرارت پر پتھر کا سٹرکچر ٹوٹنا شروع کر دیتا ہے اور یہ دونوں پتھر مل کر ایک اور شے بنانے لگتے ہیں جو کیلشیم سلیکیٹ کی فیملی ہے۔ فیملی اس لئے کہ تھوڑی بہت دوسری چیزوں کی موجودگی بڑا فرق ڈال دیتی ہے۔ کنکریٹ بنانے کیلئے وہ پتھر جادوئی اجزاء ہیں جن میں ایلومینیم اور لوہا زیادہ ہو، لیکن صحیح تناسب میں۔
جب یہ ٹھنڈا ہو گیا تو اس سے ایک بڑا ہی خاص چاند کے رنگ کا، یعنی ہلکا گرے پاوٗڈر بن گیا۔ اگر اس میں اپنا ہاتھ ڈالیں گے تو اس کی ریشمی اور راکھ جیسی ساخت محسوس کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ ناگوار سا لگے لیکن ہاتھ خشک محسوس کریں گے۔ یہ بہت ہی خاص میٹیرئل ہے لیکن اس کا نام خاصا بورنگ ہے۔ اس کو سیمنٹ کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر اس میں پانی ڈالیں تو یہ اس کو آسانی سے چوس لے گا اور اس کا رنگ گہرا ہو جائے گا۔ لیکن ایک کیچڑ بن جانے کے بجائے، اس میں کئی کیمیکل تبدیلیاں ہوں گی اور ایک جیل سا بن جائے گا۔ نیم ٹھوس اور ہلتا جلتا سا میٹیریل، جیسے ٹوتھ پیسٹ ہو۔ یہ کسی مائع کی طرح چھینٹے نہیں اڑائے گا کیونکہ اس کا ایک اندرونی ڈھانچہ ہے جو اس کو بہنے سے روکتا ہے، ویسے ہی جیسا کہ جیلی میں یہ کام جیلاٹن کرتا ہے۔ سیمیٹ میں یہ ڈھانچہ کیلشئم سلیکیٹ ہائیڈریٹ فبرلز کا ہے جو کرسٹل کی طرح کا سٹرکچر بناتا ہے۔ یہ پانی میں حل ہو جانے والی کیلشئم اور سلیکون کے مالیکیولز سے بڑھتی ہیں۔ اس جیل کا سٹرکچر جامد نہیں، تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
فبرلز کے ریشے بڑھتے ہیں اور مل جاتے ہیں، ایک دوسرے سے بانڈ بناتے ہیں اور ان میں زیادہ پانی قید کر لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ پورا سٹرکچر جیل سے ٹھوس چٹان جیسے میٹیرئل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کے ریشے نہ صرف ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں بلکہ دوسرے پتھروں اور چٹانوں سے بھی۔ اسی وجہ سے یہ اینٹیں جوڑ کر گھر بنا سکتا ہے۔ پتھر جوڑ کر یادگاریں تعمیر کی جا سکتی ہیں۔ یہ ریشے شہروں کو بنانے والی گوند بن جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے درمیان اب چھوٹے پتھر ڈال دیں جو اس سب کے اندر اینٹوں کا کام کریں گے تو اب ہمیں کنکریٹ مل گئی۔ یہ تعمیراتی میٹیرئل بن گیا۔ موسمی حالات، قدرتی آفات، کٹاوٗ، شکست و ریخت اور ٹوٹ پھوٹ سے لمبے عرصے تک محفوظ رہنے والا میٹیریل۔ عمارتیں، پُل، ڈیم، ائیرپورٹ، سٹیڈیم، گنبد، مینار اور ہمارا تمام انفراسٹرکچر اس کے سہارے کھڑا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسا کسی بھی کیمیکل ری ایکشن کے ساتھ ہے، ان کے اجزاء کا تناسب آگے پیچھے ہو جائے تو سب گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ اگر کنکریٹ میں پانی ضرورت سے زیادہ ڈال دیا جائے تو کیلشیم سلیکیٹ اتنئے زیادہ نہیں ہوں گے۔ ان کے ریشوں کی تعداد کم ہو گی۔ پانی ان سٹرکچرز میں رہ جائے گا اور اس کو کمزور کر دے گا۔ اگر پانی ضرورت سے کم ڈالا جائے تو اضافی سیمنٹ رہ جائے گا جس نے ری ایکٹ نہیں کیا ہو گا اور اس سے بھی سٹرکچر کمزور ہو جائے گا۔ عام طور پر ایسا انسانی غلطی کی وجہ سے ہوتا ہے، جو کنکریٹ کو کمزور کر دیتا ہے۔
ایسی کمزور کنکریٹ پہچانی نہیں جاتی لیکن معماروں کے چلے جانے کے برسوں بعد بھی اپنا اثر دکھا سکتی ہیں۔ ایک زلزلہ آتا ہے اور گرنے والی عمارتیں وہ ہوتی ہیں جہاں کی تعمیر غیرمعیاری ہو اور کنکریٹ کی کوالٹی خراب ہو۔ برسوں تک کنکریٹ اپنی کمزوریوں کو چھپائے رکھتی ہے۔ کنکریٹ کے اس طرح بننے والے بم دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