پاکستان اور امریکہ کے تعلقات 1979 میں سردمہری کا شکار تھے۔ امریکہ پاکستان کی حکومت کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر بھی معترض تھا اور نیوکلئیر پروگرام پر بھی۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی بڑھتی دوستی بھی امریکہ کو پسند نہیں تھی۔ پاکستانی میڈیا میں امریکہ اب ایک ولن کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ اس پس منظر میں ریڈیو پر مسجد الحرام میں قبضے کی خبر آئی۔
صبح گیارہ بجے امریکی سفارتکار ہربرٹ ہیجرٹی نے فون اٹھایا۔ کال آسٹریلیا کے سفارتخانے سے تھی۔ آگاہ کیا گیا کہ پانچ سو نوجوانوں پر مشتمل جلوس امریکی سفارتخانے کی طرف نعرے لگاتا بڑھ رہا ہے۔ امریکہ کے خلاف یہ پہلا جلوس نہیں تھا۔ ان دنوں سوشلزم سے ہمدردی رکھنے والے ایسے جلوس گاہے بگاہے آتے رہتے تھے۔ اس وقت بھی کمبوڈیا کے مسئلے پر پاکستان میں بائیں بازو کی تنظیمیں امریکہ پر نکتہ چینی کر رہی تھیں۔
سفارت خانے کے گرد پاکستانی پولیس بھی تھی اور مضبوط دیوار بھی۔ حال میں ہی نفری تین گنا کر دی گئی تھی۔ امریکی یہاں پر اپنے آپ کو خطرے میں محسوس نہیں کرتے تھے۔ جلوس آتے تھے، نعرہ بازی کرتے تھے۔ یادداشت پیش کرتے تھے۔ مظاہرین کو یقین دہانی کروائی جاتی تھی کہ پیغام امریکی حکومت کے گوش گزار کیا جائے گا اور مظاہرین واپس چلے جایا کرتے تھے۔ یہ فون سن کر بھی یہی لگا کہ احتجاج کرنے والے ایسے ہی ہوں گے۔
کچھ دیر بعد آسٹریلین سفارت خانے سے ایک اور فون آیا۔ اس بار کہا گیا تھا کہ طلباء کی کئی بسیں گزری ہیں۔ یہ قائدِ اعظم یونیورسٹی کی بسیں تھیں۔ شلوار قمیض میں ملبوس نوجوان ایک طالبعلم تنظیم سے تعلق رکھتے تھے اور غصے میں بپھرے نظر آ رہے تھے۔ ہیجرٹی کو شک ہوا کہ کہیں اس کا تعلق اس خبر سے نہ ہو جو انہوں نے صبح سنی تھی لیکن پھر اس خیال کو جھٹک دیا۔ اس سے امریکہ کا کیا تعلق؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلامی دنیا کا ایک حصہ خود ترسی کے عالم سے گزر رہا تھا۔ اپنی ہر مشکل کا الزام مغربی دنیا کو دینے کا فیشن بن گیا تھا۔ پڑھے لکھے لوگ بھی ناقابلِ یقین سازشی تھیوریوں کی زد میں آ گئے تھے۔ جب پاکستانی ریڈیو پر خبر چلی کہ مسجد الحرام پر حملہ ہوا ہے تو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ذمہ دار کون ہے۔ ایک پاکستانی اخبار کے ایڈیٹر نے ساتھ قیاس آرائی کر دی تھی کہ “اس کے پیچھے امریکہ کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ امریکہ خلیجِ فارس پر کنٹرول کا خواہاں ہے۔ اسرائیل نے مکہ اور مدینہ میں کمانڈو اتارے ہیں۔ بڑی گیم شروع کر دی گئی ہے”۔
افواہ اس اخبار سے شروع ہوئی یا کچھ اور، قائدِ اعظم یونیورسٹی میں صبح ایک طلباء کی تنظیم نے کلاسوں میں لیکچر کے درمیان گھس کر اعلان کیا کہ امریکی یہود مقاماتِ مقدسہ پر قابض ہو گئے ہیں۔ غم و غصے میں بھرے یہ نوجوان جب بسوں میں بیٹھ کر سفارت خانے کی طرف آ رہے تھے تو ان کا مقصد یادداشت سفیر کے حوالے کرنا نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے ایک گاڑی نذرِ آتش کی گئی۔ اس دوران مجع کو روکنے کی کوشش میں ایک نوجوان آصف انتقال کر گیا۔ خیال ہے کہ پولیس کی گولی اس کو لگی تھی لیکن آصف کی سڑک پر پڑے خون آلود جسم نے اس مجمع کا جوش دو آتشہ کر دیا۔ پولیس اس غصے کو دیکھ کر غائب ہو گئی۔ ہجوم نے سفارت خانے کے گیٹ پر طبع آزمائی شروع کر دی۔
