تعمیر کیلئے استعمال ہونے والا ایک میٹیریل اینٹ ہے۔ اینٹ کا ڈئزان اس طرح کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ہاتھ میں آ سکے۔ اس کے لئے ایک دوسرا میٹیریل کنکریٹ ہے جو بنیادی طور پر ہی مختلف ہے۔ کنکریٹ اپنی زندگی ایک مائع کے طور پر شروع کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمارتیں انڈیلی جا سکتی ہیں۔ اور اس طرح بغیر جوڑ کے ایک مسلسل سٹرکچر بن جاتا ہے۔ بنیاد سے لے کر چھت تک۔
کنکریٹ انجینیر کی منترا ہے کہ اگر آپ کو بنیاد بنوانی ہے تو یہ بنیاد انڈیل دیں گے۔ اگر ستون بنوانے ہیں تو ستون انڈیل دیں گے۔ فرش چاہیے تو فرش انڈیل دیں گے۔ سائز دگنا چاہیے؟ کوئی مسئلہ نہیں۔ خمدار بنوانا ہے؟ کوئی مسئلہ نہیں۔ سانچہ بنا لیں، سٹرکچر بن جائے گا۔ کسی زیرِتعمیر سائٹ پر یہ ہوتے دیکھنا بھی مسحور کُن ہے۔ کسی بلند عمارت کی تعمیر میں بنیادوں سے اُگنے والے عمارت جسے انسانی چیونٹیاں انڈیل کر وجود میں لا رہی ہیں۔ پاوٗڈر بنی چٹانیں اور پتھر سائٹ پر پہنچتے ہیں۔ پانی کا اضافہ کیا جاتا ہے اور واپس چٹان بن جاتے ہیں۔ یہ انجنیرنگ کی تکنیک ہی نہیں، ایک فلسفہ ہے۔ ایک چکر ہے۔ زمین کا مینٹل چٹانیں اور پتھر پہاڑوں کی صورت میں کھڑے کرتا ہے۔ انسان اس کو کاٹ لیتے ہیں اور پھر اپنے لئے ان کے مصنوعی پہاڑ کھڑے کر دیتے ہیں۔ اپنے ڈئزائن والے پہاڑ اور پھر اس میں رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی میٹیرئل دو طریقے سے ٹوٹتا ہے۔ ایک، پلاسٹک کی طرح۔ یہ ویسا ہی جیسے چیونگم کو کھینچ کر توڑا جاتا ہے۔ میٹیریل بہتا ہے اور درمیان سے پتلا ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ دو الگ حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ دھاتیں اس طریقے سے ٹوٹتی ہیں۔ لیکن ان کو بہنے کیلئے توانائی خاصی چاہیے اس لئے مضبوط ہوتی ہیں۔ ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ درمیان میں کریک آ جائے۔ چائے کا کپ یا شیشہ اس طرح ٹوٹتا ہے۔ یہ سٹریس کی وجہ سے بہہ نہیں سکتا، اس لئے ایک کمزوری دراڑ کی صورت میں آ جاتی ہے اور پھر یہاں سے یہ چٹخ جاتا ہے۔ کنکریٹ کے ٹوٹنے کا طریقہ دوسرا ہے۔ چھوٹی سی پڑنے والی دراڑ سٹرکچر گرا دیتی ہے۔
دیورایں، فرش، سرنگیں، پُل، ڈیم بنانے کیلئے اس کمزوری کا حل چاہیے تھا۔ یہ دھات اور پتھر کے ملاپ سے ممکن ہوا اور یہ حل بڑی ہی غیر متوقع جگہ سے آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوزف مونئے پیرس میں ایک باغبان تھے جن کا ایک بزنس گملے بنانا تھا۔ 1867 میں یہ مٹی کے گملے مضبوط نہ تھے۔ خاص طور پر بڑے سائز کے گملے نہ صرف کمزور تھے بلکہ مہنگے بھی۔ اس وقت بڑے سائز کے ٹراپیکل پودے گلاس ہاوٗس میں لگانے کا رواج مقبول ہوا تھا جس کیلئے بڑے گملوں کی ضرورت تھی۔ ایک حل کنکریٹ کے گملے بنانا تھا۔ کنکریٹ سے گملے بنانا آسان بھی تھا اور سستا بھی۔ کیونکہ ان کو بھٹی میں گرم نہیں کرنا پڑتا تھا۔ لیکن ٹینشن میں یہ کمزور تھے اور مٹی کے گملوں سے زیادہ پائیدار نہ تھے۔
جوزف نے جو حل نکالا، وہ یہ کہ کنکریٹ کے درمیان سٹیل کے لوپ ڈال دئے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ سیمنٹ ان کے ساتھ جوڑ بنائے گا بھی یا نہیں۔ یہ عین ممکن تھا کہ کنکریٹ سٹیل پر ویسے تیرتی رہے جیسا کہ پانی پر تیل۔ لیکن نہیں، کنکریٹ کے ریشے سٹیل کے ساتھ بھی ویسے چپک گئے جیسا کہ پتھر کے ساتھ چپکتے ہیں۔
