نیویارک یونیورسٹی کی طالب علم لیٹا پراکٹر نے 1986 میں سمندر میں وائرس گننے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت عام خیال یہ تھا کہ شاید ہی کچھ ملے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ سمندر میں جو وائرس ہوئے، وہ نکاسِ آب کے پانی اور زمین سے جانے والے دوسرے ذرائع کے سبب ہوں گے۔
لیکن کچھ سائنسدانوں کو شواہد مل رہے تھے جو اس عام اتفاقِ رائے سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ سمندر کی بائیولوجسٹ جان سی برتھ نے سمندری بیکٹیریا کی تصویر شائع کی تھی جو وائرس سے بھرا پڑا تھا۔ اس کو دیکھ کر پراکٹر نے اس پر تحقیق کی ٹھانی۔ وہ جزائر غرب الہند میں سارگاسو سمندر میں گئیں اور سمندر کا پانی حاصل کیا۔ اس میں سے بہت احتیاط سے بائیولوجیکل مواد الگ کیا اور الیکٹران مائیکروسکوپ کے نیچے دیکھا۔ یہ وائرس کی دنیا تھی۔ کچھ آزاد پھر رہے تھے، کچھ وائرس کے اندر ڈیرا جمائے ہوئے تھے۔ پراکٹر نے تخمینہ لگایا کہ ایک لٹر سمندری پانی میں ایک کھرب وائرس ہیں۔
پراکٹر کا عدد دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ اس میں کچھ صفر غلطی سے گر گئے ہیں لیکن جب دوسرے سائنسدانوں نے اپنا سروے کیا تو ایسے ہی تخمینوں کے قریب پہنچے۔ فی لٹر ایک کھرب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائرس کسی بھی اور سمندری رہائشی سے کہیں زیادہ ہیں۔ اگر تمام سمندری وائرس اکٹھے کر دئے جائیں تو ان کا وزن ساڑھے سات کروڑ نیلی وہیل کے برابر ہو گا۔ اگر ان کو ساتھ ساتھ رکھا جا سکے تو یہ ہماری کہکشاں کے سائز سے ساٹھ گنا زیادہ ہو گا۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ سمندر خطرناک جگہ ہے۔ ان میں سے بہت ہی کم ایسے ہیں جو انسان کو انفیکٹ کرنے کے قابل ہیں۔ کچھ مچھلیوں اور دوسرے سمندری جانداروں کو انفیکٹ کرتے ہیں لیکن یہ سب سے زیادہ جراثیم کو انفیکٹ کرتے ہیں۔ یہ جراثیم ہمیں دکھائی نہیں دیتے لیکن تمام وہیل، کوریل ریف اور دوسرے نظر آنے والی زندگی سے کہیں زیادہ ہیں۔ جس طرح ہمارے جسم میں بیکٹیریا پر فیج حملہ کرتے ہیں۔ ویس ہی سمندری بیکٹیریا پر سمندری فیج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پراکٹر کی دریافت کے بعد سائنسدان ان کے زمین پر کئے جانے والے اثر کا معلوم کر رہے ہیں۔ یہ موسم پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ سمندری وائرس نے اربوں سال سے زندگی کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ بائیولوجی کی جیتی جاگتی میٹرکس ہیں۔
یہ اتنے اہم اس لئے ہیں کہ یہ اتنے کامیاب ہیں۔ ہر سینکڈ میں دس ٹریلین جراثیم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ہر روز، سمندر کے تقریباً نصف بیکٹیریا کو مار دیتے ہیں۔ وائرس کی ہلاکت خیزی آبی مائیکروب کی تعداد کو قابو میں رکھتی ہے اور اس قاتلانہ خاصیتوں سے ہم بہت فائدہ اٹھاتے ہیں۔