سفارت خانے میں چھ امریکی فوجی تھے۔ لوہے کا بڑا گیٹ کچھ دیر کوشش کے بعد ٹوٹ گیا۔ “امریکی کتے مردہ باد”، “انتقام، انتقام” کے نعرے لگاتے ہجوم کے طرف سے گولیاں چلنے لگیں۔ چیک پوائنٹ پر کھڑے انیس سالہ کارپورل سٹیو کرولے کے چہرے پر گولی لگی، وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ طبی امداد تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے چند گھنٹے بعد چل بسے۔ ہجوم سفارت خانے کے گراوٗنڈ تک آ گیا تھا۔
ہجوم نے سب سے پہلا نشانہ گاڑیوں کو بنایا۔ سفارتی عملے کی گاڑیاں پارکنگ میں کھڑی تھیں۔ ان پر پٹرول چھڑک کر آگ لگانی شروع کی۔ درجنوں گاڑیاں جلنے لگیں۔ ان کو راکھ کر دینے کے بعد حملہ آوروں نے کپڑوں پر پٹرول چھڑک کر جلا کر عمارت کی کھڑکیوں پر پھینکا شروع کئے۔ اب دوپہر کے دو بج رہے تھے۔
سفارتی عملے کے 137 افراد تھے۔ اس میں امریکی سفارتکار، پاکستانی عملہ اور کچھ مہمان تھے جن میں ٹائم میگیزین کے صحافی گرینجر بھی تھے۔ ماسٹر سارجنٹ ملر نے سب کو محفوظ کمرے والٹ کی طرف جانے کو کہا۔ امریکی میرین آنسو گیس کے شیل مظاہرین کی طرف پھینک رہے تھے۔ عمارت میں بچھے قالین آگ پکڑ رہے تھے۔ دو بج کر تئیس منٹ پر ماسٹر سارجنٹ نے اپنے فوجیوں کو راہداری چھوڑ دینے کا اشارہ کیا اور والٹ میں چلے جانے کو کہا۔ عملے کے چار افراد کے سوا اب سب والٹ میں پہنچ گئے تھے۔فاتح ہجوم نے عمارت سے امریکہ کا جھنڈا اتار کر اس کو نذرِ آتش کر دیا اور اس کی پاکستان کا جھنڈا لہرا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راولپنڈی میں امریکی انفارمیشن سنٹر اور کرسچن کانونٹ پہلے ہی جلایا جا چکا تھا۔ امریکن ایکسرپس کے دفاتر اور برٹش لائبریری سے بھی شعلے بلند ہو رہے تھے۔ لاہور میں امریکی کلچرل سنٹر، کراچی میں پین امریکن ائرلائن پر ہجوم حملہ آور تھا۔ اسلام آباد میں بینک آف امریکہ کی برانچ تہس نہس کر دی گئی تھی۔ لاہور میں طالب علم راہنما کے مطابق، “یہ کعبہ پر یہودی قبضے کا انتقام ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین بجے جرمن سفیر امریکی ایمبیسی پہنچے۔ مظاہرین کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ بہت ہو گیا، اب بس کر دیں اور معاملہ وہ نہیں جو ہجوم سمجھ رہا ہے۔ لیکن ان کو ناکامی ہوئی۔ دھواں بڑھ رہا تھا۔ عملے کے جو چار افراد والٹ میں نہں آ سکے، ہیجرٹی نے ان کو فون کے ذریعے ہدایت کی کہ وہ کوشش کریں کہ ہجوم میں ہی گھل مل جائیں۔ اس کے لئے انہیں دوسری منزل سے چھلانگ لگانا تھی۔ چاروں شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔ دو نے ہمت کی اور چھلانگ لگا دی۔ عملے کے دو پاکستانی افراد کی موت ان کے اپنے میز پر دم گھٹ جانے سے ہوئی۔
چار بجے مظاہرین سفارت خانے کی چھت پر چڑھ چکے تھے اور چھت توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ عمارت میں لگی آگ کی وجہ سے والٹ میں درجہ حرارت بڑھ رہا تھا۔ امریکی عملے کو خدشہ تھا کہ زیادہ دیر یہاں رہے تو اندر ہی پک کر مر نہ جائیں۔ ہجوم کو چھت توڑنے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ شام ڈھلنے لگی تھی۔ اندھیرا ہو رہا تھا۔ کینیڈا کے سفارتخانے کا عملہ یہ سب دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے ریڈیو سے پیغام بھیجا کہ اندھیرا ہونے کے ساتھ ساتھ ہجوم چھٹ رہا ہے سارجنٹ ملر نے اپنے ایک ساتھی سمیت ہمت کی کہ وہ چھت پر جا کر صورتحال دیکھیں۔ انہوں نے مظاہرین میں سے آخری شخص کو سیڑھی سے اتر کر واپس جاتے دیکھا۔ ان حملہ آوروں کے لئے تماشا بہت ہو گیا تھا۔ اور وہ واپس چلے گئے تھے۔ ایک ایک کر کے والٹ میں پھنسے افراد نے نکلنا شروع کیا اور تاروں بھرے آسمان میں لان میں اکٹھے ہونا شروع کیا۔ کارپورل کی بے جان لاش پڑی تھی۔ اس کے علاوہ مرنے والے امریکی برائن ایلس تھے۔ وہ اس روز چھٹی پر تھے اور اپنے سٹاف اپارٹنمنٹ میں سو رہے تھے جب مظاہرین نے اس میں داخل ہو کر ان کو گولیوں سے چھلنی کر کے ان کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔ عملے کے دو پاکستانی اور دو امریکی سفارتکار اس روز ہلاک ہوئے۔ مظاہرین میں سے آصف کے علاوہ ایک اور شخص عاشق کی ہلاکت ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعے کے بعد امریکہ نے تمام غیرضروری عملے کو پاکستان سے واپس بلا لیا۔ پاکستان نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا۔ پاکستان کے صدر نے امریکی صدر کو فون پر کہا، “پاکستان ایک محفوظ ملک ہے۔ چھوٹے موٹے واقعات تو چلتے رہتے ہیں۔ ان واقعات کی وجہ سے ہونے والے تمام نقصانات کا ہرجانہ پاکستانی حکومت ادا کرے گی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حج سے واپسی پر پاکستان کے 120 سینئیر فوجیوں کا گروپ ایران کے شہر قم میں رکا۔ یہاں پر ان کی ملاقات امام خمینی سے ہوئی۔ ٹی وی پر دکھائی جانے والی اس ملاقات میں امام خمینی نے پاکستان میں پچھلے روز ہونے والے واقعے کی گرمجوشی سے تعریف کرے ہوئے کہاِ، “ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے پاکستانی بھائی بھی اس بڑے شیطان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ لڑائی امریکہ اور ایران کے بیچ نہیں، کفر اور اسلام کے بیچ ہے۔ فتح قریب ہے۔ امریکہ کا معاشرہ جلد ہی منہدم ہو جائے گا۔ امریکہ میں سیاہ فام پہلے ہی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس معاشرے کو بکھرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ انشاء اللہ، جیت ہماری ہو گی”۔ افسروں نے “آمین” کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس طریقے سے ہونے والا سب سے برا فساد پاکستان میں ہوا لیکن دوسرے ممالک میں بھی اسی طرح کے واقعات ہوئے۔ بنگلہ دیش میں نمازِ جمعہ کے بعد ڈھاکہ میں امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتا دس ہزار کا ہجوم امریکی سفارت خانے پر حملہ آور ہوا لیکن سعودی سفیر نے وہاں پر ان کو سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیا کہ مسجدالحرام کے محاصرے میں نہ ہی امریکہ ملوث ہے اور نہ ایران۔ یہ سعودی عرب کا اندرونی معاملہ ہے۔ کلکتہ میں مظاہرے پھوٹ پڑے جس میں دکانیں توڑی پھوڑی گئیں۔ 30 نومبر کو کویت میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا جس کو کویتی فوج نے آنسو گیس اور گولیوں سے مقابلہ کر کے ناکام بنایا۔ دو دسمبر کو لیبیا میں امریکی ایمبیسی میں ہجوم کی طرف سے کئے جانے والے حملے میں امریکی عملے کو جان بچانے کے لئے فرار ہونا پڑا۔ مک کیوٹ کہانی سناتے ہیں کہ ایک طالب علم جو پچھلے روز امریکی سفارت خانے میں ہماری دستاویزات چرا رہا تھا، اگلے روز امریکہ کا ویزا لگوانے آیا ہوا تھا۔ میں نے پہچان لیا۔ وہ نیویارک پڑھنے جانا چاہتا تھا۔ میں نے اسے دیکھتے ہی فورا واپس جانے کو کہا۔ وہ پکارنے لگا، “آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کشیدگی کا شکار تھے لیکن جلد ہی ان کی نوعیت بدلنے والے تھی۔ اس کی وجہ پاکستان کے مغربی ہمسائے، افغانستان کی سیاست میں دونوں ممالک کا مشترکہ مفاد تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک فوجی ہیلی کوپٹر اس دوران یہاں تک پہنچا۔ حالات کا جائزہ لے کر بغیر رکے واپس چلے گیا۔ ساتھ لگی تصویر اس روز کی، جب یہ ہیلی کوپٹر سفارتخانے پر پرواز کر رہا تھا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...