کنکریٹ پتھر کی طرح ہے۔ اس سے بنتی ہے، اس جیسی خاصیتیں رکھتی ہے۔ لیکن سٹیل کے ساتھ ری انفورس کی گئی کنکریٹ بنیادی طور پر ہی فرق شے ہے۔ کوئی بھی قدرتی میٹیریل ایسا نہیں۔ ری انفورسڈ کنکریٹ پر جب سٹریس پڑتا ہے تو سٹیل کا اندرونی سٹرکچر اس سٹریس کو جذب کر کے دراڑ پڑنے سے روک لیتا ہے۔ یہ دو میٹیرئلز کا ملاپ ہے۔ کنکریٹ کو ایک ملٹی پرپز تعمیراتی میٹیریل میں تبدیل کر دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس چیز کا جوزف کو اس وقت معلوم نہیں تھا، وہ اس کی کامیابی بنی تھی۔ میٹیریل جامد اشیاء نہیں۔ ماحول کے مطابق ردِعمل دیتے ہیں۔ خاص طور پر درجہ حرارت سے۔ سردی میں سکڑ جاتے ہیں، گرمی میں پھیل جاتے ہیں۔ ہماری عمارتیں، سڑکیں اور پل اسی طرح پھیلتے اور سکڑتے ہیں۔ دن اور رات کے درجہ حرارت کے سائئکل پر، ایسا جیسے کہ سانس لے رہے ہوں۔ یہی پھیلنا اور سکڑنا ہے جس کی وجہ سے اگر ڈیزائن ٹھیک نہ کیا جائے تو سڑکوں پر اور عمارتوں پر دراڑیں پڑ سکتی ہیں اور سٹرکچر تباہ کر سکتی ہیں۔
اگر کسی انجینیر کو جوزف کے تجربے کا بتایا جاتا تو وہ اندازہ لگاتا کہ کنکریٹ اور سٹیل کے پھیلنے کا تناسب مختلف ہو گا کیونکہ دونوں بہت فرق اشیاء ہیں۔ اس فرق کا یہ مطلب نکلے گا کہ پھیلنا اور سکڑنا اس کو توڑ دے گا۔ جوزف کے اپنے باغ میں گرمی اور سردی کے چکر میں الگ طرح سے پھیلتے دھات اور پتھر کا ملاپ ختم ہو جائے گا اور گملے ٹوٹ جائیں گے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ یہ تجربہ کسی انجینئیر نے نہیں، ایک باغبان نے کیا تھا۔ اتفاق اور خوش قسمتی، کہ کنکریٹ اور سٹیل کے پھیلنے کا کو ایفیشنٹ بالکل برابر ہے۔ جوزف نے ایک نیا میٹیریل دریافت کر لیا تھا۔ ایک اور برطانوی ولیم ولکنسن نے بھی اس کو نوٹ کیا۔ ری انفورسڈ کنکریٹ کا دور آ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں اب بھی بڑی تعداد میں غریب لوگ گارے اور لکڑی کے بنے گھروں میں رہتے ہیں جن کی چھت سٹیل کی چادر سے بنی ہوتی ہے۔ یہ رہائش گاہیں موسموں کے عناصر کے آگے محفوظ نہیں ہیں۔ گرمیوں میں گرم۔ بارشوں میں ٹپکتی چھت۔ طوفان انہیں گرا دیتے ہیں۔ سیلاب بہا دیتے ہیں۔ (یا پھر طاقتور اور بااثر افراد یا پولیس کے ہاتھوں بلڈوزر کا شکار ہو جاتی ہیں)۔ عناصر کے آگے مضبوط دفاع کرنے کے لئے مضبوط میٹیریل جو آگ، طوفان اور پانی سے بچا سکے اور اتنا سستا بھی ہو کہ اس کو افورڈ کیا جا سکے، اس کا حل ہے اور ری انفورسڈ کنکریٹ ایسا میٹیریل ہے۔
نہ صرف یہ سستا ہے بلکہ اس سے تعمیر کرنے کے لئے زیادہ افرادی قوت بھی نہیں چاہیے ہے۔ ایک شخص ایک کنکریٹ مکسر کے ساتھ چند ہفتوں میں بہت کچھ کر سکتا ہے۔
ایسا سٹرکچر بن سکتا ہے جو آسانی سے ہر قسم کے موسم کے آگے ایک صدی گزار لیتا ہے۔ بنیادوں میں پانی نہیں آتا۔ کیڑوں اور پھپھوندی کا حملہ روک دیتا ہے۔ اس کی دیواریں گرنے سے محفوظ رہنتی ہیں اور شیشے کو اچھی طرح پکڑ لیتی ہیں۔ اس کی دیکھ بھال کی زیادہ ضرورت نہیں۔ کوئی ٹائل طوفان میں نہ اڑتی۔ چھت سٹرکچر کا حصہ ہوتی ہے۔ اس پر انسولیشن ڈال کر گرمی روکی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ مٹی ڈال کر گھاس اور بیلیں اگائی جا سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ایک اونچی عمارت کا گرے سٹرکچر دیکھا ہو تو یہ خاموش نہیں۔ اس کے اندر کیلشیم سیلیکیٹ ہائیڈریٹ کے ریشے اگ رہے ہیں، مل رہے ہیں اور پتھر اور فولاد کے ساتھ جوڑ مضبوط کر رہے ہیں۔ یہ ٹاور مضبوط ہو رہا ہے۔ پہلے چوبیس گھنٹے کے بعد پانی سے مل کر یہ خاصا مضبوط ہو چکا ہوتا ہے لیکن یہ عمل ختم نہیں ہوتا۔ اس مصنوعی پہاڑ کا اندرونی سٹرکچر کئی سالوں تک مضبوط ہوتا رہتا ہے۔ سینکڑوں یا ہزاروں افراد، ان کا فرنیچر اور سامان اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ یہ عمارت اسی طرح سہتی رہے گی۔
فولاد اور کنکریٹ کا یہ مکسچر صرف مضبوط گملے ہی نہیں بناتا۔ اس وقت دنیا کے آدھے سٹرکچر اس سے بنے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...