مثلاً، ہیضہ پانی میں بننے والی بیکٹیریا وبریئو کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ بیکٹیریا کئی وائرس کو پسند ہے۔ جب وابرئیو کی آبادی بڑھ جائے تو ہیضے کی وبا پھیل جاتی ہے۔ اور اس وقت انکو مارنے والے فیج تیزی سے بڑھتے ہیں۔ اتنی تیزی سے کہ اس قدر تیزرفتاری سے بیکٹیریا بڑھ نہیں سکتے۔ بیکٹیریا کا بلوم ختم ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی وبا بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیضے کی وبا روکنا آبی وائرس کا ایک چھوٹا اثر ہے۔ یہ اس قدر زیادہ مائیکروب مارتے ہیں کہ اس کا اثر سیارے کے موسم پر پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مائیکروب خود زمین کے زبردست جیو انجینیر ہیں۔ الجی اور فوٹوسنتھیسز کرنے والی بیکٹیریا زمین پر بننے والی نصف آکسیجن بناتے ہیں۔ الجی ڈائی میتھائیل آکسیجن خارج کرتی ہے جو ہوا میں بلند ہو کر بادلوں کے بیج کا کام کرتی ہے۔ یہ بادل سورج کی شعاعیں منعکس کرتے ہیں اور سیارے کا درجہ حرارت کم کرتے ہیں۔ مائیکروب بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی جذب اور خارج کرتے ہیں۔ یہ گیس زمین کے درجہ حرارت پر اثر ڈالتی ہے۔ کئی مائیکروب کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرتے ہیں جو زمین کی حرارت کو قید کرنے والی گیس ہے۔ الجی اور فوٹو سنتھیٹک بیکٹیریا اس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے زمین کو سرد کرتے ہیں۔ جب سمندری مائیکروب مرتے ہیں تو یہ کاربن سمندر کی تہہ میں جا کر برستا ہے۔ کئی ملین سالوں سے یہ مائیکروبیل برفباری سیارے کا درجہ حرارت کم کر رہی ہے۔ یہ مردہ آرگنزم تہہ میں چٹان کی صورت میں جمع ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ڈوور کی سفید پہاڑیاں یک خلوی جانداروں کوکولیتھوفور کی باقیات سے بنی ہیں۔
وائرس ان جیو انجینیرز کو روزانہ ٹریلینوں کی تعداد میں مارتے ہیں۔ جب یہ مرتے ہیں تو ان کا جسم کھل جاتا ہے اور روزانہ کئی ارب ٹن کاربن اس طریقے سے خارج ہوتا ہے۔ اس آزاد ہو جانے والے کاربن میں سے کچھ کھاد کا کام کرتا ہے۔ اس سے نئے مائیکروب کی پیداوار متحرک ہوتی ہے۔ جبکہ کچھ سمندر کی تہہ میں چلا جاتا ہے۔ یہ چپکنے والی مایلیکیول دوسرے مالیکیول کے ساتھ ملکر زیرِسمندر برفباری کا طوفان برپا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمندری وائرس نہ صرف تعداد بلکہ تنوع کے لحاظ سے بہت وسعت رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ انسانی جین اور شارک کی جین میں فرق بہت زیادہ نہیں۔ اتنا کم ہے کہ سائنسدان شارک جینوم کے اکثر جینز انسانی جینوم میں کسی ویری ایشن کے ساتھ تلاش کر لیتے ہیں۔ جبکہ سمندری وائرس کے جینوم میں سے تقریباً کچھ بھی نہیں ملتا۔ برمودا، خلیجِ میکسیکو، بحیرہ آرکٹک، شمالی بحرِ اوقیانوس سے اکٹھے کئے جانے والی اٹھارہ لاکھ شناخت کی جانے والی وائرل جین میں سے صرف دس فیصد ایسا ہے جس کا مقابل کسی بھی جانور، پودے یا کسی مائیکروب میں ملا ہے۔ یا کسی بھی دوسرے معلوم وائرس میں۔ باقی نوے فیصد سائنس کے لئے نیا ہے۔ دو سو لٹر سمندری پانی میں وائرس کی پانچ ہزار انواع ملتی ہیں جبکہ سمندری تہہ کی مٹی کے ایک کلوگرام میں دس لاکھ انواع۔
سمندری وائرس کے پاس انفیکٹ کرنے کو بہت سے شکار ہیں۔ ان کو ہر ایک کا دفاع توڑنے کرنے کی سٹریٹیجی بنانا ہے۔ لیکن ان کے تنوع کی پرامن وجوہات بھی ہیں۔ ٹمپریٹ فیج اپنے میزبان کے ڈی این اے سے پرامن طریقے سے مل جاتے ہیں۔ جب خلیہ تقسیم ہوتا ہے تو وائرس کا ڈی این اے بھی کاپی ہو جاتا ہے۔ جب میزبان خلیہ سٹریس کا شکار ہو تو یہ ٹوٹ کر الگ ہو جاتا ہے۔ نسل در نسل ایسا کرنے میں یہ میوٹیشن اکٹھی کر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ فرار نہیں ہو پاتا۔ اپنے میزبان کے جینوم کا مستقل حصہ بن جاتا ہے۔
کئی بار میزبان خلیہ جب نئے وائرس تیار کر رہا ہوتا ہے تو غلطی سے اپنی کسی جین کا اضافہ بھی کر دیتا ہے۔ یہ نئے وائرس اپنے میزبان کی جینز اٹھائے سمندر میں تیرتے رہتے ہیں اور اپنے ساتھ پچھلے میزبان کی جین بھی اگلے میزبان میں منتقل کر دیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سمندری وائرس جین ٹرانسفر کرنے والا کام سال میں ایک ٹریلین ٹریلین بار کرتے ہیں۔
کئی بار یہ نئی آنے والی جینز کسی نئے میزبان کو مزید کامیاب بنا دیتی ہیں۔ اسے بڑھنے میں مدد کر دیتی ہیں۔ میزبان کی کامیابی وائرس کی بھی کامیابی ہے۔ وائرس کی کچھ اقسام وبریو کو مار دیتی ہیں جبکہ کچھ اور اقسام بیکٹیریا کو نئے ٹوکسن خارج کرنے کی جین فراہم کرتی ہیں جو نئی ایفیکشن کرتے ہیں۔ ٹوکسن کا تبادلہ کروا دینے والے یہ وائرس بیکٹیریا کے لئے نئی ہیضے کی وبا پھیلانے میں معواون ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائرس کے ذریعے جین کا لین دین دنیا کی آکسیجن بنانے میں براہِ راست مددگار ہے۔ وافر مقدار میں موجود سمندری بیکٹیریا سائینیکوکوکس زمین پر ہونے والا ایک چوتھائی فوٹو سنتھیسز کرتا ہے۔ جب سائنسدان اس کے ڈی این اے کا مطالعہ کرتے ہیں تو اکثر انہیں وائرس سے آنے والے پروٹین روشنی پکڑنے والا کام کرتے ملتے ہیں۔ سائنسدانوں نے آزاد وائرس میں فوٹوسنتھیسز والے جین کی موجودگی شناخت کی ہے جو کسی سے لے کر بھاگے تھے اور نئے میزبان کی تلاش میں تھے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ہونے والا دس فیصد فوٹوسنتھیسز وائرل جین کرتے ہیں۔ اپنی دس سانسیں لیں۔ ان میں سے ایک سانس پہنچنے کی پیشکش وائرس کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آبی وائرس کا جین کو اس طریقے سے ادل بدل کرنا زمین پر زندگی کی تاریخ پر بڑا اثر رکھتا رہا ہے۔ آخر، زندگی نے ابتدا بھی پانی سے کیا تھا۔ ہمیں آبی مائیکروب کے ساڑھے تین ارب سال پرانے فوسل ملتے ہیں۔ کثیرخلوی جانداروں کا ارتقا بھی پانی میں ہوا تھا۔ ہمیں ان کے دو ارب سال پرانے فوسل ملتے ہیں۔ ممالیہ کی لڑی کے جانداروں کو خشکی پر آئے تو صرف چالیس کروڑ سال ہوئے ہیں۔ وائرس اپنے نشان چٹانوں پر نہیں چھوڑتے۔ اپنے میزبانوں کے جینوم میں چھوڑتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ وائرس خود اربوں سال پرانے ہیں۔
زندہ چیزوں کے درمیان وائرس جین کا تبادلہ کرتے رہے ہیں۔ ڈارون نے زندگی کو درخت کی طرح تصور کیا تھا۔ لیکن جین کی تاریخ بتاتی ہے کہ کم از کم آبی مائیکروب اور ان کے وائرس میں یہ ایک درخت کے بجائے مصروف تجارتی نیٹورک کی طرح کا ہے۔ اس جال کے تانے بانے اربوں سال سے بُنے جا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر “سمندری برفباری” کی۔ یہ نامیاتی مواد ہے جو بالائی سمندر سے گہرے سمندر کی طرف گرتا ہے۔